منگل، 18 جنوری، 2022

غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنے والے کو جانور فروخت کرنا

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

مسٔلہ یہ ہے کہ :- اگر کوئی غیر مسلم شخص مسلمان کے پاس بکرا لینے کے لئے آوے  اس نیت سے کہ اس بکرا کو ماتا (غیر اللہ)کہ نام پر ذبح کرنا ہے ،اور وہ اس بات کا اقرار بھی کرتا ہے کہ مجھے ماتا (غیر اللہ) کے نام پر ہی ذبح کرنا ہے، اور وہ بکرا مسلمان کے پاس سے قیمت سے لیتا ہے، تو اس کو (غیر اللہ) کے نام پر چڑھانے کے لئے قیمت سے دے سکتے ہیں؟

سائل: عنایت اللہ ابن عبد اللہ پالنپوری


الجواب وباللہ التوفيق 

باسمہ سبحانہ وتعالی


 بکرا اس شخص کو بیچنا جائز ہے اگرچہ وہ اس کو غیراللہ کے نام پر ذبح کریں  کیونکہ بکرا فی نفسہ گناہ کی چیز نہیں ہے، یعنی بکرا بذات خود غیراللہ کے چڑھاوے کے لئے نہیں ہے۔ بلکہ وہ انسان کا اپنا فعل ہے لہذا اس کا ذمہ دار خود خرید نے والا ہوگا نہ کہ بکرا بیچنے والا۔ البتہ ظاہراً اعانت علی المعصیۃ کے مثل ہے لہٰذا ناجائز استعمال کرنے والے کو بیچنا خلاف احتیاط اور خلاف تقویٰ اور مکروہ تنزیہی ہے۔


شامی میں شراب انگوری بنانے والے کو انگور فروخت کرنے کے سلسلہ میں حلت کی وضاحت کرتے ہوئے تحریر بقلم ہے کہ وہ شئی بذات خود معصیت نہیں ہے۔

وجاز بیع عصیر عنب ممن یعلم أ نہ یتخذہ حمرا لأن المعصیۃ لا تقوم بعینہ بل بعد تغییرہ وقیل یکرہ لا عانتہ علیٰ المعصیۃ ونقل المصنف عن السراج والمشکلات ان قولہ ممن ای من کافر، اما بیعہ من مسلم فیکرہ ومثلہ فی الجوھرۃ و الباقانی وغیرھما زاد القھستانی معزیا للخانیۃ أنہ یکرہ بالاتفاق قال فی الشامیۃ تحت قولہ معز یا …وعندی ان ما فی الخانیۃ محمول علی کراھۃ التنزیہ وھو الذی تطمئن الیہ النفوس۔ (شامی  : ۳۴۴ /۵)


ہدایہ میں مرقوم ہے کہ کوئی مکان کرایہ پر دے اور کرایہ دار اس میں بت خانہ، کلیسا یا شراب خانہ بنا لے تو اس مکان دینے والے پر گناہ نہیں ہے، کیونکہ وہ کرایہ پر دینے والے کا فعل نہیں ہے


وَمَنْ أَجَّرَ بَيْتًا لِيُتَّخَذَ فِيهِ بَيْتُ نَارٍ أَوْ كَنِيسَةٌ أَوْ بِيعَةٌ أَوْ يُبَاعُ فِيهِ الْخَمْرُ بِالسَّوَادِ فَلَا بَأْسَ بِهِ. ( الهداية، ٤\٩٤ المکتبة الاسلاميه)


صاحب مبسوط اور ہندیہ نے تو یہ بھی وضاحت کردی ہے کہ مسلمان نے اس کو مکان اس مقصد کے لیے نہیں دیا۔ یہ عمل کرایہ دار کا ہے جس میں مالکِ مکان کا ارادہ شامل نہیں اس لیے وہ گناہگار نہیں ہے۔


وَلَا بَأْسَ بِأَنْ يُؤَاجِرَ الْمُسْلِمُ دَارًا مِنْ الذِّمِّيِّ لِيَسْكُنَهَا فَإِنْ شَرِبَ فِيهَا الْخَمْرَ، أَوْ عَبَدَ فِيهَا الصَّلِيبَ، أَوْ أَدْخَلَ فِيهَا الْخَنَازِيرَ لَمْ يَلْحَقْ الْمُسْلِمَ إثْمٌ فِي شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ؛ لِأَنَّهُ لَمْ يُؤَاجِرْهَا لِذَلِكَ وَالْمَعْصِيَةُ فِي فِعْلِ الْمُسْتَأْجِرِ وَفِعْلُهُ دُونَ قَصْدِ رَبِّ الدَّارِ فَلَا إثْمَ عَلَى رَبِّ الدَّارِ فِي ذَلِكَ.(سرخسى، المبسوط، ٦١/٣٩ بيروت: دارالمعرفة الهنديه، الفتاویٰ الهنديه، ٤/٤٥٠ بيروت: دارالفکر)


 لہذا ان عبارات سے مترشح ہوتا ہے کہ جب شئی فی نفسہ مباح مبیع ہو اور بائع بلا کسی غلط نیت کے اس کو فروخت کریں تو اس کا فروخت کرنا جائز ہوگا، البتہ معلوم ہوتے ہوئے نہ فروخت کرنا اولی ہے۔ فقط والسلام


العارض: مفتی آصف گودھروی

خادم: مدرسہ ابن عباس گودھرا


کوئی تبصرے نہیں: