پیر، 24 جنوری، 2022

اس کمپنی میں کام کرنا جس میں صرف حرام کام ہوتاہو

 سوال

السلام علیکم و رحمۃ اللہ علیہ و برکاتہ 

اگر کوئی شخص کسی ایسی کمپنی میں کام کرنا چاہتا ہے جس کمپنی میں صرف حرام کام ہوتا ہے مثلا وہ کمپنی جوا کھیلاتی ہے تو اس کمپنی میں کام کرنا کیسا ہے اور اس کمپنی سے تنخواہ لینا کیسا ہے اسکا جواب تفصیل سےدیکر شکریہ کا موقع فراہم کرے۔

سائل: محمد صدیق ہریدوار


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ


وَكُلُوۡا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَيِّبًا‌ ۖ وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِىۡۤ اَنۡـتُمۡ بِهٖ مُؤۡمِنُوۡنَ ۞

ترجمہ: لوگو جو حلال طیّب روزی خدا نے تم کو دی ہے اسے کھاؤ اور خدا سے جس پر ایمان رکھتے ہو ڈرتے رہو


اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ پاک نے اپنے تمام لوگوں کو دو ہدایتیں دی ہیں؛

(۱)حلال وپاکیزہ کھانا کھاو۔ (۲) رزق کے سلسلہ میں اس سے ڈرو۔


علماء کرام نے ان دونوں چیزوں کو ایک ساتھ ذکر کرنے کی حکمت یہ بیان فرمائی ہے کہ حلال غذا کا عملِ صالح میں بڑا دخل ہوتا ہے، جب انسان کی غذا حلال وپاکیزہ ہوتی ہے، تو اسے نیک اعمال کی توفیق خود بخود ہونے لگتی ہے، اوراگر غذا حرام ہوتو نیک کاموں کا ارادہ کرنے کے باوجود بھی اسے اس میں بڑی مشکلات پیش آتی ہیں، اور وہ نیک کاموں سے دور ہی رہتا ہے، لہذا رزق حلال کا کوشاں ہمیشہ کامیاب و بامراد ہوتاہے۔


لہذا انسان جس کمپنی میں کام کریں، اگر اس کی ملازمت حلال کاروبار کے شعبہ میں ہے تو فی نفسہ اس ملازمت میں قباحت نہیں، کرسکتے ہیں، تاہم ایسی جگہ ملازمت کرنا جہاں دونوں طرح کے کاروبار(حلال وحرام)ہوتے ہوں وہاں ملازمت کرنا مناسب نہیں،اس لیے اگر کوئی اور جگہ ملازمت مل جائے تو اس کو ترک کردیں، لیکن جب تک کوئی دوسری ملازمت نہ ملے اس کوجاری رکھیں۔


اور جس کی مکمل  آمدنی حرام ہے، اس میں نوکری کرنا جائز نہیں ہے، اس لیے کہ اس میں جو نفع ہوگا اس میں بھی  اس حرمت کا اثر آئے گا۔


لہذا مسؤلہ صورت میں اگر س کی آمدنی مکمل حرام ہے تو اس کمپنی میں کام کرنا جائز نہیں ہے۔


شامی میں ہے۔

(قولہ اکتسب حراما إلخ) توضیح المسألة ما فی التتارخانیة حیث قال: رجل اکتسب مالا من حرام ثم اشتری فہذا علی خمسة أوجہ: أما إن دفع تلک الدراہم إلی البائع أولا ثم اشتری منہ بہا أو اشتری قبل الدفع بہا ودفعہا، أو اشتری قبل الدفع بہا ودفع غیرہا، أو اشتری مطلقا ودفع تلک الدراہم، أو اشتری بدراہم أخر ودفع تلک الدراہم. قال أبو نصر: یطیب لہ ولا یجب علیہ أن یتصدق إلا فی الوجہ الأول، وإلیہ ذہب الفقیہ أبو اللیث، لکن ہذا خلاف ظاہر الروایة فإنہ نص فی الجامع الصغیر: إذا غصب ألفا فاشتری بہا جاریة وباعہا بألفین تصدق بالربح. وقال الکرخی: فی الوجہ الأول والثانی لا یطیب، وفی الثلاث الأخیرة یطیب، وقال أبو بکر: لا یطیب فی الکل، لکن الفتوی الآن علی قول الکرخی دفعا للحرج عن الناس اہ. وفی الولوالجیة: وقال بعضہم: لا یطیب فی الوجوہ کلہا وہو المختار، ولکن الفتوی الیوم علی قول الکرخی دفعا للحرج لکثرة الحرام اہ وعلی ہذا مشی المصنف فی کتاب الغصب تبعا للدرر وغیرہا (الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار٧/٤٩٠ ط: زکریا، دیوبند)


فقہ البیوع میں ہے۔

السادس : بیع الأشیاء إلیہ(البنک) : وفیہ تفصیل ، فإن کان المبیع ممایتمحٖض استخدامہ فی عقد محرم شرعاً، مثل برنامج الحاسوب الذی صمم للعملیات الربویۃ خاصۃ، فإن بیعہ حرام للبنک وغیرہ ، وکذلک بیع الحاسوب بقصد أن یستخدم فی ضبط العملیات المحرمۃ أوبتصریح ذلک فی العقد.أمابیع الأشیاء التی لیس لہا علاقۃ مباشرۃ بالعملیات المحرمۃ ، مثل السیارات أو المفروشات ، فلیس حراماً، وذلک لأنہا لایتمحض استخدامہا فی عمل محظور. (فی فقہ البیوع۔ ٢/٢٦٣) واللہ اعلم بالصواب


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا 


کوئی تبصرے نہیں: