سوال
السلام علیکم وحمۃاللہ وبرکاتہ مسٸلہ یہ ہیکہ بیچ میں ہوکر زمین بکوانا کیسا ہے اگر اس طرح بولے کہ میں یہ چیز 50,000 کی بیچ رہا ہوں اور بیچ میں کوئی دوسرا آدمی یہ کہے کہ میں اس کو بکوا دوں گا اور وہ زمین والے آدمی سے یہ کہے کہ اوپر جتنا ہوگا میرا ہے اور زمین والا راضی ہو جائے۔تو کیا حکم ہے اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔والسلام
محمد عمر روڑکی ہریدوار
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
زمین کا جو ایجنٹ ہے اس کی دو صورتیں ہیں
(١) بائع یا مشتری میں سے کسی کاوکیل نہیں ہے، وہ صرف ان کو آپس میں ملانے کا کام کرتاہے اور ان کے درمیان واسطے کا کردار ادا کرتاہے، اور باقی معاملہ (عقد) بائع اور مشتری آپس میں خود طے کرتے ہیں تو ایسے ایجنٹ کے لیے بائع سے متعینہ کمیشن لینا جائز ہے،
(٢) ان دونوں میں سے کسی کا وکیل بن جائے تو اس صورت میں مذکورہ کمیشن ایجنٹ کا پلاٹ فروخت کرنے پر متعین کمیشن لینا تو جائز ہے، لیکن یہ درست نہیں ہے کہ مذکورہ پلاٹ پچاس ہزار سے اوپر جتنے کا فروخت ہوگا اس سے آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے، لہذا پلاٹ جتنے پر فروخت ہوگا پوری قیمتِ فروخت مالک کی ہی ہوگی، اور کمیشن ایجنٹ کے لیے متعین کمیشن ہوگا۔
ہاں اگر ایجنٹ کمیشن کا معاملہ نہ کرے، بلکہ پلاٹ کے مالک سے اس کی رضامندی سے کوئی قیمت طے کرکے یہ پلاٹ پہلے خود خریدلے اور باقاعدہ اپنے قبضے میں لے لے، تو اب مالک بننے کے بعد وہ اسے جس قیمت پر بھی آگے فروخت کرے گا اس کا مالک وہی ہوگا، لیکن اس صورت میں کمیشن وصول کرنا جائز نہیں ہوگا۔
عمدة القاري میں ہے
في’’عمدة القاري شرح صحیح البخاري‘‘: قال ابن عباس: لا بأس أن یقول: بع هذا الثوب فما زاد علی کذا وکذا فهو لک، علقه البخاري ، ووصله ابن أبي شیبة عن هشیم، عن عمرو بن دینار، عن ابن عباس نحوه، وهذا سند صحیح ۔ (١١/٤٠٤).
اسی طرح إعلاء السنن ہے
وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به، وإن کان في الأصل فاسدًا، لکثرة التعامل، وکثیر من هٰذا غیر جائز، فجوزوه لحاجة الناس إلیه کدخول الحمام، وعنه قال: رأیت ابن شجاع یقاطع نساجاً ینسج له ثیاباً في کل سنة.
قلت: والحاصل أن الجهالة الیسیرة عفو في ما جری به التعامل، لکونها لاتفضي إلی النزاع عادة۔ (إعلاء السنن / باب أجر السمسرة ١٦/٢٤٥ دار الکتب العلمیة بیروت، ١٦/٢٠٢إدارة القرآن کراچی)
فتاوی شامی میں ہے:
"وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية.
(قوله: فأجرته على البائع) وليس له أخذ شيء من المشتري؛ لأنه هو العاقد حقيقة شرح الوهبانية وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا؛ لأنه لا وجه له. (قوله: يعتبر العرف) فتجب الدلالة على البائع أو المشتري أو عليهما بحسب العرف جامع الفصولين."
(كتاب البيوع، فروع فى البيع، ٤/٥٦٠ ط:ايج ايم سعيد)
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں