پیر، 31 جنوری، 2022

بیوی کو شھوت سے بوسہ دے تو وضوء کا حکم

 سوال

کوئی شخص اگر اپنی بیوی کو شھوت سے بوسہ لے تو کیا اس کا وضؤ توٹہ جائے گا

سائل: شہباز بدرالدین حنفی دیوبندی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ


بیوی کو بوسہ لینا یہ نوا قض وضو میں سے نہیں ہے، نواقض وضو یہ ہے۔

(۱) آگے یا پیچھے کی شرمگاہ سے کسی چیز کا نکلنا مثلاً پاخانہ، پیشاب، حیض و نفاس کا خون، پاخانہ کی جگہ سے کیڑا وغیرہ نکلنا۔

 (٢) بدن کے کسی حصے سے نجاست کا نکلنا اور بہہ جانا۔ خون، پیپ، مواد وغیرہ۔ 

(٣) منھ بھر کے قے کرنا

(٤) نیند جس سے اعضا مضمحل ہوجائیں یعنی: ٹیک وغیرہ لگاکر سونا 

(٥) بے ہوش یا پاگل ہوجانا (٦) رکوع سجدہ والی نماز میں قہقہہ لگانا۔

(٧) مباشرت فاحشہ یعنی بلا کسی حائل کے شرمگاہ کا شرمگاہ سے ملانا (ملخص از تعلیم الاسلام و بہشتی زیور وغیرہ)


صورت مسئولہ میں شہوت کے ساتھ بیوی کو چھونے یا بوس و کنار کرنے سے اگر شرم گاہ سے مذی وغیرہ نکل جائے تو وضو ٹوٹ جائے گا اور اگر شرم گاہ سے مذی وغیرہ نہ نکلے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹتا ۔


ابن ماجہ میں حدیث ہے۔

عن عروة بن الزبير، عن عائشة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم: قبّل بعض نسائه، ثم خرج إلى الصلاة، ولم يتوضأ قلت: ما هي إلا أنت! فضحكت۔(سنن ابن ماجه ١/١٦٨)


اسی طرح اعلاء السنن ہے۔

عن عائشۃ رضي اللہ تعالی عنہا أن النبي ﷺ کان یقبل بعض نسائہ ثم یخرج إلی الصلاۃ ولا یتوضأ (باب ترک الوضوء من مس المراہ، ١/١٥٠)


اسی طرح شامی میں ہے۔

لا عند مذي أو ودي بل الوضوء منه ومن البول جميعا على الظاهر. تحتہ الشامی قوله: لا عند مذي أي لايفرض الغسل عند خروج مذي كظبي بمعجمة ساكنة وياء مخففة على الأفصح، وفيه الكسر مع التخفيف والتشديد، وقيل: هما لحن ماء رقيق أبيض يخرج عند الشهوة لا بها، وهو في النساء أغلب، قيل هو منهن يسمى القذى بمفتوحتين نهر۔ (الدر المختار مع الشامی ١/٣٠٤) فقط واللہ اعلم۔

العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

جس سے نکاح کروں تو طلاق اس صورت میں شرعی حکم

 سوال

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎۔

ایک شخص نے یہ کہہ دیا کہ جس سے میں نکاح کروں اسے طلاق ہو جائے مطلقا کہا بغیر تعین کے  اور اسے یہ بھی معلوم نہیں تھاکہ رشتہ کس سے ہوگا تو اس بارے میں شرعی رہنمائی فرما دیجئے؟

سائل: عبدالصمد ہریدوار


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ


کسی نے یہ  کہا کہ جس سے میں نکاح کروں اسے طلاق ہو جائے، یا یہ کہا کہ میں جب جب کسی سے شادی کروں تو اس کو طلاق، اس کا یہ تلفظ شرط کے واقع ہونے کے بعد دائمی عدم نکاح پر دلالت کرتا ہے، لہذا مسؤلہ صورت میں وہ جب جب کسی عورت سے نکاح کرے گا اس کا نکاح فاسد ہو جائے گا۔ 

اس سلسلہ میں صاحبِ ھدایہ رقم طراز ہے، اگر نفس تزوج پر کلما کو داخل کیا اور اس نے یہ کہا کہ  جب جب کسی عورت سے شادی کروں تو اسے طلاق تو ایسی صورت میں جب جب بھی نکاح کرے گا طلاق واقع ہو جائے گی۔


ولو دخل علی نفس الزوج بأن قال:کلما تزوجت إمرأۃً فھی طالق یحنث بکل مرۃٍ و إن کان بعد زوج آخر،لأن إنعقادھا بإعتبار ما یملک علیھا من الطلاق بالتزوج وذلک غیر محصور۔ (ھدایہ ۲/۳۹۹)


اس کے لئے شادی کرنے کا طریقہ

اس کے لئے حیلہ یہ ہے کہ وہ اپنے معتمد آدمی کے سامنے یا پھر کسی گروپ کے سامنے یا مسجد کے امام یا کمیٹی کے سامنے یہ إظہار کریں کہ اس کے ساتھ اس طرح کا معاملہ پیش آیا ہے(سب کے سامنے إظہار کی وجہ یہ ہے کہ دوسروں کو اس کے معاملہ کا علم ہو اور کوئی تیار ہوجائے اس کی طرف سے نکاح کے لئے) اور وہ شادی کرنا چاہتا ہے، وہ کسی کو شادی کے لئے اپنا وکیل نہ بنائے اور پھر اس کی طرف سے  کوئی آدمی اس کے نام سے نکاح پڑھ لے اور اس کو جاکر اس کی إطلاع کردے،اور وہ قول سے نہیں یعنی زبان سے قبول نہ کریں اور نہ إنکار کریں، صرف عمل سے اس کو قبول کرلے مثلاً جیسے اس کو خبر ملی کہ اس کی شادی کردی گئی ہے تو جاکر اس کو مہراداکردے تو اس سے اس کا نکاح درست ہوجائے گا اور طلاق واقع نہیں ہوگی، واللہ اعلم بالصواب۔

اس سلسلہ میں میرا دوسرا ایک تفصیلی فتاویٰ ہے اس کی لنک بھی ساتھ ملادی ہے اس کو بھی ضرور دیکھیں اس میں ہر چیز باحوالہ لکھی ہوئی ہے۔ 


کلما کی قسم اور اس کا شرعی حیلہ جواز 

https://muftiasifgodharvi.blogspot.com/2021/03/blog-post_7.html


العارض: مفتی آصف  گودھروی 

خادم: مدرسہ ابن عباس گودھرا



امامت کے ساتھ دوسرے کاروبار کرنا

 سوال

حضرات السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

حضرت مفتی صاحب میرا سوال یہ ہے کہ میں امامت کے ساتھ میرا کھالی وقت میں منی ٹرانسفر اور تمام کاغذی کام آئڈی میں بناتا ہوں آور موبائل فون کا سامان بھی رکھتا ہوں لیڑ چارجر وغیرہ کوئی کراہت تو نہیں ہے؟ میں آپ کے جواب کا منتظر ہوں

سائل: محمد جمشید میواتی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ


اسلام نے انسان کو رزق حلال کے حصول میں کسی خاص ذریعہ معاش کو اختیار کرنے کا پابند نہیں بنایا، ہاں اس کا پابند بنایا ہے کہ جو بھی ذریعہ معاش اختیار کیا جائے وہ حلال اور جائز ہو، چاہے وہ ملازمت ہو، یا اجارہ ہو یا کوئی بھی جائز کاروبارہو، اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے فضل و احسان کی وجہ سے تمام مخلوقات کی روزی کا ذمہ خود لے لیا ہے اور ہمیں رزقِ حلال کمانے کا حکم دیا ہے ۔


قرآن کریم میں ہے۔

وَ ابۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِ اللہِ۔(سورۃ الجمعۃ ، آیت نمبر۔ ١٠)

ترجمہ: اور اللہ کے فضل  (روزی) کو کمانےکےلیے شرعاً جائز ذرائع استعمال کرو


اسی طرح ترمذی شریف میں ہے۔

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:اَلتَّاجِرُ الصَّدُوْقُ الأَمِيْنُ مَعَ النَّبِيِّيْنَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ۔ (جامع الترمذی، رقم الحدیث: ١٢٠٩)  ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سچائی اور ایمانداری کے ساتھ کاروبار کرنے والا تاجر )روز محشر( نبیوں ، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا۔


اسی طرح المعجم الکبیر للطبرانی ہے۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُحْتَرِفَ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی رقم الحدیث۔ ١٣٢٠٠) ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: اللہ تعالیٰ صنعت والےمومن کو پسند فرماتے ہیں ۔


اسی طرح بخاری شریف میں ہے۔

قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا كَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُمَّالَ أَنْفُسِهِمْ وَكَانَ يَكُونُ لَهُمْ أَرْوَاحٌ فَقِيلَ لَهُمْ لَوِ اغْتَسَلْتُمْ۔ (صحیح البخاری، رقم الحدیث٢٠٧٠)  ترجمہ: سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اپنے کام خود کیا کرتے تھے اور زیادہ محنت و مشقت کی وجہ سے ان کے جسم سے پسینہ بہتا جس کی وجہ سےان سے کہا گیا کہ اگر تم غسل کر لیا کرو تو بہتر ہوگا ۔


صورتِ  مسئولہ میں آپ  جائز کاروبار کرسکتے ہیں، حدودِ شرع میں رہ کر ہر کسی کے لئے کاروبار کرنا شرعًا جائز ہے، لیکن اس بات کا خیال رہے کہ آن لائن کاروبار کرتے ہوئے جہاں اس بات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ کاروبار جائز ہو، وہیں کسی بھی سائٹ سے  ایسا معاہدہ کرنا بھی درست نہیں ہوگا جس میں کسی بھی شرعی حکم کی خلاف ورزی لازم آرہی ہو، نیز وہ چیز جو ابھی تک قبضہ و ملکیت میں موجود نہ ہو، اسے بیچنا بھی جائز نہیں ہوگا، ہاں صرف وعدۂ بیع کرنا یا کمیشن پر کام کرنا جائز ہوگا، یا ملکیت میں آنے کے بعد چیز بیچی جائے۔ وللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا



اتوار، 30 جنوری، 2022

پیسہ ٹرانسفر پر کچھ اضافی رقم لینا

 سوال

اسلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ

سوال۔پیسہ ٹرانسفر پر جو پیسے لیتے ہیں وہ کیسا ہے؟

سائل: مولوی فرحان کڈی

 

الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


پیسے ٹرانسفر پر پیسے لینا جائز ہے جیسے فون پے گوگل پے وغیرہ سے پیسے ٹرانسفر کئے جاتے ہے وہ ان کی اپنی مہت کی رقم ہے۔ کیونکہ ہماری معلومات  کے مطابق گوگل پے ایپ اورفون پے ایپ آن لائن پیسوں کی ادائیگی کی ایپ ہیں، اور یہ لوگوں کو پیسوں کی ادائیگی میں سہولت فراہم کرتی ہیں۔ ادائیگی کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ ایپ استعمال کرنے والا شخص اپنے ڈیبٹ کارڈ یا بینک اکاؤنٹ نمبر گوگل پے یا فون پے کی ایپ  کو فراہم کرتا ہے اور یہ ایپ اس شخص کے اکاؤنٹ یا کارڈ کو استعمال کر کے ادائیگی کرتی ہے۔


مذکورہ تفصیل کے مطابق گوگل پے ایپ  اور فون پے ایپ، اس ایپلی کیشن کو استعمال کرنے والے کی طرف سے قیمت کی ادائیگی کے وکیل ہیں اور استعمال کرنے والوں کی رقوم ان کے پاس قرض نہیں ہوتیں، بلکہ یہ صرف رقوم کی منتقلی میں مدد کرتے ہیں۔


لہذا پیسے ٹرانسفر کرنے والا اگر اس کام کے پیچھے محنت اور وقت صرف کرے اور وہ اجیر بن کر اپنے عمل کی طے شدہ اجرت وصول کرے تویہ معاملہ منی آرڈر کے حکم میں ہو کر مقررہ چارج لینے کی گنجائش ہوگی، صورت مذکورہ میں, فون پے, گوگل پے کے ذریعہ رقم ٹرانسفر کرنے کی  موجودہ دور میں جو شکل ہے یہ منی آرڈر کی ایک جدید شکل ہے اس پر اضافی رقم بطور اجرت کے لینا درست ہے چونکہ اس میں مقررہ جگہ تک رقم پہنچانے میں محنت کرنی پڑتی ہے اس لئے حق المحنت کی وجہ سے اجرت لینا درست ہے جو کہ شرعاً جائز ہے تاہم اسمیں ایک طرح کا قرض پر نفع اٹھانا بھی پایا جاتا ہے لہذا احتیاط کرنا بہتر ہے اور اگر قانوناً اس کی ممانعت ہوتو اس سے بچنا ہی مناسب ہے۔ (مستفاد: امداد الفتاوی ٣/١٤٦)


 امداد الفتاوی میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ منی آرڈر سے متعلق سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’منی آرڈر مرکب ہے دو معاملوں سے، ایک قرض: جو اصل رقم سے متعلق ہے، دوسرے اجارہ: جو فارم کے لکھنے اور روانہ کرنے پر بنامِ فیس کے دی جاتی ہے، اور دونوں معاملے جائز ہیں، پس دونوں کا مجموعہ بھی جائز ہے۔ اور چوںکہ اس میں ابتلاء عام ہے، اس لئے یہ تاویل کرکے جواز کا فتویٰ مناسب ہے۔( امداد الفتاوی ٣/١٤٦)


مستفاد: س مسئلہ میں آن لائن فتاوی دارالعلوم دیوبند اور فتاویٰ بنوریہ اور فتاویٰ عثمانیہ سے استفادہ کیا گیا ہے۔

فقط واللہ تعالی اعلم


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

مکان کرایہ پر لیکر کسی اور کو کرایہ پر دینا

 سوال

ایک مکان کو ایک آدمی سے لیا پانچ لاکھ روپے کا پانچ سال کے لیے اور اس کو کرایا پر لگا دیا تو جاءز ھے کیا حکم ہے

سائل: عمران بانکوی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ


کسی بھی مکان دکان یا زمین وغیرہ کو کرایہ پر حاصل کرنے کے بعد کرایہ پردینے کے سلسلہ میں فقہاء کرام نے کچھ  تفصیل بیان کی ہے

تفصیل ملاحضہ فرمائیں۔

اگر کرایہ دار کسی دوسرے شخص کو آگے کرایہ پر دیتا ہے تو اس کے لیے کچھ شرطیں ہیں۔


اول جس کام سے مکان کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو ایسے کام کرنے والے شخص کو مکان کرایہ پر نہیں دے سکتا۔


دوم مالک مکان سے جو کرایہ طے ہوا ہے اس سے زیادہ  کرایہ نہیں لے سکتا، ورنہ زیادتی اس کے لیے حلال نہیں ہوگی، اس کو صدقہ کرنا لازم ہوگا۔


سوم مالک مکان سے جس  جنس سے کرایہ طے ہوا ہے اس جنس کے علاوہ سے کرایہ طے کرے تو زیادتی جائز ہے، یعنی پہلے کرایہ روپے پیسے میں ہو تو یہ آگے روپئے پیسے کے بجائےکوئی اور چیز جیسے کپڑا یا سونا چاندی وغیرہ کرایہ مقرر کرے۔


چہارم کرایہ دار نے اس مکان میں کچھ کام، مثلاً رنگ،  ٹائلز، یا اس میں کوئی اضافہ یادیگر تعمیراتی کام کرایا ہو، تو ایسی صورت میں وہ پہلے کرایہ سے زیادہ پر بھی دوسرے کو کرایہ پر دے سکتا ہے


صورت مسئولہ میں  کسی دوسرے کو مکان کرایہ میں دینا درست ہے، لیکن اگر آپ نے مکان میں کوئی تعمیر وغیرہ اضافی کام نہیں کروایا ہو تو کرایہ میں مکان اسی کریہ پر دینا لازم ہےجس کرایہ میں مکان کے مالک نے آپ کو مکان دیا ہے۔

اگر آپ آگے زائد کرایہ میں مکان کرایہ پر دینا چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ مکان میں کوئی تعمیر وغیرہ اضافی کام کروائیں پھر آگے زیادہ کرایہ پر دے دیں، اس طرح زائد کرایہ میں بھی آپ کے لیے مکان کرایہ پر دینا درست ہوجائے۔


جیسا کہ شامی میں ہے۔

وله السكنى بنفسه وإسكان غيره بإجارة وغيرها وكذا كل ما لا يختلف بالمستعمل  بطل التقييد؛ لأنه غير مفيد، بخلاف ما يختلف به كما سيجيء، ولو آجر بأكثر تصدق بالفضل إلا في مسألتين: إذا آجرها بخلاف الجنس أو أصلح فيها شيئاً. 

تحتہ فی الشامیہ (قوله: بخلاف الجنس) أي جنس ما استأجر به وكذا إذا آجر مع ما استأجر شيئا من ماله يجوز أن تعقد عليه الإجارة فإنه تطيب له الزيادة كما في الخلاصة. (قوله: أو أصلح فيها شيئا) بأن جصصها أو فعل فيها مسناة وكذا كل عمل قائم؛ لأن الزيادة بمقابلة ما زاد من عنده حملا لأمره على الصلاح كما في المبسوط والكنس ليس بإصلاح وإن كرى النهر قال الخصاف تطيب وقال أبو علي النسفي: أصحابنا مترددون وبرفع التراب لاتطيب وإن تيسرت الزراعة ولو استأجر بيتين صفقة واحدة وزاد في أحدهما يؤجرهما بأكثر ولو صفقتين فلا خلاصة ملخصاً. (الدر المختار  ٩/٣٨)


اسی طرح محیط برہانی میں ہے

قال محمد رحمه الله: وللمستأجر أن يؤاجر البيت المستأجر من غيره، فالأصل عندنا: أن المستأجر يملك الإجارة فيما لا يتفاوت الناس في الانتفاع به؛ وهذا لأن الإجارة لتمليك المنفعة والمستأجر في حق المنفعة قام مقام الآجر، وكما صحت الإجارة من الآجر تصح من المستأجر أيضاً فإن أجره بأكثر مما استأجره به من جنس ذلك ولم يزد في الدار شيء ولا أجر معه شيئاً آخر من ماله مما يجوز عند الإجارة عليه، لا تطيب له الزيادة عند علمائنا رحمهم الله (المحيط البرهاني في الفقه النعماني٧/٤٢٩ ط:دارالکتب العلمیۃ)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

نماز میں رویدا کی جگہ رُأیدا تو کیا حکم ہے۔

 سوال

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎۔

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام شرح دین متین امام صاحب نے نماز میں رویدا کی جگہ رُأیدا راء کے پیش اور ہمزہ مفتوحہ کے ساتھ پڑھایا تو نماز کا کیا حکم ہے جواب دیکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔

سائل: سبیل قاسمی ہریدوار


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ


تلفظ کی تبدیلی یا الفاظ کی کمی بیشی کی وجہ سے معنیٰ تبدیل نہ ہو یا معنیٰ تو تبدیل ہو لیکن تغیر فاحش نہ ہو  تو  اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی، اس لئے کہ الفاظ کے تلفظ کی مطلق کمی یا معنی کی مطلق تبدیلی سے نماز فاسد نہیں ہوتی، اگر قرآن کی تلاوت میں اس طرح کی غلطی ہوجائے کہ معنی میں تغیر فاحش ہوجائے، یعنی: ایسے معنی پیدا ہوجائیں، جن کا اعتقاد کفر ہوتا ہے، تو نماز کے فساد کا حکم لگایا جاتا ہے، اسی طرح اگر غلط پڑھ کر دوبارہ صحیح پڑھ لیا تو بھی نماز صحیح ہوجائے گی۔


صورتِ مسؤلہ میں رویدا کی جگہ رُأیدا راء کے پیش اور ہمزہ مفتوحہ کے ساتھ پڑھاہے لیکن یہ ایسی غلطی نہیں ہے جس سے نماز فاسد ہوجائے، البتہ اس کی کوشش کریں کہ ہرحرف کو صحیح طریقہ سے ادا کریں، 


إمداد المفتین میں ہے۔

قال في شرح المنیة الکبیر القاعدة عند المتقدمین أن ما غیره تغیراً یکون اعتقاده کفراً تفسد في جمیع ذلک سواء کان في القرآن أو لم یکن إلا ما کان من تبدیل الجمل مفصولاً بوقف تام، ثم قال بعد ذلک: فالأولی الأخذ بقول المتقدمین۔ (إمداد المفتین، ص ۳۰۳)


عالمگیری میں ہے۔

ومنها: ذکر کلمة مکان کلمة علی وجه البدل إن کانت الکلمة التي قرأها مکان کلمة یقرب معناها وهي في القرآن لاتفسد صلاته، نحو إن قرأ مکان العلیم الحکیم  وإن کان في القرآن، ولکن لاتتقاربان في المعنی نحو إن قرأ:وعداً علینا إنا کنا غافلین مکان فاعلین ونحوه مما لو اعتقده یکفر تفسد عند عامة مشایخنا،وهو الصحیح من مذهب أبي یوسف رحمه الله تعالی، هکذا في الخلاصة۔ (الفتاوی الهندیة، ۱: ۸۰،، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)


عالمگیری میں ہے۔

ذکر في الفوائد: لو قرأ في الصلاة بخطإفاحش ثم رجع وقرأ صحیحاً قال: عندي صلاته جائزة (الفتاوی الهندیة، ۱: ۸۲ ) واللہ اعلم بالصواب۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

ہفتہ، 29 جنوری، 2022

ہزار لیٹر کی ٹنکی میں ناپاکی گرنے سے پانی کا حکم

سوال

السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ۔

ایک مسئلے کا حل بتائیے، ایک ہزار لیٹر پانی کی ٹنکی میں بیت الخلاء کی چپل گر گئ ہے بیت الخلاء میں عام طور پر چپل رکھی رہتی ہے وہی، چپل پر ناپاکی لگی تھی یا نہیں کنفرم نہیں، پانی کا کیا حکم ہے؟

سائل: مولانا کفایت اللہ گڈھوی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ


ٹنکی یا حوض کے پانی کی پاکی ناپاکی کا اعتبار پانی کے لیٹر سے نہیں ہوتا ہے، بلکہ ٹنکی یا حوض میں اعتبار دہ در دہ اور پانی کی سطح کا ہوتا ہے۔


شامی میں ہے۔

الْعِبْرَة في الحوض بِوَجْهِ الْمَاءِ. بدليل اعتبارهم في الحوض الطول والعرض لا العمق ، واعتبارهم الكثرة والقلة في أعلاه فقط كما سيذكره الشارح (ابن عابدين، الدر المختار وحاشية ابن عابدين: رد المحتار، ٣٣٨/١)


 لہذا وہ پانی جس میں بھی ہو وہ دہ در دہ یعنی اس کا اوپر کا حصہ  ٢٢٥ اسکوائر فٹ ہے تو پانی ناپاک نہیں ہوگا اور اگر اوپر کا حصہ دہ در دہ  ٢٢٥ اسکوائر فٹ سے کم ہے تو پانی ناپاک ہو جائے گا۔

صورتِ مسئولہ میں عام طور پر ایک ہزار لیٹر کی پانی کی ٹنکی کا اوپر کا حصہ  ٢٢٥ اسکوائر فٹ سے کم ہوتاہے، لہذا اس میں ناپاک چپل گرنے سے اس ٹنکی کا پانی ناپاک  ہو جائے گا۔


الموسوعۃ الفقہیہ میں ہے۔

قَال الْحَنَفِيَّةُ : إِنَّ الْبِئْرَ الصَّغِيرَةَ وَهِيَ مَا دُونَ عَشَرَةِ أَذْرُعٍ فِي عَشَرَةٍ  يَنْجُسُ مَاؤُهَا بِوُقُوعِ نَجَاسَةٍ فِيهَا، وَإِنْ قَلَّتِ النَّجَاسَةُ مِنْ غَيْرِالأَْرْوَاثِ كَقَطْرَةِ دَمٍ أَوْ خَمْرٍ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ : ٤٠/١٨٢)


اسی طرح محیط برہانی میں ہے۔

"يجب أن يعلم أن الماء الراكد إذا كان كثيراً فهو بمنزلة الماء الجاري لا يتنجس جميعه بوقوع النجاسة في طرف منه إلا أن يتغير لونه أو طعمه أو ريحه. على هذا اتفق العلماء، وبه أخذ عامة المشايخ، وإذا كان قليلاً فهو بمنزلة الحباب والأواني يتنجس بوقوع النجاسة فيه وإن لم تتغير إحدى أوصافه۔ (المحيط البرهاني للإمام برهان الدين ابن مازة١/٨٧)۔ فقط واللہ اعلم

العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا





آنکھوں کے موتیوں کے آپریشن میں غسل کا طریقہ

سوال

السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

آنکھوں کے موتیوں کے آپریشن کی وجہ سے ڈاکٹر نے آنکھوں کو پانی سے محفوظ رکھنے کو کہا ہے تو ایسا شخص غسل واجب کیسے ادا کریں

سائل: محبوب خان الحسنی مانگرول گجرات


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ


صورتِ  مسئولہ  میں اگر   وضو  یا غسل  میں  آنکھ کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو اور ماہر تجربہ کار ڈاکٹر نے آنکھ کے آپریشن کے بعد آنکھ میں پانی لگنے کو مضر بتایا ہے، تو ایسی صورت میں اس جگہ کوئی چیز باندھ دی جائے یا کوئی ایسی تدبیر کرلی جائے جس سے پانی نہ پہنچے، اور  زخم  والے  حصے  پر  گیلے ہاتھ سے صرف مسح کرلیا جائے، اور اگر آنکھ پر مسح بھی مضر ہو تو مسح بھی چھوڑ دیا جائے۔

اور سر اس طریقے پر جھکاکر دھوئیں کہ چہرے پر پانی نہ پڑے سارا پانی نیچے زمین پر گرجائے اور ہاتھ بھگوکر اچھی طرح جھاڑلیں پھر چہرہ کا مسح کرلیں اور جسم کے باقی حصے پر پانی پہنچالیں۔

اور اگر مذکورہ طریقے پر سر کا دھونا ممکن نہ ہو چہرہ اور آنکھ پر پانی پہنچ جانے کا ڈر ہو تو پھر سر کا بھی مسح کرلیں یعنی ہاتھ بھگوکر پورے سر، کان، پیشانی اور چہرہ پر پھیر لیں۔


البحر الرائق میں ہے۔

(قوله: أو لمرض) يعني يجوز التيمم للمرض وأطلقه، و هو مقيد بما ذكره في الكافي من قوله بأن يخاف اشتداد مرضه لو استعمل الماء فعلم أن اليسير منه لايبيح التيمم، و هو قول جمهور العلماء إلا ما حكاه النووي عن بعض المالكية، و هو مردود بأنه رخصة أبيحت للضرورة و دفع الحرج، و هو إنما يتحقق عند خوف الاشتداد و الامتداد و لا فرق عندنا بين أن يشتد بالتحرك كالمبطون أو بالاستعمال كالجدري أو كأن لايجد من يوضئه و لايقدر بنفسه اتفاقًا۔ (البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري ١/١٤٧)


شامیں میں ہے۔

في أعضائه شقاق غسله إن قدر وإلا مسحه وإلا تركه ولو بيده، و لايقدر على الماء تيمم، و لو قطع من المرفق غسل محل القطع.

(قوله: وإلا تركه) أي وإن لم يمسحه بأن لم يقدر على المسح تركه. (قوله: ولا يقدر على الماء) أي على استعماله لمانع في اليد الأخرى، ولا يقدر على وضع وجهه ورأسه في الماء۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ١/٢١٧)


شامی میں دوسری جگہ ہے۔

تیمم لو کان أکثرہ أی أکثر أعضاء الوضوء عددا وفی الغسل مساحة مجروحا أو بہ جدری اعتبارا للأکثر وبعکسہ یغسل الصحیح ویمسح الجریح․ وقال العلامة الشامي تحتہ: إذا کان یمکن غسل الصحیح بدون إصابة الجریح وإلا تیمم، فلو کانت الجراحة بظہرہ مثلاً، وإذا صبّ الماء سال علیہا یکون ما فوقہا في حکمہا فیضم إلیہا کما بحثہ الشرنبلالي في الإمداد (الدر المختار مع رد المحتار: ۱/ ۴۳۰، ط: زکریا) واللہ اعلم بالصواب


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

صدقہ کے پیسے جمع کرکے اس میں سے استعمال کرنا

 سوال

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎۔

میں ھر مہینے کچھ پیسے صدقہ کے لئے نکال کے رکھتا ہوں اگر کبھی اپنے پاس پیسے نہ ہو اور سخت ضرورت ھو کیا جو پیسے صدقہ کے لۓ رکھتا ھوں وہ پیسے اپنے استعمال میں لا سکتاہوں  یا نہیں۔

سائل: محمد فیروز الہ باد


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ


زکوة یا صدقے کا پیسہ جب تک کسی مستحق یا اس کے ولی یا وکیل کو نہ دیدیا جائے، دینے والے کی ملکیت سے خارج نہیں ہوتا، لہٰذا اگر آپ نے صدقے کی نیت سے کچھ پیسے الگ نکال کر رکھ دئے تو وہ آپ کی ملکیت ہی میں ہے اگر کبھی اپنے پاس پیسے نہ ہو اور سخت ضرورت کی وجہ سے رکھے ہوئے صدقہ کے پیسے اپنے استعمال میں لے آئیے تو اس میں شرعاً کچھ مضائقہ نہیں۔


البتہ اگر وہ زکوہ کے پیسے ہیں یا دوسرے صدقات واجبات ہیں تو جتنی مقدار استعمال کیا ہے وہ پھر سے حساب کرکے وقت پر دینا لازمی ہوگا۔

شامی میں ہے۔

ولا یخرج عن العھدة بالعزل؛ بل بالأداء للفقراء ۔۔۔۔۔۔ قولہ: ”ولا یخرج عن العھدة بالعزل“: فلو ضاعت لا تسقط عنہ الزکاة ولو مات کانت میراثاً عنہ بخلاف ما إذا ضاعت في ید الساعي؛ لأن یدہ کید الفقراء، بحر عن المحیط (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاة، ۳: ۱۸۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند)


البحر الرائق میں ہے۔

"وقيد بالزكاة؛ لأن النفل يجوز للغني كما للهاشمي، وأما بقية الصدقات المفروضة والواجبة كالعشر والكفارات والنذور وصدقة الفطر فلايجوز صرفها للغني؛ لعموم قوله عليه الصلاة والسلام: «لاتحل صدقة لغني» خرج النفل منها؛ لأن الصدقة على الغني هبة، كذا في البدائع۔ (البحر الرائق شرح كنز الدقائق۔ ٢/٢٦٣) واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا


ہوائی جہاز میں نماز کا وقت کیسے معلوم کریں

 سوال

السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

ایک دوسرا مسئلہ ہے کہ اگر کوئی آدمی ایک ملک سے دوسرے ملک کا سفر بائے پلین کررہاہے تو بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ہوائی جہاز میں پتا نہیں چلتا ہے کہ ابھی نماز کا وقت شروع ہواہے یا شروع نہیں ہواہے ایک ملک سے دوسرے ملک اس کا جانا ہورہا ہے اور اس کو نماز کے وقت کا تعین پتا نہیں چل رہا ہے کہ میں ابھی فی الحال کہاں ہوں اور زمین کے جس خطہ سے میرا یہ  ہوائی جہاز کا گزر ہورہا ہے وہاں کونسا وقت ہے ابھی مجھے نماز کس طرح سے پڑھنی ہے تو پھر اس مسئلہ کے اندر نماز کے وقت کا تعین کس طرح سے کیا جائے اور  نماز کو کس طرح اد کیا جائے اس مسئلہ کا بھی آپ مجھے جواب مرحمت فرما کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔

سائل: مفتی لقمان صاحب ہالولی۔


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ


ہوائی جہاز میں نماز ادا کرنے میں بھی اوقات نماز کا ہونا اسی طرح استقبالِ قبلہ اور قیام شرط ہے، ان تینوں شرطوں میں سے کوئی ایک شرط اگر عذر کے بغیر فوت ہوجائے تو فرض اور واجب نماز ادا نہیں ہوگی۔


البتہ مسؤلہ صورت میں کہ جس خطہ سے میرا یہ  ہوائی جہاز کا گزر ہورہا ہے وہاں نماز کا کونسا وقت ہے نماز کے اوقات کیسے معلوم کئے جائے اس سلسلہ میں تلاش بسیار کے بعد بھی کوئی صریح جزیہ نہیں ملا۔ البتہ جانے والے اکثر حضرات سے اس سلسلہ میں بات ہوئی تو یہ بات معلوم ہوئی کہ  وہاں پر جہاز کے اندر کمپیوٹر کی اسکرین پر ہر چیز آجاتی ہے یہاں تک کہ وقت بھی اس جگہ کا اسکرین پر آجاتاہے اور اسکرین پر سمت متعین کرنے والے نشان کے ذریعہ بھی معلوم ہوجاتا ہے اس کے علاوہ وہاں پر جو عملہ ہوتا ہے ان سے بھی معلوم کرلیتے ہیں، اور پھر موبائل کی مدد سے وہاں کا وقت نماز متعین کرلیا جاتا ہے۔


اور فتاویٰ دار العلوم دیوبند میں ایک سوال اور جواب اس طرح سے ملا ہے، جس سے اس مسئلے کی طرف راہنمائی بھی ہوتی ہے۔ وہ سوال مع جواب پیش خدمت ہے۔


سوال: نمبر: 929

(1) کیا ہوائی جہاز میں سفر کے دوران بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت ہے؟ (2) جہاز میں نماز کے اوقات اور قبلہ سمت کی تعیین کیسے ہوگی؟

جواب نمبر: 929

بسم الله الرحمن الرحيم

(1) جب تک کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کی طاقت ہو، بیٹھ کر نماز پڑھنا درست نہیں خواہ سفر میں ہو یا حضر میں اور خواہ سواری پر سوار ہو یا زمین پر ہو۔ در مختار میں ہے: من فرائضھا التي لا تصح بدونھا التحریمة والخ ومنھا القیام الخ في فرض و ملحق بہ الخ لقادر علیہ۔ (شامي زکریا: 2/127)

(2) گھڑی کے ذریعہ نماز کے اوقات کی تعیین ہوسکتی ہے اور سمت قبلہ کی تعیین قطب نما کے ذریعہ یا جہاز میں لگے کمپیوٹر کی اسکرین پر سمت متعین کرنے والے نشان کے ذریعہ یا کسی جانکار (مثلاً جہاز کے عملے) وغیرہ کے ذریعہ معلوم کیا جاسکتا ہے، ورنہ تحری کرکے نماز پڑھی جائے۔واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند




علماء کرام کے لئے اسی مضمون کے تحت نظام الفتاوی کی ایک مفید تحریر ہوائی جہاز میں نماز کے حکم میں تحریر شدہ ہے، پیش خدمت ہے ضرور پوری پڑھیں فایدہ ہوگا


ہوائی جہازوں میں نماز کا حکم

سوال:   ہوائی جہازوں میں کس نظام الاوقات کے مطابق نماز ادا کی جائے۔استفتاء کی بناء اس پر ہے کہ!

(۱) اسلام میں پانچ نمازیں فرض ہیں، قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم خمس صلوات افتر ضہن اللہ تعالیٰ (۲) ان نمازوں کی ادائیگی کیلئے مخصوص اوقات  فرض کئے گئے ہیں ’’لہا اوقات مخصوصۃ لا تجزئی قبلہا بالاجماع‘‘ ص ۳۲۶ نیل الاوطار۔

ان اوقات کی فقہی نوعیت خواہ کچھ ہو لیکن اس میں شک نہیں کہ عملاً ان کو صحت ادا کے لئے شرط سمجھا جاتا ہے۔ جس  سے شبہ ہوتا ہے کہ فرضیت نماز کی علت شاید یہی اوقات ہیں۔

چنانچہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک واقعہ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ حدیث میں آتا ہے۔ نامَ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی حجر علی رضی اللّٰہ عنہ حتی غربت الشمس فلما استیقظ ذکر لہ‘ انہٗ فاتتہ العصر فقال اللّٰھم انہ کان فی طاعتک وطاعت رسولک فردّو ہا علیہ فردّت حتی صلی العصر وکان ذالک بخیبر شامی۔ (ص ۲۶۵،ج۱)۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں وقت کو خاص اہمیت حاصل ہے  جب بھی تواس کیلئے سورج کا اعادہ کرایا گیا ہے۔ کیا وقت کی اسی اہمیت کی بناء پر فقہاء نے اسکو سبب وجوب کہا ہے جیساکہ مشہور ہے ۔ وسببہا اوقاتہا عند الفقہاء۔ لیکن اگرایسا ہے  تو  واقعہ دجال کے متعلق کیا کہا جائیگا جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر وقت ایک سال تک بھی نہ آئے تو نمازیں برابر  اندازہ  کے ساتھ ادا کی جاتی رہیں گی۔ 

ذکر الدجال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقلنا کم بعثہٗ فی الارض قال اربعون یوماً یوم کسنۃ ٍویوم کشھرٍ ویوم کجمعۃٍ وسائر ایام کا یا مکم فقلنا یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قدالک الیوم الذی کسنۃ اَیکفینا فیہ صلوۃ  یوم قال لا اقدر والہ‘ قدرہٗ (مشکوٰۃ ص ۴۷۳)۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وقت سبب وجوب نہیں ہے۔ علماء کا ایک طبقہ اسی طرف گیا ہے کہ وقت سبب وجوب نہیں ہے صرف علامت ہے۔ محقق ابن ہمامؒ فرماتے ہیں کہ جُعل علامۃ علی الوجوب الخفی الثابت فی نفس الامر (فتح القدیر ص ۱۹۷،ج۱)

بہر حال وقت کی حیثیت سبب وجوب کی ہو یا علامت کی دریافت طلب امر یہ ہے کہ ہوائی جہازوں کے سفر میں اکثر امتدادِ وقت کی حالت سے سابقہ پڑتا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ زمین اپنے طور پر مشرق کی طرف ایک ہزار میل فی گھنٹہ کے حساب سے ۲۴؍ گھنٹے میں ایک چکر پورا کرتی ہے اور ہوائی جہاز عموماً زمین سے چالیس ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرتے ہیں تو اگر وہ زمین کی مخالف سخت میں یعنی سورج کی طرف پشت کر کے پرواز کرتے ہیں تو رات کے اوقات بڑھتے رہتے ہیں اور اگر ان کی پیرواز زمین کی موافق سمت میں ہوتی ہے تو اس صورت میں چونکہ سورج سامنے ہوتا ہے اس لئے ان پر مسلسل دن کا وقت بڑھتا رہتا ہے۔ یہ امتداد وقت کی صورت ہے لیکن اس سے زیادہ حیرت ناک وہ شکل ہے جس میں وقت کم ہوتا ہے۔ کہتے ہیں ’’راکٹ‘‘ ۲۴؍ گھنٹے میں زمین کے ۱۷؍ چکر لگاتا ہے یعنی ڈیڑھ گھنٹہ میں ایک چکر جس کا مطلب یہ ہے کہ ڈیڑھ گھنٹہ میں نمازوں کے تمام اوقات راکٹ پر گذر جاتے ہیں اور اس طرح ۲۴؍ گھنٹہ میں ۱۷؍ دن کی نمازیں فرض ہو جاتی ہیں۔

ان مذکورہ بالا دو صورتوں میں جبکہ وقت معدوم بھی نہیں ہے لیکن معمول کے مطابق موجود بھی نہیں ہے۔ نمازوں کے متعلق کیا فیصلہ کیا جائیگا۔

{۱} کیا جو وقت گذر رہا ہے اسی کے حساب سے نمازیں ادا کی جائیں گی لیکن یہ صورت حدیث دجال کے  خلاف ہے۔

{۲} یا جو وقت معمول کے مطابق موجود نہیں ہے تقدیر و اندازہ کر کے اس کے حساب سے نمازیں ادا کی جائیں گی۔ لیکن اس صورت میں یہ اشکال ہیکہ تقدیر و اندازہ کیلئے کون سے اوقات کو معیار  بنایا جائیگا۔

{۳} یا جو وقت معمول کے مطابق موجود نہیں ہے اس کو بنیاد قرار دیکر نماز کی عدم فرضیت کا فیصلہ کیا جائیگا۔

یہ وہ بنیادیں ہیں جن پر استفتاء مرتب کیا گیا ہے اس سلسلہ میں احقر بھی چند معروضات بغرض اصلاح پیش کر رہا ہے ملاحظہ فرمائیں اور اپنی  تحقیقات علمیہ و فقہیہ سے سرفراز فرمائیں۔

    

جواب:   اس میں شک نہیں کہ شریعت نے نماز کا مدار شمسی اوقات پر رکھا ہے ’’قال اللّٰہ تعالیٰ‘‘ اقم الصلوۃ لدلوک الشمس الیٰ غسق اللیل وقرآن الفجر‘‘ اور اس میں بھی شک نہیں کہ شمسی اوقات کرۂ ارضی کے ہر حصہ میں یکساں نہیں پائے۔ 

ایک طبقہ اسی طرف گیا ہے کہ وقت سبب وجوب نہیں ہے صرف علامت ہے۔ محقق ابن ہمامؒ فرماتے ہیں کہ جُعل علامۃ علی الوجوب الخفی الثابت فی نفس الامر (فتح القدیر ص ۱۹۷،ج۱)

{۱} اصولاً جن مقامات میں یہ اوقات نہ پائے جاتے ہوں، نماز فرض نہیں ہونی چاہئے کیونکہ جب سبب وجوب ہی نہیں ہے تو نماز کی فرضیت کا حکم کس طرح دیا جا سکتا ہے۔

چنانچہ علماء کا ایک طبقہ ایسے مواقع پر نماز کی عدم فرضیت  ہی کا قائل ہے۔ وبہ جزم فی الکنز والدرر والملتقی وبہ افتی البقال  وافقہ الحلوانی والمرغینانی ورجحہ الشرنبلالی والحلبی (درمختار ص ۲۶۷، ج۱)

 یہ تمام حضرات عدم سبب ہی کی بناء پرنماز کی عدم فرضیت کے قائل ہیں اور ان کی اصل بقالیؒ  کا فتویٰ  ہے۔

ومن لم یوجد عندھم وقت العشاء کما قیل یطلع الفجر قبل غیبو بتہ الشفق عندھم افتی البقالؒ بعدم الوجوب علیھم لعدم السبب وہو مختار صاحب الکنز کما یسقط غسل الیدین من الوضوء عن مقطو عہمامن المرفقین وانکرہ الحلوانی ثم وافقہٗ (فتح القدیر ص ۱۹۷، ج۱) لیکن اس فتویٰ پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سقوطِ فرضیت کی جو وجہ بقالیؒ نے بیان کی ہے۔ ہی کما یسقط غسل الیدین من الوضوء الخ کیا یہ وجہ درست ہے محقق ابن ہمامؒ نے اس پر اعتراض کیا ہے کہ قیاس صحیح نہیں ہے’’ ولا یرتاب فتامل فی ثبوت الفرق بین عدم حمل الفرض وبین سبب الجعلی الذی جعل علامۃ‘‘ علی الوجوب الخفی الخ (فتح القدیر ص ۱۹۷، ج ۱)

میرے نزدیک بقالی ؒ کی اس تعریف پر کہ وقت سبب وجوب ہے کچھ اور بھی اشکالات ہیں۔

{۱} وقت جس کا سبب یا علامت ہونا محض دلیل ظنی سے ثابت ہے اس کو نماز کی متواترۃ الثبوت خمسیت کے ختم کرنے کیلئے حجت بنایا جاتا ہے جو صحیح نہیں ہے۔

{۲} لیلۃ الاسراء میں جو  خمسین صلوات فرض ہوئیں اور آخر میں معاف ہوکر خمس صلوات رہ گئیں ہیں بظاہر  یہ معلوم ہوتا ہے ان سے مراد خمس  اوقات  ہیں کیونکہ ہم اوقات میں تو یہ خمسیت پاتے ہیں صلوات میں نہیں پاتے، معراج میں صلوات کا عدد گیارہ کا فرض ہوا ہے پانچ کا نہیں،، فرضت الصلوٰۃ  لیلۃ الاسراء رکعتین رکعتین الاالمغرب(نیل الاوطار) نیز بعد کو حضر میں دو، دو کا مزید اضافہ کیا گیا ہے۔ثم زیدت بعد الہجرۃ الاالصبح۔ (نیل الاوطار ص ۳۰۹)۔ یہ اضافہ اوقات میں نہیں ہوا نماز میں کیا گیا ہے تو ایک مرتبہ معاف. کرا کے دوبارہ فرض کا کوئی قائل نہیں ہے۔

لہذا خمس اوقات کی بات ہی صحیح معلوم ہوتی ہے تو اگر اس کو صحیح تسلیم کر لیا جاتا ہے تو اس صورت میں اوقات کا خود اپنے لئے سبب وجوب ہونا لازم آتا ہے جو صحیح نہیں بلکہ غلط ہے۔

{۳} یہ حقیقت ہے کہ ہر رکعت ایک مستقل نماز ہے،، ان کل رکعۃً صلوۃ (ھدایہ ص ۱۰۷) اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کی ادائیگی رکعۃً رکعۃً ممنوع ہے،، نھی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عنہ صلوۃ بلکہ  شفعۃً شفعۃً اداء کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ اس کی فرضیت ہی  دو دو رکعت ہوئی ہے،، الصلوٰۃ فرضت لیلۃ الاسرائع رکعتین رکعتین الاالمغرب ثم زیدت بعد الہجرۃ الاالصبح (نیل الالاوطار  ص ۳۰۹،ج۱)  اور فقہاء کا  یہ اصول ہے کہ وجوب نماز کا تکرار وجوب اوقات کی وجہ سے ہوتا ہے،، تکرر وجوبہا بتکر ار الوقت،،

مثلاً ظہر اصولاً اپنے وقت پر فرض ہوتی ہے اور اصلاً دو رکعت ہوتی ہے۔ لیکن اس میں بعد کو  جو دو رکعتوں کا اضافہ کیا گیا ہے کیا اس کا موجب بھی یہی ظہر کا وقت ہے۔ اصولاً  تو اس کیلئے کوئی اور مستقل وقت ہونا چاہئے تھا کیونکہ یہ دو رکعتیں خود ہی ایک مستقل نماز ہیں لیکن ایسا کوئی نہیں کہتا سب ان کو ظہر ہی کہتے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ وقت کو دو اور چار سے بحث نہیں شریعت نے  جتنی نمازیں اس میں فرض کر دیں وہ ان کی ادائیگی کا محل بن جائیگا،  اس وجہ سے  یہی بات  صحیح معلوم ہوتی ہے کہ وقت سبب وجوب نہیں ہے۔

{۴} وقت اس لئے بھی سبب وجوب نہیں ہے کہ اگر یہ سبب وجوب ہوتا تو اس کو نمازوں سے مقدم ہونا چاہئے تھا، حالانکہ تمام احادیث  اس پر متفق ہیں کہ اوقات کا تعین فرضیت نماز کے اگلے دن ہوا ہے۔

{۵} اور  اس لئے بھی اسکو سبب وجوب نہیں کہا جا سکتا کیونکہ کلام اللہ میں اس کے علاوہ ایک اور سبب کا تذکرہ بھی موجود ہے یعنی  ذکر کا  قال اللہ تعالیٰ’’ اقم الصلوٰۃ لذکری‘‘ کیا ایک نماز کیلئے ایک وقت میں دو سبب موجب ہو سکتے ہیں۔

ان وجوہات کی بناء پر وقت کو سبب وجوب قرار دینا خدشہ سے خالی نہیں ہے۔

{۲} اگر وقت سبب وجوب نہیں ہے تو کیا اس کو علامتِ سمجھا جائے۔ جیسا کہ محقق ابن ہمامؒ کی رائے ہے وہ فرماتے ہیں کہ جعل (الوقت) علامۃ علی الوجوب الخفی الثابت فی نفس الامر۔ پھر کچھ آگے چل کر الخفی الثابت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ہوما تو اطئت اخبار الاسراء من فرض اللّٰہ تعالیٰ الصلوٰۃ خمساً بعد ما امروا اولاً بخمسین ثم استقر الامر علی الخمس شرعاً عاماً لاہل الآفاق لا تفصیل فیہ بن اہل (فتح القدیر ص ۱۹۷، ج۱)

گو اس تشریح پر بظاہر یہ اشکال ہوتا ہے کہ احکام ومسائل کی بہت سی ایسی صورتیں ہیں جن میں فرضیت نماز ساقط ہو جاتی ہے اس لئے حضرت محقق ؒ کا شرعاً عاماً فرمانا صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ عورتوں کے بعض ایام میں فرضیت نماز ساقط ہو جاتی ہے    نیز قصر کی بناء پر دو رکعتیں ساقط ہو جاتی ہیں۔ نیز حالت محاربہ میں دو رکعتوں کی ہیئت کذائی ساقط ہو جاتی ہے۔ وغیر ذلک لیکن بغور دیکھنے سے یہ اشکال صحیح نہیں معلوم ہوتا کیونکہ ان تمام صورتوں میں فرضیت نماز حکماً ساقط کی جاتی ہے حقیقتہً ساقط نہیں ہوتی۔ البتہ وقت کو علامت تسلیم کرنے سے ایک اور مسئلہ یہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ ہوائی جہازوں کے مذکورہ بالاحالات میں وجوب نماز کا علم کس طرح حاصل ہو۔ علامہ شامی ؒ نے اس کا حل تجویز فرمایا ہے کہ ’’ انا لانسلم لزوم وجود السبب حقیقۃ‘‘ بل یکفی تقدیرہ کما فی ایام الرجال (شامی ص ۲۶۶، ج ۱)

لیکن سوال یہ ہے کہ اس تقدیر و اندازہ کا معیار کیا ہونا چاہئے کیونکہ  فضاء میں جو وقت گذر رہا ہے  وہ امتداد کی وجہ سے قابل اعتماد نہیں ہے کیونکہ اس کا ایک وقت نمازوں کے  متعدد اوقات پر چھایا ہوا ہے۔

اس سلسلہ میں گوفقہاء کی کوئی تصریح نظر سے نہیں گذری لیکن ان کا میلان بظاہر اس طرف معلوم ہوتا ہے کہ  مقامات قریبہ کے اوقات کو معیار بنایا جائے علامہ شامی ؒ ایک حوالہ سے لکھتے ہیں ’’ ان یکون وقت العشاء فی حقہم بقدر مایغیب فیہ الشفق فی اقرب البلا دالیہم ‘‘ مگر دشواری یہ ہے کہ ہوائی جہاز چونکہ فضاء میں اڑتے ہیں اس لئے وہاں مقامات قریبہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

البتہ زمین کو فضا کا مقام قریب سمجھا  جا سکتا ہے۔ لیکن اس صورت میں یہ اشکال واقع ہوتا ہے کہ زمین بھی اختلافِ اوقات سے خالی نہیں ہے۔

مثلاً   لینن گراڈ میں چھ مہینہ کا دن اور چھ  مہینہکی رات ہوتی ہے یا ماسکو میں ۲۳؍ جون ۲۳؍ گھنٹہ کا دن اور ایک گھنٹہ کی رات ہوتی ہے اور ۲۳؍ دسمبر کو اس کے برعکس ہوتا ہے۔ اس لئے ان مقامات میں خود ہی  تقدیر و اندازہ کی ضرورت درپیش رہتی ہے یہ معیار کس طرح بن سکتے ہیں۔ 

آخری صورت یہ ہے کہ زمین کی مخصوص سطح کے اوقات کو تقدیر و اندازہ کا معیار قرار دیا جائے جو عموماً  ۱۲؍ گھنٹے کا دن اور ۱۲؍گھنٹے کی رات  پر مشتمل ہوتے ہیں۔ یہ آخری صورت ہی صحیح معلوم ہوتی ہے۔  بچند وجوہ

(۱) اوقات عالم میں یہ اوقات سب سے زیادہ معتدل ہیں۔

(۲)  قیاس یہ ہے کہ لیلۃ الاسراء میں انھیں اوقات کو بنیاد قرار دیکر نمازیں فرض کی گئیں تھیں۔ کیونکہ آنحضرت B ارشاد فرماتے ہیں ’’ امرتُ  بخمسین صلوات فی کل یوم‘‘یہ ارشاد لیلۃ الاسراء کے موقع کا ہے اسی موقع کا حضرت موسیٰ  علیہ السلام  کا یہ ارشاد ہے کہ ’’ ان اُمّتک لاتستطیع خمسین صلوات کل یوم وانی واللّٰہ قد جربت الناس بتلک (مشکوٰۃ)‘‘ ان دو عظیم پیغمبروں نے (علیہما السلام) کل یوم کے لفظ سے  جو مراد لیا ہے یقینا اسی کو فرضیت نماز کا کل یوم ہونا چاہئے اور معلوم ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر و فلسطینکا یوم اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجاز کا یوم ارشاد فرما رہے ہیں اس لئے اوقاتِ نماز کے واسطے سر زمینِ  انبیاء علیہم السلام کے اوقات کو تقدیر و اندازہ کا معیار بنانا نہ صرف یہ کہ بہتر ہے بلکہ اقرب الی الحقیقت ہے۔ ہم فضاء کے اوقات کو اس لئے بھی اپنے واسطے معیار نہیں بنا سکتے کیونکہ یہ ہماری فطرت کے خلاف ہے،  ہماری فطرت  یہ ہے کہ ’’ولکم فی الارض مستقر و متاعٌ الی حین‘‘ زمین  چونکہ ہمارا مستقر ہے اس لئے زمین  ہی کے اوقات ہمارے لئے معیار کا کام دے سکتے ہیں۔

بنابریں احقر کی رائے یہ ہے کہ ہم خواہ چاندمیں ہوں یا راکٹ اور ہوائی جہاز میں،  یالیننگراڈ اور ماسکو میں ہر جگہ ہم کو ۱۲؍ گھنٹے کے دن اور ۱۲؍ گھنٹے کی رات کے معتدل نظام الاوقات کے مطابق نمازیں ادا کرنی چاہئیں۔ واللّٰہ  اعلم وعلمہ اتم واحکم۔

فقط محمد مقبول  الرحمن سیوہاروی خادم ادارہ المباحث الفقہیہ (دہلی)

محترم المقام زادت مکاریکم ومعالیکم!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘

جناب کا تحریر کردہ جواب بغور پڑھا۔ جناب  نے خلاصۂ جواب  جو اخیر میں بایں الفاظ (ہم خواہ چاند میں ہوں یا راکٹ میں یا ہوائی جہاز میں یا لینن گراڈ اور ماسکو میں۔ ہر جگہ  ہم کو  ۱۲؍ گھنٹے کے دن اور ۱۲؍ گھنٹے کی رات کے معتدل نظام الاوقات کے مطابق نمازیں ادا کرنی چاہئیں)  تحریر فرمایا ہے،  اس سے  ہمیں پورا اتفاق ہے اور وہ بالکل صحیح ہے۔

سوال میں مذکورہ حالات کے اندر انہی ایام معتدلہ کے اوقات کا  لحاظ کر کے جس وقت سے سفر شروع کریں گے اس وقت سے ہر ۲۴؍گھنٹہ میں پانچ  نمازوں کے فصل کا اندازہ کر کے نماز  پنجگانہ ادا کرتے رہیں گے۔ اور باقی اس خلاصہ سے اوپر جو اشکال و جواب اورطویل بحث و تمحص پیدا ہوگئی ہے اس کا بڑا سبب علۃ اور سبب کے اصطلاحی معنیٰ  ذہن سے ذہول کر جانا معلوم ہوتا ہے ۔ غالباً دونوں کو ایک اور متحد المعنیٰ سمجھ لیا گیا ہے حالانکہ علۃ اور سبب دونوں دو مختلف اور الگ الگ چیزیں ہیں۔ علۃ کے  انتفاء سے معلول کا  منتفی ہو جانا ضروری ہو جاتا ہے۔ اسی طرح علۃ سے معلول کا تخلف بیشک ممکن نہیں ہوتا اور نہ علت میں تعدد و توارد ہو سکتا ہے۔ بخلاف سبب کے کہ اسباب میں تعدد و توارد بھی ہو سکتا ہے  اور سبب کے انتفاء سے سبب کا انتفاء لازم نہیں ہوتا۔ نیز سبب کا   تخلف بھی سبب سے ممکن  ہے۔ جہاں کہیں اس کے خلاف نظر آتا ہے وہاں سیاق و سباق  کے قرائن سے سبب  سے مراد علۃ ہوتی ہے اور یہ اطلاق بھی شائع ذائع ہے اور اس عرفی اطلاق کو بھی ممکن ہے۔ اس غلط میں دخل ہو  یہی حال اور حکم علامۃ کا بھی ہے کہ اس میں بھی تعدد وتوارد و تخلف سب ہو سکتا ہے۔ نماز پنجگانہ میں اصل علۃ و جوب حکم باری تعالیٰ عزاسمہ‘ ہے اور وہ حکم ان اوقات پنجگانہ میں متوجہ ہوتا ہے لیکن چونکہ انتہائی خفی ہوتا ہے اس لئے اس پر شریعت سمحاء اور دربار  رسالت علی صاحبہا الصلوۃ والسلام نے کچھ اسباب وعلامات مقرر فرماکر ہماری رہبری فرما دی ہے۔ جن سے حکم خداوندی (جو اصل علۃ وجوب ہے) کا پتہ چل جاتا ہے۔ اور  امتشال امر سہل  ہو جاتا ہے۔ پھر بعض کتب مذہب میں جو اوقات کو سبب اور بعض میں علامۃ ذکر کیا گیا ہے ان میں نزاع حقیقی نہیں ہے محض تعبیر و عنوان کا فرق ہے جو اختلاف لفظی سے آگے نہیں ہے اور مآل دونوں کا قریب قریب ایک ہی ہے۔ اسی طرح شمسی حرکات کے اندر جو انحصار کیا گیا ہے وہ انحصار بھی صحیح نہیں ہے اس لئے کہ جس طرح ’’دلوک شمس‘‘ کا ذکر ہے اسی طرح غسق لیل اور ’’قرآن الفجر‘‘ بھی مذکور ہے۔ نیز روایات صحیحہ میں عشاء  کے وقت کے بارہ میں آتا ہے کہ تیسری رات کا چاند جس وقت غروب ہوتا ہے اسی وقت آپؐ عشاء کی نماز ادا فرماتے۔ اسی طرح یہ بھی آتا ہے کہ شفق کی غیبوبت سے وقت عشاء شروع ہوتا ہے۔ اسی طرح نماز فجر کے وقت کے بارہ میں دارد ہے کہ جس وقت رات کی تاریکی میں اُفق کے اندر سفیدی نمایاں ہونے لگے اس وقت سے فجر کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ یہ سب بھی اوقات کی  نشاندہی میں وارد ہیں۔ غرض جناب کی مساعی اور کاوشیں ایک علمی سعی و کاوش ہے جو بلاریب قابل ستائش و تحسین ہے۔ اور خلاصۂ جواب جو اخیر جواب میں مذکور ہے وہ بلاریب صحیح و درست ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔

الجواب صحیح کتبہ العبد مفتی نظام الدین الاعظمی عفی عنہ محمود عفی عنہ ۱٣؍۷؍۱۳۹۶ھ (نظام الفتاوی ٦/١١٨)


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا