سوال
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
میں محمد اسلم فیضی ہنگولی مہاراشٹرسے ہوں محترم مفتیان کرام میرے ایک دوست ہیں جو اپنے نام کے آخر میں رحمت اللہ علیہ لگاتے اورلوگوں سے یہ کہتے ہیں کہ ہر آدمی کو رح لگانا چاہیے یہ دعا ہے اور کہتے ہیں کہ جیسے سلام کے جواب میں ورحمت اللہ وبرکاتہ ہے ویسے لگانا چاہیئے.پھر میں انکو بہت سمجھایا کہ وہ سلام کے ساتھ ہے اس میں گنجائش ہی نہیں بلکہ بہت اچھا ہے۔ لیکن وہ اس بات کو ماننے کو تیار نہیں ہیں اور کہتے ہیں کہ مجھے کوئی حدیث یا قرآن کا حوالہ دے گا تو میں مان لونگا اس بات کو لے کر ہر کسی سے بحث بھی کرتے رہتے ہیں اگر آپ لوگوں کے پاس کوئی بہتر سے بہتر حوالہ ہو برائے کرم بھیج دیں.. جواب کا انتظار رہے گا
سائل: محمد اسلم فیضی ہنگولوی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
’’رحمہ اللہ‘‘ ایک دعائیہ جملہ ہے جس کا مطلب ہے اللہ اس پر رحم فرمائے۔
لیکن یہ بولنا نہ مردوں کے لئے ضروری ہے نہ زندوں کے لئے اور نہ ہی یہ جملہ بولنا سنت ہے لہذا اگر آپ کا ساتھی اس پر دوسروں کو بھی اصرار کریں یہ درست نہیں ہے، اس لیے کہ جو کام قرآن وحدیث سے ثابت نہ ہو اسے دین کا جز اور عبادت اور کار ثواب سمجھ کر کرنا، اسے لازم وضروری سمجھنا، نہ کرنے والوں پر نکیر کرنا، یہ بدعت کہلاتا ہے۔
لیکن چونکہ یہ دعایئہ جملہ ہے اس اعتبار سے تو یہ جملہ زندوں کے لیے بھی کہا جاسکتا ہے، البتہ ہمارے عرف میں عام طور سے یہ جملہ مرحومین کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اسی وجہ سے کسی زندہ شخص کے لیے یہ جملہ استعمال کرنا التباس یعنی شک پیدا کرسکتا ہے، اس لئے مناسب یہ ہے کہ زندوں کے لیے یہ جملہ استعمال نہ کیا جائے۔ واللہ اعلم بالصواب
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں