سوال
السلام علیکم و رحمۃ اللہ
ایک عورت اپنی لڑکی کے ساتھ دوسرے لڑکے کو بھی دودھ پلایا اب یہ لڑکی اور اسکی دوسری بہنیں لڑکے کی محرم ہونگی یا نہیں ؟
سائل: محمد حبیب اللہ پاکستانی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
شرعی اعتبار سے رضاعت کی وجہ سے وہ تمام رشتے حرام ہوجاتے ہیں جو نسب کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں لہذا اگر کوئی بچہ مدتِ رضاعت میں کسی عورت کا دودھ پی لے تو وہ بچے کی رضاعی ماں بن جاتی ہے اور اس بچے پر یہ عورت ، اس کے اصول وفروع اور بہن ،بھائی سب حرام ہوجاتے ہیں۔
لہذا صورت مسئولہ میں جس عورت نے اپنی حقیقی بیٹی کے ساتھ کسی اور بچے کو دودھ پلایا ہے وہ اس کی رضاعی ماں اور وہ لڑکی اور اس کی دوسری بہنیں اس دودھ پینے والے بچے کی رضاعی بہنیں ہوجائے گی اس کا نکاح اس بچی اور اس کی حقیقی بہنوں سے حرام ہوگا۔
قرآن میں ہے۔
قال الله تعالى:﴿حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ مِنَ الرَّضَاعَة﴾
مسلم شریف میں ہے۔
عن عائشة، أنها أخبرته: أن عمها من الرضاعة يسمى أفلح. استأذن عليها فحجبته، فأخبرت رسول الله صلى الله عليه وسلم. فقال لها: "لا تحتجبي منه، فإنه يحرم من الرضاعة ما يحرم من النسب"۔(الصحيح لمسلم، كتاب الرضاع، باب يحرم من الرضاع مايحرم من النسب، ج:١/٤٦٧)
تنقيح الفتاوى الحامدية میں ہے۔
قال في الكافي: إذا أرضعت المرأة صبيا حرم عليه أولادها من تقدم ومن تأخر؛ لأنهن أخواته، وكذا ولد ولدها اعتبارا بالنسب؛ لأنه ولد أخيه۔(تنقيح الفتاوى الحامدية، باب الرضاع،ج١/٣٣) واللہ اعلم بالصواب
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں