سوال
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
ایک دوسرا مسئلہ ہے کہ اگر کوئی آدمی ایک ملک سے دوسرے ملک کا سفر بائے پلین کررہاہے تو بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ہوائی جہاز میں پتا نہیں چلتا ہے کہ ابھی نماز کا وقت شروع ہواہے یا شروع نہیں ہواہے ایک ملک سے دوسرے ملک اس کا جانا ہورہا ہے اور اس کو نماز کے وقت کا تعین پتا نہیں چل رہا ہے کہ میں ابھی فی الحال کہاں ہوں اور زمین کے جس خطہ سے میرا یہ ہوائی جہاز کا گزر ہورہا ہے وہاں کونسا وقت ہے ابھی مجھے نماز کس طرح سے پڑھنی ہے تو پھر اس مسئلہ کے اندر نماز کے وقت کا تعین کس طرح سے کیا جائے اور نماز کو کس طرح اد کیا جائے اس مسئلہ کا بھی آپ مجھے جواب مرحمت فرما کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔
سائل: مفتی لقمان صاحب ہالولی۔
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
ہوائی جہاز میں نماز ادا کرنے میں بھی اوقات نماز کا ہونا اسی طرح استقبالِ قبلہ اور قیام شرط ہے، ان تینوں شرطوں میں سے کوئی ایک شرط اگر عذر کے بغیر فوت ہوجائے تو فرض اور واجب نماز ادا نہیں ہوگی۔
البتہ مسؤلہ صورت میں کہ جس خطہ سے میرا یہ ہوائی جہاز کا گزر ہورہا ہے وہاں نماز کا کونسا وقت ہے نماز کے اوقات کیسے معلوم کئے جائے اس سلسلہ میں تلاش بسیار کے بعد بھی کوئی صریح جزیہ نہیں ملا۔ البتہ جانے والے اکثر حضرات سے اس سلسلہ میں بات ہوئی تو یہ بات معلوم ہوئی کہ وہاں پر جہاز کے اندر کمپیوٹر کی اسکرین پر ہر چیز آجاتی ہے یہاں تک کہ وقت بھی اس جگہ کا اسکرین پر آجاتاہے اور اسکرین پر سمت متعین کرنے والے نشان کے ذریعہ بھی معلوم ہوجاتا ہے اس کے علاوہ وہاں پر جو عملہ ہوتا ہے ان سے بھی معلوم کرلیتے ہیں، اور پھر موبائل کی مدد سے وہاں کا وقت نماز متعین کرلیا جاتا ہے۔
اور فتاویٰ دار العلوم دیوبند میں ایک سوال اور جواب اس طرح سے ملا ہے، جس سے اس مسئلے کی طرف راہنمائی بھی ہوتی ہے۔ وہ سوال مع جواب پیش خدمت ہے۔
سوال: نمبر: 929
(1) کیا ہوائی جہاز میں سفر کے دوران بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت ہے؟ (2) جہاز میں نماز کے اوقات اور قبلہ سمت کی تعیین کیسے ہوگی؟
جواب نمبر: 929
بسم الله الرحمن الرحيم
(1) جب تک کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کی طاقت ہو، بیٹھ کر نماز پڑھنا درست نہیں خواہ سفر میں ہو یا حضر میں اور خواہ سواری پر سوار ہو یا زمین پر ہو۔ در مختار میں ہے: من فرائضھا التي لا تصح بدونھا التحریمة والخ ومنھا القیام الخ في فرض و ملحق بہ الخ لقادر علیہ۔ (شامي زکریا: 2/127)
(2) گھڑی کے ذریعہ نماز کے اوقات کی تعیین ہوسکتی ہے اور سمت قبلہ کی تعیین قطب نما کے ذریعہ یا جہاز میں لگے کمپیوٹر کی اسکرین پر سمت متعین کرنے والے نشان کے ذریعہ یا کسی جانکار (مثلاً جہاز کے عملے) وغیرہ کے ذریعہ معلوم کیا جاسکتا ہے، ورنہ تحری کرکے نماز پڑھی جائے۔واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
علماء کرام کے لئے اسی مضمون کے تحت نظام الفتاوی کی ایک مفید تحریر ہوائی جہاز میں نماز کے حکم میں تحریر شدہ ہے، پیش خدمت ہے ضرور پوری پڑھیں فایدہ ہوگا
ہوائی جہازوں میں نماز کا حکم
سوال: ہوائی جہازوں میں کس نظام الاوقات کے مطابق نماز ادا کی جائے۔استفتاء کی بناء اس پر ہے کہ!
(۱) اسلام میں پانچ نمازیں فرض ہیں، قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم خمس صلوات افتر ضہن اللہ تعالیٰ (۲) ان نمازوں کی ادائیگی کیلئے مخصوص اوقات فرض کئے گئے ہیں ’’لہا اوقات مخصوصۃ لا تجزئی قبلہا بالاجماع‘‘ ص ۳۲۶ نیل الاوطار۔
ان اوقات کی فقہی نوعیت خواہ کچھ ہو لیکن اس میں شک نہیں کہ عملاً ان کو صحت ادا کے لئے شرط سمجھا جاتا ہے۔ جس سے شبہ ہوتا ہے کہ فرضیت نماز کی علت شاید یہی اوقات ہیں۔
چنانچہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک واقعہ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ حدیث میں آتا ہے۔ نامَ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی حجر علی رضی اللّٰہ عنہ حتی غربت الشمس فلما استیقظ ذکر لہ‘ انہٗ فاتتہ العصر فقال اللّٰھم انہ کان فی طاعتک وطاعت رسولک فردّو ہا علیہ فردّت حتی صلی العصر وکان ذالک بخیبر شامی۔ (ص ۲۶۵،ج۱)۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں وقت کو خاص اہمیت حاصل ہے جب بھی تواس کیلئے سورج کا اعادہ کرایا گیا ہے۔ کیا وقت کی اسی اہمیت کی بناء پر فقہاء نے اسکو سبب وجوب کہا ہے جیساکہ مشہور ہے ۔ وسببہا اوقاتہا عند الفقہاء۔ لیکن اگرایسا ہے تو واقعہ دجال کے متعلق کیا کہا جائیگا جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر وقت ایک سال تک بھی نہ آئے تو نمازیں برابر اندازہ کے ساتھ ادا کی جاتی رہیں گی۔
ذکر الدجال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقلنا کم بعثہٗ فی الارض قال اربعون یوماً یوم کسنۃ ٍویوم کشھرٍ ویوم کجمعۃٍ وسائر ایام کا یا مکم فقلنا یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قدالک الیوم الذی کسنۃ اَیکفینا فیہ صلوۃ یوم قال لا اقدر والہ‘ قدرہٗ (مشکوٰۃ ص ۴۷۳)۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وقت سبب وجوب نہیں ہے۔ علماء کا ایک طبقہ اسی طرف گیا ہے کہ وقت سبب وجوب نہیں ہے صرف علامت ہے۔ محقق ابن ہمامؒ فرماتے ہیں کہ جُعل علامۃ علی الوجوب الخفی الثابت فی نفس الامر (فتح القدیر ص ۱۹۷،ج۱)
بہر حال وقت کی حیثیت سبب وجوب کی ہو یا علامت کی دریافت طلب امر یہ ہے کہ ہوائی جہازوں کے سفر میں اکثر امتدادِ وقت کی حالت سے سابقہ پڑتا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ زمین اپنے طور پر مشرق کی طرف ایک ہزار میل فی گھنٹہ کے حساب سے ۲۴؍ گھنٹے میں ایک چکر پورا کرتی ہے اور ہوائی جہاز عموماً زمین سے چالیس ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرتے ہیں تو اگر وہ زمین کی مخالف سخت میں یعنی سورج کی طرف پشت کر کے پرواز کرتے ہیں تو رات کے اوقات بڑھتے رہتے ہیں اور اگر ان کی پیرواز زمین کی موافق سمت میں ہوتی ہے تو اس صورت میں چونکہ سورج سامنے ہوتا ہے اس لئے ان پر مسلسل دن کا وقت بڑھتا رہتا ہے۔ یہ امتداد وقت کی صورت ہے لیکن اس سے زیادہ حیرت ناک وہ شکل ہے جس میں وقت کم ہوتا ہے۔ کہتے ہیں ’’راکٹ‘‘ ۲۴؍ گھنٹے میں زمین کے ۱۷؍ چکر لگاتا ہے یعنی ڈیڑھ گھنٹہ میں ایک چکر جس کا مطلب یہ ہے کہ ڈیڑھ گھنٹہ میں نمازوں کے تمام اوقات راکٹ پر گذر جاتے ہیں اور اس طرح ۲۴؍ گھنٹہ میں ۱۷؍ دن کی نمازیں فرض ہو جاتی ہیں۔
ان مذکورہ بالا دو صورتوں میں جبکہ وقت معدوم بھی نہیں ہے لیکن معمول کے مطابق موجود بھی نہیں ہے۔ نمازوں کے متعلق کیا فیصلہ کیا جائیگا۔
{۱} کیا جو وقت گذر رہا ہے اسی کے حساب سے نمازیں ادا کی جائیں گی لیکن یہ صورت حدیث دجال کے خلاف ہے۔
{۲} یا جو وقت معمول کے مطابق موجود نہیں ہے تقدیر و اندازہ کر کے اس کے حساب سے نمازیں ادا کی جائیں گی۔ لیکن اس صورت میں یہ اشکال ہیکہ تقدیر و اندازہ کیلئے کون سے اوقات کو معیار بنایا جائیگا۔
{۳} یا جو وقت معمول کے مطابق موجود نہیں ہے اس کو بنیاد قرار دیکر نماز کی عدم فرضیت کا فیصلہ کیا جائیگا۔
یہ وہ بنیادیں ہیں جن پر استفتاء مرتب کیا گیا ہے اس سلسلہ میں احقر بھی چند معروضات بغرض اصلاح پیش کر رہا ہے ملاحظہ فرمائیں اور اپنی تحقیقات علمیہ و فقہیہ سے سرفراز فرمائیں۔
جواب: اس میں شک نہیں کہ شریعت نے نماز کا مدار شمسی اوقات پر رکھا ہے ’’قال اللّٰہ تعالیٰ‘‘ اقم الصلوۃ لدلوک الشمس الیٰ غسق اللیل وقرآن الفجر‘‘ اور اس میں بھی شک نہیں کہ شمسی اوقات کرۂ ارضی کے ہر حصہ میں یکساں نہیں پائے۔
ایک طبقہ اسی طرف گیا ہے کہ وقت سبب وجوب نہیں ہے صرف علامت ہے۔ محقق ابن ہمامؒ فرماتے ہیں کہ جُعل علامۃ علی الوجوب الخفی الثابت فی نفس الامر (فتح القدیر ص ۱۹۷،ج۱)
{۱} اصولاً جن مقامات میں یہ اوقات نہ پائے جاتے ہوں، نماز فرض نہیں ہونی چاہئے کیونکہ جب سبب وجوب ہی نہیں ہے تو نماز کی فرضیت کا حکم کس طرح دیا جا سکتا ہے۔
چنانچہ علماء کا ایک طبقہ ایسے مواقع پر نماز کی عدم فرضیت ہی کا قائل ہے۔ وبہ جزم فی الکنز والدرر والملتقی وبہ افتی البقال وافقہ الحلوانی والمرغینانی ورجحہ الشرنبلالی والحلبی (درمختار ص ۲۶۷، ج۱)
یہ تمام حضرات عدم سبب ہی کی بناء پرنماز کی عدم فرضیت کے قائل ہیں اور ان کی اصل بقالیؒ کا فتویٰ ہے۔
ومن لم یوجد عندھم وقت العشاء کما قیل یطلع الفجر قبل غیبو بتہ الشفق عندھم افتی البقالؒ بعدم الوجوب علیھم لعدم السبب وہو مختار صاحب الکنز کما یسقط غسل الیدین من الوضوء عن مقطو عہمامن المرفقین وانکرہ الحلوانی ثم وافقہٗ (فتح القدیر ص ۱۹۷، ج۱) لیکن اس فتویٰ پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سقوطِ فرضیت کی جو وجہ بقالیؒ نے بیان کی ہے۔ ہی کما یسقط غسل الیدین من الوضوء الخ کیا یہ وجہ درست ہے محقق ابن ہمامؒ نے اس پر اعتراض کیا ہے کہ قیاس صحیح نہیں ہے’’ ولا یرتاب فتامل فی ثبوت الفرق بین عدم حمل الفرض وبین سبب الجعلی الذی جعل علامۃ‘‘ علی الوجوب الخفی الخ (فتح القدیر ص ۱۹۷، ج ۱)
میرے نزدیک بقالی ؒ کی اس تعریف پر کہ وقت سبب وجوب ہے کچھ اور بھی اشکالات ہیں۔
{۱} وقت جس کا سبب یا علامت ہونا محض دلیل ظنی سے ثابت ہے اس کو نماز کی متواترۃ الثبوت خمسیت کے ختم کرنے کیلئے حجت بنایا جاتا ہے جو صحیح نہیں ہے۔
{۲} لیلۃ الاسراء میں جو خمسین صلوات فرض ہوئیں اور آخر میں معاف ہوکر خمس صلوات رہ گئیں ہیں بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے ان سے مراد خمس اوقات ہیں کیونکہ ہم اوقات میں تو یہ خمسیت پاتے ہیں صلوات میں نہیں پاتے، معراج میں صلوات کا عدد گیارہ کا فرض ہوا ہے پانچ کا نہیں،، فرضت الصلوٰۃ لیلۃ الاسراء رکعتین رکعتین الاالمغرب(نیل الاوطار) نیز بعد کو حضر میں دو، دو کا مزید اضافہ کیا گیا ہے۔ثم زیدت بعد الہجرۃ الاالصبح۔ (نیل الاوطار ص ۳۰۹)۔ یہ اضافہ اوقات میں نہیں ہوا نماز میں کیا گیا ہے تو ایک مرتبہ معاف. کرا کے دوبارہ فرض کا کوئی قائل نہیں ہے۔
لہذا خمس اوقات کی بات ہی صحیح معلوم ہوتی ہے تو اگر اس کو صحیح تسلیم کر لیا جاتا ہے تو اس صورت میں اوقات کا خود اپنے لئے سبب وجوب ہونا لازم آتا ہے جو صحیح نہیں بلکہ غلط ہے۔
{۳} یہ حقیقت ہے کہ ہر رکعت ایک مستقل نماز ہے،، ان کل رکعۃً صلوۃ (ھدایہ ص ۱۰۷) اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کی ادائیگی رکعۃً رکعۃً ممنوع ہے،، نھی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عنہ صلوۃ بلکہ شفعۃً شفعۃً اداء کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ اس کی فرضیت ہی دو دو رکعت ہوئی ہے،، الصلوٰۃ فرضت لیلۃ الاسرائع رکعتین رکعتین الاالمغرب ثم زیدت بعد الہجرۃ الاالصبح (نیل الالاوطار ص ۳۰۹،ج۱) اور فقہاء کا یہ اصول ہے کہ وجوب نماز کا تکرار وجوب اوقات کی وجہ سے ہوتا ہے،، تکرر وجوبہا بتکر ار الوقت،،
مثلاً ظہر اصولاً اپنے وقت پر فرض ہوتی ہے اور اصلاً دو رکعت ہوتی ہے۔ لیکن اس میں بعد کو جو دو رکعتوں کا اضافہ کیا گیا ہے کیا اس کا موجب بھی یہی ظہر کا وقت ہے۔ اصولاً تو اس کیلئے کوئی اور مستقل وقت ہونا چاہئے تھا کیونکہ یہ دو رکعتیں خود ہی ایک مستقل نماز ہیں لیکن ایسا کوئی نہیں کہتا سب ان کو ظہر ہی کہتے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ وقت کو دو اور چار سے بحث نہیں شریعت نے جتنی نمازیں اس میں فرض کر دیں وہ ان کی ادائیگی کا محل بن جائیگا، اس وجہ سے یہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے کہ وقت سبب وجوب نہیں ہے۔
{۴} وقت اس لئے بھی سبب وجوب نہیں ہے کہ اگر یہ سبب وجوب ہوتا تو اس کو نمازوں سے مقدم ہونا چاہئے تھا، حالانکہ تمام احادیث اس پر متفق ہیں کہ اوقات کا تعین فرضیت نماز کے اگلے دن ہوا ہے۔
{۵} اور اس لئے بھی اسکو سبب وجوب نہیں کہا جا سکتا کیونکہ کلام اللہ میں اس کے علاوہ ایک اور سبب کا تذکرہ بھی موجود ہے یعنی ذکر کا قال اللہ تعالیٰ’’ اقم الصلوٰۃ لذکری‘‘ کیا ایک نماز کیلئے ایک وقت میں دو سبب موجب ہو سکتے ہیں۔
ان وجوہات کی بناء پر وقت کو سبب وجوب قرار دینا خدشہ سے خالی نہیں ہے۔
{۲} اگر وقت سبب وجوب نہیں ہے تو کیا اس کو علامتِ سمجھا جائے۔ جیسا کہ محقق ابن ہمامؒ کی رائے ہے وہ فرماتے ہیں کہ جعل (الوقت) علامۃ علی الوجوب الخفی الثابت فی نفس الامر۔ پھر کچھ آگے چل کر الخفی الثابت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ہوما تو اطئت اخبار الاسراء من فرض اللّٰہ تعالیٰ الصلوٰۃ خمساً بعد ما امروا اولاً بخمسین ثم استقر الامر علی الخمس شرعاً عاماً لاہل الآفاق لا تفصیل فیہ بن اہل (فتح القدیر ص ۱۹۷، ج۱)
گو اس تشریح پر بظاہر یہ اشکال ہوتا ہے کہ احکام ومسائل کی بہت سی ایسی صورتیں ہیں جن میں فرضیت نماز ساقط ہو جاتی ہے اس لئے حضرت محقق ؒ کا شرعاً عاماً فرمانا صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ عورتوں کے بعض ایام میں فرضیت نماز ساقط ہو جاتی ہے نیز قصر کی بناء پر دو رکعتیں ساقط ہو جاتی ہیں۔ نیز حالت محاربہ میں دو رکعتوں کی ہیئت کذائی ساقط ہو جاتی ہے۔ وغیر ذلک لیکن بغور دیکھنے سے یہ اشکال صحیح نہیں معلوم ہوتا کیونکہ ان تمام صورتوں میں فرضیت نماز حکماً ساقط کی جاتی ہے حقیقتہً ساقط نہیں ہوتی۔ البتہ وقت کو علامت تسلیم کرنے سے ایک اور مسئلہ یہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ ہوائی جہازوں کے مذکورہ بالاحالات میں وجوب نماز کا علم کس طرح حاصل ہو۔ علامہ شامی ؒ نے اس کا حل تجویز فرمایا ہے کہ ’’ انا لانسلم لزوم وجود السبب حقیقۃ‘‘ بل یکفی تقدیرہ کما فی ایام الرجال (شامی ص ۲۶۶، ج ۱)
لیکن سوال یہ ہے کہ اس تقدیر و اندازہ کا معیار کیا ہونا چاہئے کیونکہ فضاء میں جو وقت گذر رہا ہے وہ امتداد کی وجہ سے قابل اعتماد نہیں ہے کیونکہ اس کا ایک وقت نمازوں کے متعدد اوقات پر چھایا ہوا ہے۔
اس سلسلہ میں گوفقہاء کی کوئی تصریح نظر سے نہیں گذری لیکن ان کا میلان بظاہر اس طرف معلوم ہوتا ہے کہ مقامات قریبہ کے اوقات کو معیار بنایا جائے علامہ شامی ؒ ایک حوالہ سے لکھتے ہیں ’’ ان یکون وقت العشاء فی حقہم بقدر مایغیب فیہ الشفق فی اقرب البلا دالیہم ‘‘ مگر دشواری یہ ہے کہ ہوائی جہاز چونکہ فضاء میں اڑتے ہیں اس لئے وہاں مقامات قریبہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
البتہ زمین کو فضا کا مقام قریب سمجھا جا سکتا ہے۔ لیکن اس صورت میں یہ اشکال واقع ہوتا ہے کہ زمین بھی اختلافِ اوقات سے خالی نہیں ہے۔
مثلاً لینن گراڈ میں چھ مہینہ کا دن اور چھ مہینہکی رات ہوتی ہے یا ماسکو میں ۲۳؍ جون ۲۳؍ گھنٹہ کا دن اور ایک گھنٹہ کی رات ہوتی ہے اور ۲۳؍ دسمبر کو اس کے برعکس ہوتا ہے۔ اس لئے ان مقامات میں خود ہی تقدیر و اندازہ کی ضرورت درپیش رہتی ہے یہ معیار کس طرح بن سکتے ہیں۔
آخری صورت یہ ہے کہ زمین کی مخصوص سطح کے اوقات کو تقدیر و اندازہ کا معیار قرار دیا جائے جو عموماً ۱۲؍ گھنٹے کا دن اور ۱۲؍گھنٹے کی رات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ یہ آخری صورت ہی صحیح معلوم ہوتی ہے۔ بچند وجوہ
(۱) اوقات عالم میں یہ اوقات سب سے زیادہ معتدل ہیں۔
(۲) قیاس یہ ہے کہ لیلۃ الاسراء میں انھیں اوقات کو بنیاد قرار دیکر نمازیں فرض کی گئیں تھیں۔ کیونکہ آنحضرت B ارشاد فرماتے ہیں ’’ امرتُ بخمسین صلوات فی کل یوم‘‘یہ ارشاد لیلۃ الاسراء کے موقع کا ہے اسی موقع کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ ارشاد ہے کہ ’’ ان اُمّتک لاتستطیع خمسین صلوات کل یوم وانی واللّٰہ قد جربت الناس بتلک (مشکوٰۃ)‘‘ ان دو عظیم پیغمبروں نے (علیہما السلام) کل یوم کے لفظ سے جو مراد لیا ہے یقینا اسی کو فرضیت نماز کا کل یوم ہونا چاہئے اور معلوم ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر و فلسطینکا یوم اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجاز کا یوم ارشاد فرما رہے ہیں اس لئے اوقاتِ نماز کے واسطے سر زمینِ انبیاء علیہم السلام کے اوقات کو تقدیر و اندازہ کا معیار بنانا نہ صرف یہ کہ بہتر ہے بلکہ اقرب الی الحقیقت ہے۔ ہم فضاء کے اوقات کو اس لئے بھی اپنے واسطے معیار نہیں بنا سکتے کیونکہ یہ ہماری فطرت کے خلاف ہے، ہماری فطرت یہ ہے کہ ’’ولکم فی الارض مستقر و متاعٌ الی حین‘‘ زمین چونکہ ہمارا مستقر ہے اس لئے زمین ہی کے اوقات ہمارے لئے معیار کا کام دے سکتے ہیں۔
بنابریں احقر کی رائے یہ ہے کہ ہم خواہ چاندمیں ہوں یا راکٹ اور ہوائی جہاز میں، یالیننگراڈ اور ماسکو میں ہر جگہ ہم کو ۱۲؍ گھنٹے کے دن اور ۱۲؍ گھنٹے کی رات کے معتدل نظام الاوقات کے مطابق نمازیں ادا کرنی چاہئیں۔ واللّٰہ اعلم وعلمہ اتم واحکم۔
فقط محمد مقبول الرحمن سیوہاروی خادم ادارہ المباحث الفقہیہ (دہلی)
محترم المقام زادت مکاریکم ومعالیکم!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘
جناب کا تحریر کردہ جواب بغور پڑھا۔ جناب نے خلاصۂ جواب جو اخیر میں بایں الفاظ (ہم خواہ چاند میں ہوں یا راکٹ میں یا ہوائی جہاز میں یا لینن گراڈ اور ماسکو میں۔ ہر جگہ ہم کو ۱۲؍ گھنٹے کے دن اور ۱۲؍ گھنٹے کی رات کے معتدل نظام الاوقات کے مطابق نمازیں ادا کرنی چاہئیں) تحریر فرمایا ہے، اس سے ہمیں پورا اتفاق ہے اور وہ بالکل صحیح ہے۔
سوال میں مذکورہ حالات کے اندر انہی ایام معتدلہ کے اوقات کا لحاظ کر کے جس وقت سے سفر شروع کریں گے اس وقت سے ہر ۲۴؍گھنٹہ میں پانچ نمازوں کے فصل کا اندازہ کر کے نماز پنجگانہ ادا کرتے رہیں گے۔ اور باقی اس خلاصہ سے اوپر جو اشکال و جواب اورطویل بحث و تمحص پیدا ہوگئی ہے اس کا بڑا سبب علۃ اور سبب کے اصطلاحی معنیٰ ذہن سے ذہول کر جانا معلوم ہوتا ہے ۔ غالباً دونوں کو ایک اور متحد المعنیٰ سمجھ لیا گیا ہے حالانکہ علۃ اور سبب دونوں دو مختلف اور الگ الگ چیزیں ہیں۔ علۃ کے انتفاء سے معلول کا منتفی ہو جانا ضروری ہو جاتا ہے۔ اسی طرح علۃ سے معلول کا تخلف بیشک ممکن نہیں ہوتا اور نہ علت میں تعدد و توارد ہو سکتا ہے۔ بخلاف سبب کے کہ اسباب میں تعدد و توارد بھی ہو سکتا ہے اور سبب کے انتفاء سے سبب کا انتفاء لازم نہیں ہوتا۔ نیز سبب کا تخلف بھی سبب سے ممکن ہے۔ جہاں کہیں اس کے خلاف نظر آتا ہے وہاں سیاق و سباق کے قرائن سے سبب سے مراد علۃ ہوتی ہے اور یہ اطلاق بھی شائع ذائع ہے اور اس عرفی اطلاق کو بھی ممکن ہے۔ اس غلط میں دخل ہو یہی حال اور حکم علامۃ کا بھی ہے کہ اس میں بھی تعدد وتوارد و تخلف سب ہو سکتا ہے۔ نماز پنجگانہ میں اصل علۃ و جوب حکم باری تعالیٰ عزاسمہ‘ ہے اور وہ حکم ان اوقات پنجگانہ میں متوجہ ہوتا ہے لیکن چونکہ انتہائی خفی ہوتا ہے اس لئے اس پر شریعت سمحاء اور دربار رسالت علی صاحبہا الصلوۃ والسلام نے کچھ اسباب وعلامات مقرر فرماکر ہماری رہبری فرما دی ہے۔ جن سے حکم خداوندی (جو اصل علۃ وجوب ہے) کا پتہ چل جاتا ہے۔ اور امتشال امر سہل ہو جاتا ہے۔ پھر بعض کتب مذہب میں جو اوقات کو سبب اور بعض میں علامۃ ذکر کیا گیا ہے ان میں نزاع حقیقی نہیں ہے محض تعبیر و عنوان کا فرق ہے جو اختلاف لفظی سے آگے نہیں ہے اور مآل دونوں کا قریب قریب ایک ہی ہے۔ اسی طرح شمسی حرکات کے اندر جو انحصار کیا گیا ہے وہ انحصار بھی صحیح نہیں ہے اس لئے کہ جس طرح ’’دلوک شمس‘‘ کا ذکر ہے اسی طرح غسق لیل اور ’’قرآن الفجر‘‘ بھی مذکور ہے۔ نیز روایات صحیحہ میں عشاء کے وقت کے بارہ میں آتا ہے کہ تیسری رات کا چاند جس وقت غروب ہوتا ہے اسی وقت آپؐ عشاء کی نماز ادا فرماتے۔ اسی طرح یہ بھی آتا ہے کہ شفق کی غیبوبت سے وقت عشاء شروع ہوتا ہے۔ اسی طرح نماز فجر کے وقت کے بارہ میں دارد ہے کہ جس وقت رات کی تاریکی میں اُفق کے اندر سفیدی نمایاں ہونے لگے اس وقت سے فجر کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ یہ سب بھی اوقات کی نشاندہی میں وارد ہیں۔ غرض جناب کی مساعی اور کاوشیں ایک علمی سعی و کاوش ہے جو بلاریب قابل ستائش و تحسین ہے۔ اور خلاصۂ جواب جو اخیر جواب میں مذکور ہے وہ بلاریب صحیح و درست ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
الجواب صحیح کتبہ العبد مفتی نظام الدین الاعظمی عفی عنہ محمود عفی عنہ ۱٣؍۷؍۱۳۹۶ھ (نظام الفتاوی ٦/١١٨)
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا