سوال
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
حضرت ایک سوال ہے ایک لڑکی کا نکاح ہوگیا اور ابھی خلوت صحیحہ نہیں پائی گئی اور خلوت صحیحہ سے پہلے ہی شوہر کا انتقال ہو گیا تو اس عورت پر عدت آئے گی یا نہیں، آئے گی تو کیوں، اور نہیں آئےگی تو کیوں، حوالے کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں بہت مہربانی ہوگی؟
سائل: محمد انصاف للریا
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
متوفی عنہا زوجہا کی عدت چار مہینے دس دن ہے۔ چاہے عورت کا نکاح ہوتے ہی شوہر کا انتقال ہوجائے اور شوہر نے اس کو دیکھا تک نہ ہو، اور اس خاص مدت تک یہ عورت کسی دوسری جگہ نکاح نہیں کرسکتی، یہ مدت شوہر سے وفات کی صورت میں چار مہینہ دس دن مقرر ہے۔
قرآن کریم میں ہے۔
والذین یتوفون منکم ویذرون أزواجا یتربصن بأنفسھن أربعة أشھر وعشرا فإذا بلغن أجلہن فلا جناح علیکم فیما فعلن في أنفسھن بالمعروف والله بما تعملون خبیر۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے
عدۃ الحرۃ فی وفاۃ أربعۃ اشہر وعشرۃ ایام سواء کانت مدخولا بھا او لا مسلمۃ او کتابیۃ تحت مسلم صغیرۃ او کبیرۃ او آئسۃ و زوجھا حر او عبد حاضت فی ھذہ المدۃ او لم تحض و لم یظھر حملھا ھکذا فتح القدیر ( فتاوی عالمگیری ١/٥٥٥)
عدت کی مشروعیت مختلف مقاصد کے پیش نظر ہے،
(١) استبراءِ رحم یعنی بچہ دانی کے خالی اور فارغ ہونے کا یقین ہونا ہے، کیوں کہ اس میں نسب کی حفاظت ہے۔
(٢) رشتۂ نکاح کی عظمت و فخامت کا اظہار ہے کہ یہ رشتہ نہ تو انتہائی آسانی سے بن سکتا ہے اور نہ ہی انتہائی آسانی سے ختم ہوسکتا ہے، بلکہ مکمل طور سے ختم ہونے میں بھی وقت لگتا ہے،
(٣) اس رشتہ کے منقطع ہونے پر ملال وحزن کا اظہار ہے۔
(٤) سب سے بڑا مقصد تو امر تعبدی ہے، یعنی یہ حکم منصوص ہے، اور قرآن میں اللہ نے عدت میں بیٹھنے کا حکم فرمایا ہے اس کو پورا کرنا ہے، چاہے قرآنِ کریم کے منصوص اَحکام کی حکمت و مقصد سمجھ میں نہ آئے تو بھی اسے دل سے تسلیم کرلینا ہی شانِ بندگی ہے۔
یعنی یہ عدت گزارنا اللہ تعالی کا حکم ہے، عورت مطلقہ ہو یا بیوہ، حاملہ ہو یا غیر حاملہ، اسے حیض آتا ہو یا وہ ایسی عمر میں ہو جس میں حیض نہ آتا ہو،ان تمام صورتوں میں عدت کے اَحکام اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں صراحتاً بیان فرمادیے ہیں، اور ہم سب اللہ رب العزت کے بندے ہیں، اور ہم پر بندگی لازم ہے، یہ ہے امر تعبدی۔
حجة الله البالغة میں ہے
"قال الله تعالى: {والمطلقات يتربصن بأنفسهن ثلاثة قروء} إلى أخر الآيات.
اعلم أن العدة كانت من المشهورات المسلمة في الجاهلية، وكانت مما لايكادون يتركونه، وكان فيها مصالح كثيرة:
منها: معرفة براءة رحمها من مائه، لئلاتختلط الأنساب، فانّ النسب أحد ما يتشاح به، ويطلبه العقلاء، وهو من خواصّ نوع الإنسان، ومما امتاز به من سائر الحيوان، وهي المصلحة المرعية من باب الاستبراء.
ومنها: التنويه بفخامة أمر النكاح حيث لم يكن أمرًا ينتظم إلا بجمع رجال، ولاينفك إلا بانتظار طويل، ولولا ذلك لكان بمنزلة لعب الصبيان ينتظم، ثم يفك في الساعة.
ومنها: أنّ مصالح النكاح لاتتم حتى يوطنا أنفسهما على إدامة هذا العقد ظاهرًا، فإن حدث حادث يوجب فكّ النظام لم يكن بدّ من تحقيق صورة الإدامة في الجملة بأن تتربصّ مدّةً تجد لتربّصها بالًا، وتقاسي لها عناء. (حجة الله البالغة /٢١٩)
اسی طرح الدر المختار ہے۔
"(ثلاث حيض كوامل) لعدم تجزي الحيضة، فالأولى لتعرف براءة الرحم، والثانية لحرمة النكاح، والثالثة لفضيلة الحرية.
(قوله: فالأولى إلخ) بيان لحكمة كونها ثلاثا مع أن مشروعية العدة لتعرف براءة الرحم أي خلوه عن الحمل وذلك يحصل بمرة فبين أن حكمة الثانية لحرمة النكاح أي لإظهار حرمته، واعتباره حيث لم ينقطع أثره بحيضة واحدة في الحرة والأمة، وزيد في الحرة ثالثة لفضيلتها." (رد المحتار ٥/١٨٢)
فتح القدير للكمال ابن الهمام میں ہے
"لأنّ العدة وجبت للتعرف عن براءة الرحم في الفرقة الطارئة على النكاح ... ثمّ كونها تجب للتعرف لاينفي أن تجب لغيره أيضًا، وقد أفاد المصنف فيما سيأتي أنها أيضًا تجب لقضاء حق النكاح بإظهار الأسف عليه، فقد يجتمعان كما في مواضع وجوب الأقراء، وقد ينفرد الثاني كما في صور الأشهر."فتح القدير للكمال۔ (ابن الهمام ٤/ ٢٧٥-٢٧٦) واللہ اعلم بالصواب
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں