سوال
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
حضرت زید کے دو بیٹے ہیں دونوں اپنے والد سے الگ رہتے ہیں ۔ایک بیٹے کا روزگار اچھا چل رہا ہے اسے والد کے مالی تعاون کی ضرورت نہیں جبکہ دوسرے بیٹے کی مالی حالت ٹھیک نہیں۔ تو زید پر دونوں بیٹوں کی اولاد (اپنے پوتوں) میں تعاون میں برابری ضروری ہے؟
دوسرے نمبر والے بیٹے کا ایک لڑکا مدرسہ میں پڑھتا ہے تو اس پر بوجہ غربت نسبتاً اگر زیادہ خرچ کرے تو یہ جائز ہے؟
سائل: محمد صدیق چرولیا
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد اور تمام مَملوکہ اموال کا خود مالک ومختار ہوتا ہے، چاہے کُل مال خرچ کر ڈالے یا کسی کو دے دے، اس کی حیاتی میں اولاد وغیرہ کا اس کی جائیداد میں بطورِ وراثت کوئی حق و حصہ نہیں ہوتا، وہ ہر جائز تصرف اس میں کرسکتا ہے، کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ اس کو اس کی اپنی ملک میں تصرف کرنے سے منع کرے، اور نہ ہی کسی کو مطالبہ کا حق حاصل ہوتاہے،
لیکن چونکہ زندگی میں اولاد کو جو کچھ دیا جاتا ہے، وہ عطیہ اور گفٹ ہوتا ہے میراث نہیں، اور اولاد کے درمیان عطیہ اور گفٹ میں شرعاً برابری پسندیدہ ہے، بخاری شریف میں تعلیقًا یہ روایت آئی ہے: اعدلوا بین أولادکم في العطیّة (بخار: ۳/ ١٥٧ ط: بیروت) اور صاحبِ جائیداد کی طرف سے اپنی زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان عطیہ اور گفٹ کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ اپنی جائیداد میں سے اپنے لئے جتنا چاہے رکھ لے؛ تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے، اور بقیہ مال اپنی تمام اولاد میں برابر تقسیم کردے، یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو دے، نہ کسی کو محروم کرے اور نہ ہی بلاوجہ کمی بیشی کرے، ورنہ گناہ گار ہوگا اور اس صورت میں ایسی تقسیم شرعاً غیر منصفانہ کہلائے گی۔
شامی میں ہے
"قال في البزازية : الأفضل في هبة البنت والابن التثليث كالميراث ، وعند الثاني التنصيف ، وهو المختار ، ولو وهب جميع ماله من ابنه جاز قضاء وهو آثم ، نص عليه محمد اه . فأنت ترى نص البزازية خالياً عن قصد الإضرار .(١٢ در مختار مع الشامی/ ٦٠٧):
لیکن اگر دوسری اولاد کو نقصان پہنچانا مقصود نہ ہو کمی زیادتی میں کوئی حرج نہیں ہے شامی میں ہے۔ لا بأس بتفضیل بعض الأولاد ۔۔۔۔ وکذا في العطایا، إن لم یقصد بہ الإضرار( درمختار مع الشامی: ۸/۵۰۳، ط: زکریا)
اسی طرح کوئی بیٹا یا پوتا حصول علم کے خاطر کاروبار سے قاصر ہے تو اس پر بھی اوروں کے مقابلے میں زیادہ خرچ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے:
وفـى الـفتاوى الخلاصة : وان كـان بـعـض أولاده مشتغلا بالعلم دون الـكسـب لابـأس بان يفضله على غيره ، .(ج: ١٤، ص: ٤٦٣، مکتبہ زکریا جدید )
اسی طرح فتاوی ہندیہ میں ہے۔
ولو کان الولد مشتغلاً بالعلم لا بالکسب ، فلا بأس بأن یفضلہ علی غیرہ۔ (الفتاوی الہندیة: ٤/ ۳۹۱، کتاب الہبة، الباب السادس)
فقط والسلام ھذا ما عندی
العارض: آصف گودھروی
خادم: مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں