ہفتہ، 15 جنوری، 2022

فضا روزوں میں شک واقع ہوجائے

 سوال

السلام عليكم ۔۔۔ مفتی صاحب ۔۔  کسی عورت پر 23 یا24 قضاء روزے تھے ، اس عورت نے کہا کہ مجھے شک ہے شائد زیادہ ہو تو اس لیے میں 30 روزے رکھوں گی اور اب وہ پورے 30 نہیں رکھنا چاہتی ہے، تواب کیا کریں

سائل: حافظ عثمان ویراول


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ


ذہن پر زور دے کر تخمینہ سے تعداد متعین کرلیں اور ان کی قضا رکھ لیں اس لئے کہ رمضان المبارک کے چھوڑے گئے ہر ایک روزے کے بدلے ایک روزہ قضا  کرنا ضروری ہے، اور اگر  ان روزوں کی یقینی  تعداد  یاد نہیں تو  غالب گمان کے مطابق ایک تعداد مقرر کریں،اور قضا کی نیت سے اتنے  روزے رکھیں، تو کافی ہوجائے گا، لیکن بہتر یہ ہے کہ احتیاطاً اس تعداد سے کچھ زیادہ روزے رکھ لئے جائیں، لہذا اس پر پورے تیس روزے رکھنا ضروری نہیں ہے بلکہ جس تعداد پر اس کا غالب گمان ہوجائے اتنی تعداد میں روزے رکھنا ضروری ہے۔


طحتطاوی میں ہے

"من لايدري كمية الفوائت يعمل بأكبر رأيه فإن لم يكن له رأي يقض حتى يتيقن أنه لم يبق عليه شيء."

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (١ / ٤٤٧)


اسی طرح محیط برہانی میں ہے

وإذا كثرت الفوائت يحتاج لتعيين كل صلاة فإذا أراد تسهيل الأمر عليه نـوى أول ظهر عليه ، وإن شاء نوى آخره ، وكذا الصوم الذي عليه من رمضانين ، إذا أراد قضاء يفعل مثل هذا (المحيط البرهاني ٣/٣٤٤ ڈابھیل مراقي الفلاح ٧٢ )


شامی میں ہے

وقـضـوالـزوماً ما قدروا بلا فدية وبلا ولاء ؛ لأنه على التراضي ( درمختار ٣/٤٠٥ زكريا ) 

العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: