سوال
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ مفتی صاحب مسئلہ یہ ہے کہ گانا باجا یا گانا دونو ہی تو حرام ہیں لیکن کچھ گانے ایسے ہوتے ہیں جن میں خدا کو غلط کہدیتے ہیں تو اس کے سننے والے کا کیا حکم ہے آیا وہ مسلمان رہا یا وہ بھی ان کے ساتھ شریک ہو گیا اس گناہ میں وہ گانے اس طرح کے الفاظ پر مشتمل ہیں،
1۔تِرَتْ میری تُو رب میرا تو
2۔ تجھ میں رب دِکھتا ہے یارا میں کیا کروں*
3۔میں نے سوچا تیری شکایت کروں رب سے مگر پہر جانا کہ خدا بھی تیرا عاشق نکلا*
4۔رب سے پردہ کیجیئے کہیں چرا نہ لے تیرے چہرے کا نور
5۔حسینوں کو آتے ہیں کیا کیا بہانے خدا بھ نہ جانے*
6۔رب روٹھے تو روٹھے یار نہ روٹھے
مفتی صاحب_کیا ان کے سننے سے کفر کا اندیشہ ہے یا نکاح ٹوٹنے کا امکان ہے؟ کوئی اور حکم ہے انکا مہربانی فرماکر رہنمائی فرمائیں جزاکم اللہ خیرا
سائل: محمد عبداللہ بن رحیم بخش
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
ایسا منظوم کلام جس کے اشعار کفریہ و شرکیہ یا شریعت کی تعلیمات کے خلاف مضامین ہوں، ایسے اشعار کا سننا اور بولنا جائز نہیں ہے، جس شخص نے جان بوجھ کر کوئی ایسا کلمہ زبان سے کہہ دیا جس سے متفقہ طور پر کفر لازم آتاہے اس پر تجدید ایمان بھی لازم ہے اور تجدید نکاح بھی ہے، اور مذکورہ اشعار بھی صریح کفریہ کلمات پر مشتمل ہے۔
محیط برہانی میں ہے۔
ومن اتى بلفظة الكفر مع علمه أنها لفظة الكفر عن اعتقاد, فقد كفر, وإن لم يعتقد أو لم يعلم أنها لفظة الكفر, ولكن أتى بها عن اختيار, فقد كفر عند عامة العلماء رحمهم الله تعالى (المحيط البرهاني ٧/٣٩٧)
اگر کوئی ایسا جملہ کہہ دیا جس کے کفر ہونے میں اختلاف ہو، یا کلمہ تو متفقہ طور پر کفریہ ہی ہو، لیکن متکلم کو اس کے کفریہ ہونے کا علم نہ ہو تو اس پر اس سے رجوع کرکے توبہ و استغفار لازم ہے اور احتیاطا تجدید نکاح بھی کروالیا جائے، لہذا کسی نے ےہ الفاظ بلانیت ایسے ہی منھ سے نکال دئے تو اس پر کفر کا حکم تو نہیں لگے گا لیکن تجدید نکاح کا حکم ہوگا۔
شامی میں ہے۔
و) اعلم أنه (لا يفتى بكفر مسلم أمكن حمل كلامه على محمل حسن أو كان في كفره خلاف، ولو) كان ذلك (رواية ضعيفة) كما حرره في البحر، وعزاه في الأشباه إلى الصغرى. وفي الدرر وغيرها: إذا كان في المسألة وجوه توجب الكفر وواحد يمنعه فعلى المفتي الميل لما يمنعه، ثم لو نيته ذلك فمسلم وإلا لم ينفعه حمل المفتي على خلافه (٤/٢٢٩ ط: دار الفکر)
رد المحتار
أن ما يكون كفرا اتفاقا يبطل العمل والنكاح، وما فيه خلاف يؤمر بالاستغفار والتوبة وتجديد النكاح
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار ط: دار الفکر ٤/٢٣٠)
اور وہ الفاظ جس میں کفر تو نہیں ہے لیکن ان کا کہنا غلط ہو تو ان کو بولنے کی وجہ سے اسلام سے خارج تو نہیں ہوگا اور نہ ہی نکاح ختم ہوتا ہے،البتہ سخت گناہ ہے اور ان سے رجوع کرکے توبہ و استغفار لازم ہے۔
اور بھولے سے کلمۂ کفریہ زبان سے نکل جائے تو اس کی وجہ سے آدمی اسلام سے خارج نہیں ہوتاہے، لہذا اس صورت میں ایمان اور نکاح کی تجدید لازم نہیں ہوگی۔
فتاویٰ تاتار خانیہ میں ہے۔
وفي الظهيرية: وان لم تكن له نية حمل المفتى كلامه على وجه لا يوجب التكفير ويؤمر بالتوبة والاستغفار واستجداد النكاح۔ (الفتاوى التاتارخانية ٧/٢٨٢)
مجمع الأنهر میں ہے۔
فما يكون كفرا بالاتفاق يوجب إحباط العمل كما في المرتد وتلزم إعادة الحج إن كان قد حج ويكون وطؤه حينئذ مع امرأته زنا والولد الحاصل منه في هذه الحالة ولد الزنا ثم إن أتى بكلمة الشهادة على وجه العادة لم ينفعه ما لم يرجع عما قاله لأنه بالإتيان بكلمة الشهادة لا يرتفع الكفر وما كان في كونه كفرا اختلاف يؤمر قائله بتجديد النكاح وبالتوبة والرجوع عن ذلك احتياطا وما كان خطأ من الألفاظ لا يوجب الكفر فقائله مؤمن على حاله ولا يؤمر بتجديد النكاح ولكن يؤمر بالاستغفار والرجوع عن ذلك، هذا إذا تكلم الزوج فإن تكلمت الزوجة ففيه اختلاف في إفساد النكاح وعامة علماء بخارى على إفساده لكن يجبر على النكاح ولو بدينار وهذا بغير الطلاق۔ (مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (مجمع الانہر ١/٦٨٧) واللہ اعلم بالصواب
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں