ہفتہ، 29 جنوری، 2022

سفر میں قصر کی ابتداء کہاں سے کریں

 سوال

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

مفتی آصف صاحب امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے، مجھے کل سفر میں ایک مسئلہ پیش آیا تومجھے تھوڑا تذبذب ہے تو میں آپ کی تائید چاہتاہوں مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی سفر کررہا ہے اوراس کا وہ سفر سفر شرعی نہیں ہے مثال کے طور پر میں ہالول سے گودھرا کا سفر کررہا ہوں جو چالیس کلومیٹر پر مشتمل ہے تو مجھ پر سفر کے احکام لاگو نہیں ہوں گے اور میں قصر نہیں کر پاؤں گا لیکن پھر میں گودھرا سے مستقل طور پر دوسرا آگے کا سفر شروع کررہاہوں جس کی نیت پہلے سے نہیں تھی گودھرا آنے کے بعد میں نے نیت کی کہ اب مجھے یہاں سے ایک اور سفر کرنا ہے مثال کے طور پر میں اسلام پورا کا سفر کررہاہوں تو کیا یہ میرے لئے گودھرا سے سفر شرعی کی نیت کرکے سفر کرنا ہے تو اب یہاں سے قصر کرنا ہے یا اتمام کرنا ہے؟

سائل: مفتی لقمان صاحب ہالولی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ


اس بات پر تو سبھی علماء کا اتفاق ہے کہ مسافر پر سفر کے احکام اس وقت لاگو ہوں گے جب وہ شہر یا گاؤں کی حدود سے باہر نکل جائے، جب تک وہ حدود میں ہے اس وقت تک اس کے لیے قصر کرنا جائز نہیں ہے۔

البتہ وہ بلا نیت سفر شرعی اپنے شہر کے حدود سے نکل جائے اور بعد میں کسی اور جگہ جاگر شرعی سفر کا  ارادہ کریں تو ایسی صورت میں بھی فقہاء کی مذکورہ عبارت کی روشنی میں  جب تک شہر یا بستی سے  نکل نہ جائیں قصر نہیں کرسکتا، اس نے جہاں سے نیت سفر شرعی کیا ہے وہاں کی حدود کو چھوڑ دے گا تب قصر کرسکتا ہے۔


صورت مسئولہ میں بھی نیچے مرقوم عبارات سے یہی مترشح ہوتاہے کہ جب تک آپ گودھرا میں ہے قصر نہیں کرسکتے، البتہ گودھرا کے حدود سے باہر  آپ پر قصر کرنا لازم ہوگا۔


بنایہ میں مذکور ہے۔

وفي  المفيد، و التحفة: المقيم إذا نوى السفر ومشى أو ركب لا يصير مسافرا ما لم يخرج عن عمران المصر۔ (بنایہ، ٣/١٥ دار الکتب العلمیہ، بیروت)


اسی طرح ہدایہ میں ہے۔

وإذا فارق المسافر بيوت المصر صلى ركعتين لأن الإقامة تتعلق بدخولها فيتعلق السفر بالخروج عنها. وفيه الأثر عن علي  رضي اللہ عنه ، لو جاوزنا هذا الخص لقصرنا “( ہدایہ اول ١/١٧٣ ط: رحمانیہ)


اسی طرح کبیری میں ہے۔

من فارق بیوت موضع ہو فیہ من مصرأو قریة ناویا الذہاب إلی موضع بینہ وبین ذلک الموضع المسافة المذکورة صارمسافرا، فلایصیرمسافرا قبل أن یفارق عمران ما خرج منہ من الجانب الذی خرج منہ (کبیری:٥٣٦ط: اشرفی)


اسی طرح بدائع الصنائع میں ہے۔

وفعل السفر لا یتحقق الا بعد الخروج من المصر فمالم یخرج لا یتحقق قران النیۃ بالفعل فلا یصیر مسافرا (١/٤٧٧ بدائع الصنائع ط: مکتبہ علمیہ)


اسی طرح شامی میں ہے۔

من خرج من عمارة موضع اقامتہ من جانب خروجہ وان لم یجاوز من الجانب الآخر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قال فی شرح المنیہ فلا یصیر مسافرا قبل ان یفارق عمران ما خرج منہ من الجانب الذی خرج ․․․․․․․ اذ المعتبر جانب خروجہ۔ (  در مختار وفی رد المحتارا٢/٦٠٠ ، اول باب صلاة المسافر)۔

اسی طرح المبسوط میں بھی ہے

والأصل أن النیۃ متی تجردت عن العمل لا تکون مؤثرۃ، فإذا نوی الإقامۃ في موضع الإقامۃ فقد اقترنت النیۃ بعمل الإقامۃ، فصار مقیما، وإذا نوی السفر فقد تجردت النیۃ عن العمل ما لم یخرج فلا یصیر مسافرا۔ (المبسوط، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱/ ۲۳۹)


اسی طرح الفتاوی التاتارخانیۃ میں ہے۔

لا یصیر الشخص مسافرا بمجرد نیۃ السفر، بل یشترط معہ الخروج۔ (الفتاوی التاتارخانیۃ، کتاب الصلاۃ، الفصل ۲۲/ صلاۃ السفر، زکریا ۲/ ٤٩٣ ) ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا



کوئی تبصرے نہیں: