سوال
کوئی شخص اگر اپنی بیوی کو شھوت سے بوسہ لے تو کیا اس کا وضؤ توٹہ جائے گا
سائل: شہباز بدرالدین حنفی دیوبندی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
بیوی کو بوسہ لینا یہ نوا قض وضو میں سے نہیں ہے، نواقض وضو یہ ہے۔
(۱) آگے یا پیچھے کی شرمگاہ سے کسی چیز کا نکلنا مثلاً پاخانہ، پیشاب، حیض و نفاس کا خون، پاخانہ کی جگہ سے کیڑا وغیرہ نکلنا۔
(٢) بدن کے کسی حصے سے نجاست کا نکلنا اور بہہ جانا۔ خون، پیپ، مواد وغیرہ۔
(٣) منھ بھر کے قے کرنا
(٤) نیند جس سے اعضا مضمحل ہوجائیں یعنی: ٹیک وغیرہ لگاکر سونا
(٥) بے ہوش یا پاگل ہوجانا (٦) رکوع سجدہ والی نماز میں قہقہہ لگانا۔
(٧) مباشرت فاحشہ یعنی بلا کسی حائل کے شرمگاہ کا شرمگاہ سے ملانا (ملخص از تعلیم الاسلام و بہشتی زیور وغیرہ)
صورت مسئولہ میں شہوت کے ساتھ بیوی کو چھونے یا بوس و کنار کرنے سے اگر شرم گاہ سے مذی وغیرہ نکل جائے تو وضو ٹوٹ جائے گا اور اگر شرم گاہ سے مذی وغیرہ نہ نکلے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹتا ۔
ابن ماجہ میں حدیث ہے۔
عن عروة بن الزبير، عن عائشة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم: قبّل بعض نسائه، ثم خرج إلى الصلاة، ولم يتوضأ قلت: ما هي إلا أنت! فضحكت۔(سنن ابن ماجه ١/١٦٨)
اسی طرح اعلاء السنن ہے۔
عن عائشۃ رضي اللہ تعالی عنہا أن النبي ﷺ کان یقبل بعض نسائہ ثم یخرج إلی الصلاۃ ولا یتوضأ (باب ترک الوضوء من مس المراہ، ١/١٥٠)
اسی طرح شامی میں ہے۔
لا عند مذي أو ودي بل الوضوء منه ومن البول جميعا على الظاهر. تحتہ الشامی قوله: لا عند مذي أي لايفرض الغسل عند خروج مذي كظبي بمعجمة ساكنة وياء مخففة على الأفصح، وفيه الكسر مع التخفيف والتشديد، وقيل: هما لحن ماء رقيق أبيض يخرج عند الشهوة لا بها، وهو في النساء أغلب، قيل هو منهن يسمى القذى بمفتوحتين نهر۔ (الدر المختار مع الشامی ١/٣٠٤) فقط واللہ اعلم۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں