بدھ، 30 مارچ، 2022

زکوۃ کس کو نہیں دے سکتے؟ سوال نمبر ٢٦٢

سوال

وہ کونسے حضرات سے جن کو زکوۃ دینا جائز نہیں ہے؟ مدلل واضح فرمائیں۔


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


کل پانچ قسم کے مصارف ایسے ہیں جن میں زکوۃ صرف کرنا جائز نہیں ہے۔


(١) اصول 

والدین داد  دادی پڑدادا پڑدادی ، نانا نانی پڑنانا پڑ نانی کو اوپر تک کو زکوۃ دینا جائز نہیں ہے۔


(٢) فروع

بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، نواسہ، نواسی وغیرہ نیچے تک اپنی اولاد کو زکوۃ دینا جائز نہیں۔


(٣) صاحب نصاب شخص کو زکوۃ دینا جائز نہیں ہے، یعنی مسلمان کے پاس اس کی بنیادی ضرورت و استعمال (یعنی رہنے کا مکان گھریلو برتن، کپڑے وغیرہ) سے زائد، نصاب کے بقدر (جس کی مالیت ساڑھے سات تولہ سونا (۸۷/٤٨ 87.48 گرام) یا ساڑھے باون تولہ چاندی(٦١٢/٣٦ 612.36 گرام) کی مالیت کے بقدر ہو) تو چاہے اس شخص پر مال نامی کے نہ ہونے کی وجہ سے زکوۃ فرض تو نہیں ہے لیکن نصاب کے مالک ہونے کی وجہ سے وہ زکوۃ لے بھی نہیں سکتا۔


(٤) میاں بیوی آپس میں ایک دوسرے کو زکوۃ نہیں دے سکتے، یعنی میاں بیوی آپس میں ایک دوسرے کو  اپنے مال کی زکاۃ نہیں دے سکتے، ہاں اگر شوہر مستحقِ زکاۃ ہو تو وہ کسی دوسرے شخص سے زکاۃ کی رقم وصول کر سکتا ہے۔


(۵) بنو ہاشم سید خاندان یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کو زکوۃ دینا جائز نہیں ہے، اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: یہ صدقات (زکاۃ اور صدقاتِ واجبہ) لوگوں کے مالوں کا میل کچیل ہیں، ان کے ذریعہ لوگوں کے نفوس اور اموال پاک ہوتے ہیں اور بلاشبہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیے اور آلِ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیےحلال نہیں ہے۔


جن لوگوں کا سلسلہِ نسب حضرت عباس، حضرت جعفر، حضرت عقیل، حضرت علی یا حضرت حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہم تک تحقیقی طور پر پہنچتا ہے اور ان کے نسب نامہ میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے تو وہ سید کہلاتے ہیں، آل رسول کی نسبت سے ان کا احترام کرنا ضروری ہے۔


اگر آل رسول غریب اور محتاج ہے تو صاحبِ حیثیت مال داروں پر لازم ہے کہ وہ سادات کی امداد زکوۃ اور صدقاتِ واجبہ کے علاوہ رقم سے کریں اور ان کو مصیبت اور تکلیف سے نجات دلائیں اور یہ بڑا اجر وثواب کا کام ہے اور حضور اکرم کے ساتھ محبت کی دلیل ہے اور ان شاء اللہ تعالیٰ اس عمل کے ذریعہ آپ  کی شفاعت کی قوی امید کی جاسکتی ہے۔


ہدایہ میں ہے۔

ولا يدفع المزکی زکوۃ ماله الى ابيه وجده وان علا ولا الى ولده وان سفل لان مـنـافـع الامـلاك بيـنـهـم مـتـصـلـة فـلا يـتـحـقـق الـتـمـليـك عـلـى الـكـمـال۔ (هدايہ ١/٢٢٣)


فتاوی عالمگیری میں ہے۔

ولا یدفع إلی أصلہ وإن علا وفرعہ وإن سفل، کذا في الکافي، ولا یدفع إلی امرأتہ للاشتراک في المنافع ولا تدفع المرأۃ إلی زوجہا عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ۔

(فتاوی عالمگیری  ١/١٨٩ )


فتاوی شامی میں ہے۔

قال اللہ تعالی: إنما الصدقت للفقراء والمساکین الآیة(سورہ توبہ آیت:۶۰)، ولا إلی من بینھما ولاد … أو بینھما زوجیة (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاة، باب المصرف، ۳: ۲۹۴، ط: مکتبة زکریا دیوبند)


فتاوی عالمگیری میں ہے۔

ولايدفع إلى أصله، وإن علا، وفرعه، وإن سفل كذا في الكافي۔ (فتاوی عالمگیری ١/١٨٨ )


فتاوی شامی میں ہے۔

إلی من غني یملک قدر نصاب فارغ عن حاجتہ الأصلیة من أي مال کان الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاة، باب المصرف، ٣/ ٢٩٦ ٢٩٥ ط: مکتبة زکریا دیوبند)


فتاوی شامی میں ہے۔

قوله: (فلا يدفع لاصله) أي وإن علا، وفرعه وإن سفل، وكذا لزوجته وزوجها وعبده ومكاتبه، لأنه بالدفع إليهم لم تنقطع المنفعة عن المملك: أي المزكي من كل وجه۔ (شامی ٣/١٧٣)


البحر الرائق میں ہے۔

ولا یدفع إلی بنی ہاشم وموالہیم) أي لا یجوز الدفع لہم لحدیث البخاري نحن أہل بیت لا تحل لنا الصدقۃ ولحدیث أبي داؤد مولی القوم من أنفسہم وأنا لاتحل لنا الصدقۃ أطلق في بني ہاشم۔ (البحر الرائق ٢/٢٤٦ کراچی)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

پیر، 28 مارچ، 2022

نفس مال میں زکوۃ کی فرضیت کے مسائل سوال نمبر ٢٦١

 سوال

زکوۃ فرض ہونے کے لئے نفس مال میں کن شرائط کا ہونا ضروری ہے؟


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


زکوۃ فرض ہونے کے لئے نفس مال میں آنے والے شرائط کا پایا جانا ضروری ہے۔


( ۱ ) ملکیت اور قبضہ تام ہو،

جس مال کا وہ مالک نہ ہو اس مال پر زکوۃ واجب نہیں ہے، اس لئے کہ زکوٰۃ اس مالیت پر واجب ہے جس کا انسان خود مالک ہو، غیر مملوکہ مال پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی۔ جیسے لقطہ (گری پڑی چیز) کی رقم ملتقط (اٹھانے والے) کے قبضہ میں بطور امانت کے ہوتی ہے اس میں ملکیت اصل مالک کی ہی ہوتی ہے، لہٰذا لقطہ کی رقم میں اٹھانے والے پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔ اگرچہ سال بھی گزر جائے، اسی طرح ودیعت یا عاریت میں بطور استعمال لی ہوئی چیز کہ وہ اس کا مالک نہیں ہوتا اس پر بھی زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔


اور وہ مال جس کی ملکیت تو ہو لیکن اس پر قبضہ نہ ہو یعنی ابھی اس کو وہ مال نہ ملا ہو اس کی دو قسمیں ہے۔

 پہلے نمبر پر یہ ہے کہ اس کے ملنے کی امید ہو جیسے اس نے کسی کو قرضہ دیا ہے اور اس پر گواہ بھی موجود ہے یا گواہ تو نہیں ہے لیکن وہ آدمی جس نے قرضہ لیا ہے وہ اقرار کرتاہے تو اس پر زکوۃ کے وجوب کا حکم ہوگا۔

دوسرے نمبر پر یہ ہے کہ اس کے ملنے کی امید نہ ہو اور پھر بعد میں اچانک مل جائے، جسے مال ضمار کہتے ہیں، ضمار لغت میں چھپانے اور پوشیدہ رکھنے کو کہتے ہیں شریعت میں ہر اس مال کو کہتے ہیں جس پر مالک کو قبضہ حاصل نہ ہو، اور ملک ختم نہ ہوئی ہو، اور وصولیابی کی امید نہ ہو، اس کی چند قسمیں ہیں:

(۱)۔ وہ مال جو گم ہو جائے اور کئی سال گم ہوجانے کے بعد مل جائے۔

(۲)۔ سمندر یا ایسے تالاب میں میں گر چکا کہ اس کا ملنا مشکل ہو پھر کئی سال بعد حاصل ہوجائے۔

(۳)۔ وہ مال جو بادشاہ نے ظلماً قبضہ کیا ہو اور اس پر گواہ موجود نہ ہو۔

(٤)۔ وہ قرضہ جس کا مدیون نے کئی سال تک انکار کیا ہو پھر بعد میں اس کا اقرار کرے بشرطیکہ جب انکار کیا تھا تو اس کے پاس گواہ موجود نہ تھے۔

(۵)۔ اور وہ مال جو کہ جنگل یا ایسی بیابان جگہ پر دفن کیا گیا ہو کہ وہاں سے ملنا مشکل ہو اور دفن کرنے والا جگہ بھول گیا ہو پھر وہ مال مل جائے، تو ان تمام صورتوں میں اس کے مالک پر گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ واجب نہ ہوگی، جب قبضہ ہوگا تب سے سال شروع ہوگا۔

 

( ۲ ) نصاب ضرورت اصلیہ سے زائد ہو استعمالی ساز و سامان پر زکوۃ واجب نہیں ہے، زکوۃ کا وجوب ان چیزوں پر ہوتاہے جو ضروریاتِ اصلیہ اور استعمال سے زائد ہوں اور وہ نامی ہو،  ذاتی استعمال کی گاڑی  یاکوئی بھی سواری، ذاتی رہائش کا ملکیتی گھر، گھر کا فرنیچر اور دیگر سامان  ضروریاتِ اصلیہ میں داخل ہیں، لہذا ان پر زکات  واجب نہیں ہے۔


( ۳ ) نصاب قرض سے خالی ہو یعنی قرض کی رقم کو الگ کرنے کے بعد نصاب مکمل ہوگا تو ہی زکوۃ واجب ہے، اگر کسی شخص کے پاس قابل زکوۃ اموال موجود ہوں اور جتنی مالیت موجود ہے اتنی ہی مقدار میں اس شخص پر قرض بھی ہے ، یا یہ مالیت کم ہے اور قرض زیادہ ہے تو اس شخص پر زکوۃ فرض نہیں ہے، اسی طرح اگر مقروض کے پاس اتنی مالیت ہے کہ قرض اداکرنے کے بعد بقیہ مال نصاب کو نہیں پہنچتا بلکہ نصاب سے کم ہے تو اس صورت میں بھی نصاب سے کم مالیت پر زکوۃ نہیں ہے، لیکن اگر کوئی شخص مقروض ہو اور قرض کی ادائیگی کے بعد بقیہ مال نصاب کو پہنچتا ہو اور سال گزرچکا ہو اس صورت میں ایسے شخص پر قرض منہا کرنے کے بعد بقیہ مال کی زکوۃ ادا کرنا لازم ہے۔


( ٤ ) مال نامی ہو ، 

زکوٰۃ صرف اس مال پر دی جائے گی جس کی افزائش یا نشو و نما ہوتی ہو یعنی وہ ایسا مال ہو کہ جس میں بڑھنے کی صلاحیت ہو اور عادۃً بڑھتا ہوں، خواہ حقیقتاً بڑھے یا حکماً جیسے سونا، چاندی، نقدی، مال تجارت اور مویشی، چونکہ سونا، چاندی اور نقدی کو شریعت نے تجارت کا ذریعہ قرار دیا ہے، خواہ اس کو زیور کی شکل میں بنا کر رکھے یا سونے چاندی کے ٹکڑے بنا کر رکھے، ہر حال میں وہ تجارت کا مال ہے، اسی لئے سونے چاندی پر خواہ وہ کسی صورت میں بھی ہوں، زکوۃ فرض ہوتی ہے، بشرطیکہ اس کی مالیت بقدر نصاب یا اس سے زیادہ ہو۔


اور جو اموال اس کے علاوہ ہو جیسے ذاتی مکان، دکان، برتن، کپڑے، جوتے، فرنیچر اور دیگر گھریلو سامان، فیکٹری کی مشینری اور جواھرات خواہ کتنی ہی قیمت کے ہوں، اگر تجارت کے لئے نہیں ہیں، تو ان پر زکوٰۃ فرض نہیں ہوگی، لیکن اگر ان میں سے کوئی ایک چیز بھی فروخت کرنے کی نیت سے خریدی گئی ہو، اور اس کی قیمت نصاب کے برابر یا اس سے زیادہ ہے، تو اس پر زکوٰۃ فرض ہوگی۔


کذا فی البدائع الصنائع:

منھا کون المال نامیا لان معنی الزکاۃ و ھو النماء لایحصل الامن المال النامی ولسنانعنی بہ حقیقۃ النماء لان ذلک غیر معتبر وانما نعنی بہ کون المال معدا للاستنماء بالتجارۃ ۔۔۔۔۔ والتجارۃ سبب لحصول الربح فیقام مقام المسبب ۔۔۔۔۔۔۔۔ والتجارۃ فی اموال التجارۃ الا ان الإعداد للتجارۃ في الأثمان المطلقۃ من الذہب والفضۃ ثابت بأصل الخلقۃ لأنہا لا تصلح للانتفاع بأعیانہا في دفع الحوائج الأصلیۃ فلا حاجۃ إلی الإعداد من العبد للتجارۃ بالنیۃ إذا النیۃ للتعیین وہي متعینۃ للتجارۃ بأصل الخلقۃ فلا حاجۃ إلی التعیین بالنیۃ فتجب الزکاۃ فیہا نوی التجارۃ أو لم ینو أصلاً أو نوی النفقۃ الخ۔ (بدائع الصنائع، کتاب الزکاۃ، فصل وأما الشرائط التي ترجع إلی المال، ٢/١١ ط: سعید)


فتاویٰ عالمگیری میں ہے۔

واما شروط وجوبھا ۔۔۔۔۔ ومنھا کون المال نصابا فلا تجب فی اقل منہ ھکذا فی العینی شرح الکنز… ومنھا الفراغ عن الدین قال  اصحابنا رحمھم اﷲ تعالیٰ کل دین لہ مطالب من جھۃ العباد یمنع وجوب الزکوۃ سواء کان الدین للعباد کالقرض وثمن البیع … او ﷲ تعالیٰ کدین الزکوۃ ۔۔۔۔۔۔ ومنها الملك التام وهو ما اجتمع فيه الملك واليد أمااذا وجد الملك دون اليـد ۔۔۔۔ لا تـجـب فيه الزكوة ...... ومنها فراغ المال عن الحاجة الاصليه ...... ومنها فراغ عن الدين ..... ومنها كون النصاب نامياً۔


ویشترط ان یتمکن من الاستنماء بکون المال فی یدہ أو یدنائبہ فان لم یتمکن من الاستنماء فلا زکاۃ علیہ وذلک مثل مال الضمار کذا فی التبیین وھو کل ما بقی اصلہ فی ملکہ ولکن زال عن یدہ زوالا لا یرجی عودہ فی الغالب کذا فی المحیط ومن مال الضمار الدین المجحود والمغصوب اذا لم یکن علیہما بینۃ فان کانت علیہما بینۃ وجبت الزکاۃ الا فی غصب السائمۃ فانہ لیس علی صاحبھا الزکاۃ وان کان الغاصب مقرا ومنہ المفقود والآبق والماخوذ مصادرۃ والساقط فی البحر والمدفون فی الصحراء المنسی مکانہ۔ (فتاویٰ عالمگیری ١٧٤ ۔ ۱۷۱/ ١)


مراقي الفلاح علی حاشیۃ الطحطاوي میں ہے۔

وإذا قبض مال الضمار لا تجب زکاۃ السنین الماضیۃ وہو کأبق ومفقود ومغصوب لیس علیہ بینۃ۔ (مراقي الفلاح علی حاشیۃ الطحطاوي، کتاب الزکاۃ، دارالکتاب دیوبند ص:۷۱۶)


فتاوی شامی میں ہے۔

(ولا فی مال مفقود) وجدہ بعد سنین (وساقط فی بحر) استخرجہ بعدھا (ومغصوب لا بینۃ علیہ) فلولہ بینۃ تجب لما مضی الافی غصب السائمۃ فلا تجب وإن کان الغاصب مقرّا کمافی الخانیۃ (ومدفون ببریۃ نسی مکانہ) ثم تذکرہ وکذا الودیعۃ عند غیر معارفہ بخلاف المدفون فی حرز۔ (ودین) کان (جحدہ المدیون سنین)و لابینۃ لہ علیہ (ثم) صارت لہ بأن (اقر بعدھا عند قوم) وقیدہ فی مصرف الخانیۃ بما اذا حلف علیہ عند القاضی أما قبلہ فتجب لما مضی (وما أخذ مصادرۃ) ای ظلما (ثم وصل الیہ بعد سنین) لعدم النمو۔ (فتاوی شامی ٣/١٨٢)


فتاوی شامی میں ہے۔

وليس في دور السكنى وثياب البدن وأثاث المنازل ودواب الركوب وعبيد الخدمة وسلاح الاستعمال زكاة؛ لأنها مشغولة بحاجته الأصلية وليست بنامية أيضاً۔ (فتاوی شامی ٣/١٩٢ ط: زکریا)


فتح القدير لكمال بن الهمام میں ہے۔

( ومن كان عليه دين يحيط بماله فلا زكاة عليه ) وقال الشافعي تجب لتحقق السبب وهو ملك نصاب تام ۔۔۔۔۔۔ ولنا أنه مشغول بحاجته الأصلية فاعتبر معدوما كالماء المستحق بالعطش وثياب البذلة والمهنة ( وإن كان ماله أكثر من دينه زكى الفاضل إذا بلغ نصابا ) لفراغه عن الحاجة الأصلية ، والمراد به دين له مطالب من جهة العباد حتى لا يمنع دين النذر والكفارة۔ (فتح القدير لكمال بن الهمام - ٣/٤٧٥) واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

میت کے نام پر مسجد میں پیسے دینا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٢٦٠

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام ذیل کے مسٔلے میں ہمارے یہاں جنازے کے دفن کرنے کے فوراً بعد کچھ پیسے مسجدوں کے لئے تقسیم کیے جاتے ہیں کیا یہ پیسے مسجدوں میں لگ سکتے ہیں یا نہیں؟

سائل: عبد الحفیظ چوہان جموں وکشمیر انڈیا


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


اہلِ سنت والجماعۃ کا موقف یہ ہے کہ جو لوگ اس دنیا سے رخصت ہو جاتے  ہیں  ان کے لیے آدمی اپنی نفلی عبادتوں خواہ وہ مالی ہوں یا بدنی، یا دونوں سے مرکب، ان کا ثواب دوسرے زندہ یا مردہ لوگوں کو بخش سکتا ہے، دعا بھی کی جا سکتی ہے  اور ان کو اعمال ہدیہ بھی کیے جا سکتے ہیں،خواہ پڑھ کربخشا جائے یا خیرات اور حسنات بخشے جائیں،  کوئی بھی نیک عمل کسی مسلمان (زندہ، مردہ) کو ایصالِ ثواب پہنچانے کی نیت سے کرنا جائز ہے اور اس کا ثواب اس مسلمان کو پہنچتا ہے، اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، بس شرط یہ ہے کہ یہ اعمال نفلی ہوں اور ان پر دنیا میں کوئی اجرت نہ لی گئی ہو۔


البتہ ایصالِ ثواب اسی طرح کریں جس طرح سلفِ صالحین کرتے تھے اپنی ہمت کے موافق حلال مال سے مساکین کی خفیہ مدد کریں اور جو کچھ اعمال میں سے توفیق ہو اس کو پہنچا دیں، زیادہ نہ ہو سکے تو تین مرتبہ قل ہو اللّٰہ ہی پڑھ کر بخش دیں، جس سے پورے قرآن مجید کا ثواب مل جائے گا۔


مسؤلہ صورت میں جنازے کی تدفین کے فوراً بعد کچھ پیسے مسجدوں کے لئے ضروری سمجھ کر یا رواج کے طور پر تقسیم کئے جاتے ہو تو یہ درست نہیں ہے، البتہ ثواب کی نیت سے ویسے ہی تقسیم کئے جائے اور وہ للہ رقم ہو اور میت کے مال میں سے نہ ہو تو تقسیم کرنا بھی درست ہے اور اس کا مسجد میں استعمال کرنا بھی درست ہے۔


مشكاة المصابيح میں ہے۔

وعن سعد بن عبادة قال: يا رسول الله إن أم سعد ماتت، فأي الصدقة أفضل؟ قال: «الماء» . فحفر بئراً وقال: هذه لأم سعد. رواه أبو داود والنسائي۔ (مشكاة المصابيح ١/٥٩٧)


سنن أبي داود میں ہے۔

عن أسيد بن علي بن عبيد، مولى بني ساعدة عن أبيه، عن أبي أسيد مالك بن ربيعة الساعدي، قال: بينا نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذ جاء ه رجل من بني سلمة، فقال: يا رسول الله، هل بقي من بر أبوي شيء أبرهما به بعد موتهما؟ قال: «نعم الصلاة عليهما، والاستغفار لهما، وإنفاذ عهدهما من بعدهما، وصلة الرحم التي لا توصل إلا بهما، وإكرام صديقهما۔ (سنن أبي داود ٤/٣٣٦)


إعلاء السنن میں ہے۔

عن علي رضي اللّٰه عنه مرفوعاً: من مر علی مقابر، وقرأ: {قل هو اللّٰه أحد} إحدی عشرة مرة، ثم وهب أجره للأموات، أعطی من الأجر بعدد الأموات۔

وفیه أیضاً

عن أبي هریرة رضي اللّٰه عنه قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: من دخل المقابر، ثم قرأ فاتحة الکتاب، و قل هواللّٰه أحد، وألهکم التکاثر، ثم قال: اللّٰهم إني قد جعلت ثواب ما قرأت من کلامک لأهل المقابر من المؤمنین والمؤمنات کانوا شفعاء له إلی اللّٰه تعالی‘‘. (إعلاء السنن ٣٣١ ٣٣٠ /٨  رقم ۲۳۲٠ ۔۔ ۲۳۲۱)


فتاوی شامی میں ہے۔

صرح علماؤنا في باب الحج عن الغیر بأنّ للإنسان أن یجعل ثواب عمله لغیره صلاةً أو صومًا أو صدقةً أو غیرها، كذا في الهدایة. بل في زكاة التتارخانیة عن المحیط: الأفضل لمن یتصدّق نفلًا أن ینوي لجمیع المؤمنین و المؤمنات؛ لأنّها تصل إلیهم، ولاینقص من أجره شيءٍ اه هو مذهب أهل السنة والجماعة۔ (حاشية رد المحتار على الدر المختار مطلب في القراءة للمیت واھداء ثوابھا لہ ٣/١٥٠)


فتاوی شامی میں ہے۔

(قوله: بعبادة ما ) أي سواء كانت صلاةً أو صوماً أو صدقةً أو قراءةً أو ذكراً أو طوافاً أو حجاً أو عمرةً أو غير ذلك من زيارة قبور الأنبياء عليهم الصلاة والسلام والشهداء والأولياء والصالحين وتكفين الموتى وجميع أنواع البر، كما في الهندية ط. وقدمنا في الزكاة عن التاترخانية عن المحيط: الأفضل لمن يتصدق نفلاً أن ينوي لجميع المؤمنين والمؤمنات؛ لأنها تصل إليهم ولاينقص من أجره شيء۔ (حاشية رد المحتار على الدر المختار مطلب في إهداء ثواب الأعمال للغير  ٤/١٠)


فتاوی عالمگیری میں ہے۔

الأصل فی ہذا الباب أن الإنسان لہ أن یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلاۃ، أو صوما، أو صدقۃ، أو غیرہا عند أہل السنۃ والجماعۃ۔ (فتاوی عالمگیری کتاب المناسک، الباب الرابع عشر فی الحج عن الغیر، ١/٢۵٧ رشیدیہ)


فتح الباری میں ہے۔

وقال ابن حجر: والمراد بہا ما أحدث ولیس لہ أصل فی الشرع ، ویسمی فی عرف الشرع “ بدعة ” وما کان لہ أصل یدل علیہ الشرع فلیس ببدعة فالبدعة فی عرف الشرع مذمومة بخلاف اللغة فإن کل شيء أحدث علی غیر مثالٍ یسمی بدعة سواء کان محموداً أو مذموماً۔ (فتح الباری ۳۱۵/۱۳، باب الاقتداء بسنن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اشرفیہ دیوبند) واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

نماز میں درمیان سے آیت چھوٹ جائے، اور مقتدی کا لقمہ دینے کا حکم سوال نمبر ٢۵٩

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب میں جس مسجد میں نماز پڑھتاہو اس مسجد کے امام صاحب ہفتہ میں دو تین مرتبہ فجر کی نماز میں بھول کر قرات کے درمیان دو تین آیتیں چھوڑ چھوڑ کر آگے سے پڑھلیتے ہیں ایسی غلطیاں باربار کرتے رہتےہیں اور وہ محنت بھی کرتے رہتےہیں تو کیا ایسے امام کو رکھنا چاہیے یا ایسے امام کے پیچھے نماز درست ہے اور وہ یہ بھ کہتے ہیں کہ چھوٹی ہوئی آیت کا لقمہ مت دو اس سے نماز میں خلل واقع ہوتا ہے اور گباھٹ سے مزید غلظیاں جاتی ہے تو کیا مقتدیوں کو لقمہ نہیں دینا چاہیے، تفصیل سے جواب عنایت فرمائیں بڑی نوازش ہوگی

سائل: زبیر احمدآباد


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


تلفظ کی تبدیلی یا الفاظ کی کمی بیشی یا آیت کو آگے پیچھے کرنے کی وجہ سے معنیٰ تبدیل نہ ہو یا معنیٰ تو تبدیل ہو لیکن تغیر فاحش نہ ہو  تو  اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی،

اگر اس طرح سے پڑھے کہ جس سے ایسے معنی پیدا ہوجائیں، جن کا اعتقاد کفر ہوتا ہے، تو نماز فاسد ہو جائے گی، اور اگر ایسا معنی پیدا نہ ہو جن کا اعتقاد کفر ہوتا ہے، تو نماز فاسد نہیں ہوتی، اور عام طور پر آیت وغیرہ چھوٹنے سے ایسے معنی پیدا نہیں ہوتے کہ جن کا اعتقاد کفر ہو، لہذا نمز درست ہوجائے گی۔


مقتدی کا لقمہ دینا

فرض نماز میں امام مقتدی کو لقمہ دینے پر مجبور نہ کریں اور مقتدی بھی امام کو لقمہ دینے میں عجلت سے کام نہ لیں یعنی اگر امام سے قرات میں ایسی غلطی نہ ہورہی ہو جس سے نماز ہی فاسد ہو جائے، یا امام قرات کرتے وقت بھول کی وجہ سے رک جائے تو مقتدی کو فوراً لقمہ دینا مکروہ ہے، لیکن اگر امام نماز میں قرأة کے اندر غلطی کرے تو مقتدی اس کو لقمہ دے سکتا ہے اور اسے امام لے سکتا ہے، مقتدی نے لقمہ دیدیا اور امام نے لقمہ قبول کرلیا تو نماز ہو جائے گی۔


فتاوی بنوریہ فتوی نمبر : ١٤٣٩٠٩٢٠١٨١١ میں لکھاہے کہ یہ بات ملحوظ رہے کہ مقتدی کے لیے امام کو لقمہ دینے (غلطی بتانے)  میں جلدی کرنا مکروہ ہے ، اسی طرح امام کے لیے مقتدی کی راہ نمائی اور لقمہ کا انتظار کرنا بھی مکروہ ہے، ایسی صورت میں امام کو چاہیے کہ وہ کسی اور سورت سے ضروری قراءت کر لے، یا کوئی اور سورت پڑھ لے، یا اگر واجب قراءت کی مقدار پڑھ لی ہو تو رکوع کرلے۔ اسی طرح مقتدیوں کو بھی چاہیے کہ  جب تک لقمہ دینے کی شدید ضرورت نہ ہو ، امام کو لقمہ نہ دیا کریں، اور شدید ضرورت سے مراد یہ ہے کہ  مثلاً امام غلط پڑھ کر آگے بڑھنا چاہتا ہے یا رکوع بھی نہیں کررہا اور خاموش کھڑا ہے تو اس صورت میں لقمہ دے دیا کریں۔


الفتاوى الهندية میں ہے۔

والصحيح أن ينوي الفتح على إمامه دون القراءة، قالوا: هذا إذا أرتج عليه قبل أن يقرأ قدر ما تجوز به الصلاة، أو بعدما قرأ ولم يتحول إلى آية أخرى، وأما إذا قرأ أو تحول ففتح عليه تفسد صلاة الفاتح، والصحيح أنها لا تفسد صلاة الفاتح بكل حال ولا صلاة الإمام لو أخذ منه على الصحيح. هكذا في الكافي.


ويكره للمقتدي أن يفتح على إمامه من ساعته ؛ لجواز أن يتذكر من ساعته فيصير قارئاً خلف الإمام من غير حاجة. كذا في محيط السرخسي. ولا ينبغي للإمام أن يلجئهم إلى الفتح ؛ لأنه يلجئهم إلى القراءة خلفه وإنه مكروه، بل يركع إن قرأ قدر ما تجوز به الصلاة، وإلا ينتقل إلى آية أخرى. كذا في الكافي. وتفسير الإلجاء: أن يردد الآية أو يقف ساكتاً. كذا في النهاية۔ (الفتاوى الهندية ١/٩٩)


فتاوی شامی میں ہے۔

يكره أن يفتح من ساعته كما يكره للإمام أن يلجئه إليه، بل ينتقل إلى آية أخرى لا يلزم من وصلها ما يفسد الصلاة أو إلى سورة أخرى أو يركع إذا قرأ قدر الفرض كما جزم به الزيلعي وغيره وفي رواية قدر المستحب كما رجحه الكمال بأنه الظاهر من الدليل، وأقره في البحر والنهر، ونازعه في شرح المنية ورجح قدر الواجب لشدة تأكده. (رد المحتار ٣/٨٢)


المحيط البرهاني میں ہے۔

ولا ينبغي للمقتدي أن يفتح على الإمام من ساعته؛ لأنه ربما يتذكر الإنسان من ساعته فتكون قراءته خلفه قراءة من غير حاجة۔ (المحيط البرهاني ١/٣٨٩)


البحر الرائق میں ہے۔

قالوا يكره للمقتدي أن يفتح على إمامه من ساعته وكذا يكره للإمام أن يلجئهم إليه بأن يقف ساكتا بعد الحصر أو يكرر الآية بل يركع إذا جاء أوانه أو ينتقل إلى آية أخرى لم يلزم من وصلها ما يفسد الصلاة أو ينتقل إلى سورة أخرى (البحر الرائق: ٢/٦)


إمداد المفتین میں ہے۔

قال في شرح المنیة الکبیر القاعدة عند المتقدمین أن ما غیره تغیراً یکون اعتقاده کفراً تفسد في جمیع ذلک سواء کان في القرآن أو لم یکن إلا ما کان من تبدیل الجمل مفصولاً بوقف تام، ثم قال بعد ذلک: فالأولی الأخذ بقول المتقدمین۔ (إمداد المفتین، ص ۳۰۳)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

اتوار، 27 مارچ، 2022

روزوں کے نیتوں کی ترتیب اور اس کا شرعی حکم سوال نمبر ٢۵٨

 سوال

نیت کسے کہتے ہیں اور نیت کا مقصد کیا ہے؟ کیا زبان سے نیت کرنا ضروری ہیں ؟ روزوں کی نیت کب تک کرنا درست ہے؟


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


کسی بھی شئی کے قصد اور دلی ارادے کونیت کہتے ہیں ۔ ( معجم الرائد )اور شرعی اعتبار سے نیکی کے کام کو وجود میں لانے کے لیے اللہ تعالی کے تقرّب اور اطاعت کی نیت کرنا۔


شرعاً نیت کرنے سے مقصود دو چیزیں ہیں

(۱)  عبادات اور عادات کو ایک دوسرے سے الگ کرنا، (مثلاً: بھوکا رہنا کبھی محض طبعی خواہش یا کام کاج کے لئے یا علاج کے لئے ہوتا ہے اور یہی بھوکا رہنا جب روزے کی نیت سے ہو تو عبادت بن جاتا ہے


(۲)  عبادات میں فرق کرنا یعنی یہ کونسی عبادت کو ابھی سر انجام دے رہا ہے اس کا استحضار پیدا ہوجائے۔ مثلاً نماز ہے یا روزہ ہے یا کوئی اور عبادت ہے جس کو وہ انجام دے رہا ہے اور روزہ ہے تو کونسا روزہ ہے فرض ہے یا نفل اس لئے کہ روزہ فرض ہو یا نفل دونوں کی صورت تو ایک جیسی ہی ہے صبح سے غروب آفتاب تک عبادت کی نیت سے روزہ توڑنے والی چیزوں سے اپنے آپ کو دور رکھنا اب جب یہ دونوں ایک ہی جیسی عبادت ہیں تو ان دونوں کی فرض اور نفل میں تخصیص کیسے ہو تواس کے لئے نیت ہے اس لئے کہ نیت الگ الگ ہونے سے یہ الگ الگ عبادتیں قرار پاتی ہیں۔


نیت کا زبان سے تلفظ کرنا

نیت اس حد تک کافی ہے کہ اس کو اس بات کا استحضار ہو کہ یہ رمضان کا روزہ ہے یا پھر کوئی اور روزہ ہے بلکہ روزے کے ارادے سے سحری کے لئے بیدار ہونا یہی نیت کے لئے کافی ہو جاۓ گا ، زبان سے نیت کا تلفظ ضروری نہیں ہے، لیکن دل کے ساتھ زبان سے کہہ لینے میں استحضار زیادہ ہوتا ہے اس لیے مزید استحضار کے لیے زبان سے بھی نیت کرلینا بہتر ہے


کونسے روزوں کی نیت کب کریں؟

روزوں کی دو قسمیں ہیں ایک وہ روزے جس کی ایام کے اعتبار سے تعیین ہو یعنی جو ایام کے اعتبار سے خاص اور متعین ہے 

مثلاً رمضان کے ادا روزے اس کے لئے رمضان المبارک کا مہینہ خاص متعین ہے 

اور دوسرے نمبر پر نذر معین یعنی کسی دن یا تاریخ کو روزے کے لئے متعین کرکے نذر ماننا وہ دن اس کے لئے خاص ہے

اور ان دو روزوں کے علاوہ باقی سارے ایام نفلی روزوں کے لئے خاص ہے (الا یہ کہ کسی اور روزے کی نیت کی جائے تو وہ اس کے مطابق روزہ ہوگا) 

ان تینوں روزں کی نیت غروب آفتاب سے لے کر نصف النہار شرعی تک کر سکتے ہیں۔


نصف النہار شرعی

نصف النہار شرعی یہ ہے کہ صبح صادق سے غروب آفتاب تک جتنے گھنٹے اور منٹ ہوتے ہیں، انھیں دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے، اس کا پہلا حصہ نصف النہار شرعی ہوگا اور اس سے پہلے پہلے نیت کی اجازت ہوگی، مثلاً گودھرا میں آج کی تاریخ میں صبح صادق (۵ بج کر ١٧) منٹ پر ہے اور غروب آفتاب (٦ بج کر ۵٠) منٹ پر ہے، دونوں کے درمیان کل ١٢/ گھنٹے اور ٣٢/ منٹ ہوتے ہیں، اس کا آدھا ٦ گھنٹے اور ١٦ منٹ ہے تو اس اعتبار سے آج کی تاریخ میں گودھرا کے اندر نصف النہار شرعی ۳۳: ۱۱ ہے لہذا اس سے پہلے پہلے روزہ کی نیت کرلی گئی تو وہ معتبر ہوگی اور روزہ ہوجائے گا، اور گودھرا میں اس کے بعد ان تینوں قسم کے روزوں کی نیت کا اعتبار نہیں ہوگا، اس طرح سے سبھی حضرات اپنے اپنے شہروں کے نصف النہار شرعی کا حساب کرسکتے ہیں۔


اور دوسری قسم کے وہ روزے ہیں جس کی ایام و تاریخ کے اعتبار سے تعیین نہ ہو یعنی جو ایام کے اعتبار سے خاص اور متعین نہ ہو۔

مثلاً رمضان کے قضاء روزے، نظر غیر معین، اور کفاروں کے روزے چوں کہ ان کا وقت متعین نہیں ہوتا اس لئے اس کی تعیین روزہ شروع کرنے سے پہلے ضروری ہے لہذا ان کی نیت صبح صادق سے پہلے کرنا ضروری ہے، صبح صادق ہوجائے تو اب ن روزوں کی نیت درست نہیں ہوگی۔


فتاوی شامی میں ہے۔

(فيصح) أداء (صوم رمضان والنذر المعين والنفل بنية من الليل) فلا تصح قبل الغروب ولا عنده (إلى الضحوة الكبرى لا) بعدها ولا (عندها) اعتبارا لأكثر اليوم۔۔۔۔۔۔(والشرط للباقي) من الصيام قران النية للفجر ولو حكما وهو (تبييت النية) للضرورة (وتعيينها) لعدم تعين الوقت ۔۔۔۔۔۔۔۔ تحتہ فی الشامیہ قولہ ( فلا تصح قبل الغروب ) فلو نوى قبل أن تغيب الشمس أن يكون صائماً غداً ثم نام أو أغمي عليه أو غفل حتى زالت الشمس من الغد لم يجز ، وإن نوى بعد غروب الشمس جاز . خانية . وفيها : وإن نوى مع طلوع الفجر جاز ، لأن الواجب قرآن النية بالصوم لا تقدمها . قوله : ( إلى الضحوة الكبرى ) المراد بها نصف النهار الشرعي ، والنهار الشرعي من استطارة الضوء في أفق المشرق إلى غروب الشمس ، والغاية غير داخلة في المغيا كما أشار إليه المصنف بقوله  لا عندها  اهـ ح . وعدل عن تعبير القدوري والمجمع وغيرهما بالزوال لضعفه ، لأن الزوال نصف النهار من طلوع الشمس ، ووقت الصوم من طلوع الفجر كما في البحر عن المبسوط . قال في الهداية وفي الجامع الصغير : قبل نصف النهار ، وهو الأصح لأنه لا بد من وجود النية في أكثر النهار ، ونصفه من وقت طلوع الفجر إلى وقت الضحوة الكبرى لا وقت الزوال ، فتشترط النية قبلها لتتحقق في الأكثر۔۔۔۔

ایضاً

( لعدم تعين الوقت ) أي لهذه الصيامات، بخلاف أداء رمضان والنذر المعين فإن الوقت فيهما متعين، وكذا النفل لأن جميع الأيام سوى شهر رمضان وقت له . قوله۔۔۔

ایضاً

( والشـرط فيهـا أن يـعـلـم بقلبه أي صوم يصومه قال الحدادي والسنة أن يتلفظ بها ۔۔۔۔ تحتہ فی الشامیہ قولہ ( والشرط فيها إلخ ) أي في النية المعينة لا مطلقاً ، لأن ما لا يشترط له التعيين يكفيه أن يعلم بقلبه أن يصوم فلا منافاة بين ما هنا وما قدمناه عن الاختيار . وأفادح : أن العلم لازم للنية التي هي نوع من الإرادة ، إذ لا يمكن إرادة شيء إلا بعد العلم به . قوله : ( والسنة ) أي سنة المشايخ ، لا النبي ﷺ لعدم ورود النطق بها عنه ح . قوله : ( أن يتلفظ بها ) فيقول : نويت أصوم غدا أو هذا اليوم إن نوى نهاراً الله عز وجل من فرض رمضان . سراج۔ (فتاوی شامی ٣/ ۳۳۸ - ۳٤۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، ..... اسی طرح الخلاصة الفقهيه على مذهب السـادة الـحنفيـه جلد ١ اور صفحہ ٤٨٢ پر ہے۔


النھر الفائق میں ہے۔

هو ترك الأكل والشرب والجماع من الصبح إلى الغروب بنية من أهله وصح صوم رمضان، وھو فرض قطعی والنذر المعین والنفل بنية من الليل إلى ما قبل نصف النهار، وبمطلق النية ، ونية النفل وما بقي لم يجز إلا بنية معينة مبيتة۔


وهو الأصح ( وما بقي ) وهو قضاء رمضان والنذر المطلق وقضاء النذر المعين بعد إفساده والكفارات السبع وما ألحق بها من جزاء الصيد والحلق والمتعة ( لم يجز إلا بنية معينة ) لأن الشارع لم يعين له وقتاً فلزمه التعيين ( مبيتة ) فلا يجوز بنية نهارية والقياس يقتضي اشتراط مقارنتها للشروع كالصلاة إلا أنا جوزناه بنية متقدمة ضرورة كذا في « الذخيرة » وعرف أن حصر الجواز في التبييت فيه مؤاخذة ظاهرة وجعل في « البحر » القرآن في حكم التبييت وأنت خبير بأن الأنسب فيه مؤاخذة عكسه إذ القرآن هو الأصل وفي التبييت قرآن حكماً۔ (النھر الفائق ٣/ ٦سے٩ تک)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

قبرستان کے درختوں اور گھاس کو کاٹنے کا شرعی حکم سوال نمبر ٢۵٧

 سوال

قبرستان پر جو لکڑی چھوٹے چھوٹے درخت یا جھاڑیاں ہوتی ہیں انکو کاٹ سکتے ہیں یا نہیں اگر کاٹ سکتے ہیں تو کیا انکو بیچ سکتے ہیں یا نہیں اگر بیچ سکتے ہیں تو انکی آمدنی کو کدھر استعمال کرسکتے ہیں؟ امید ہے مدلل جواب دینگے

سائل: عبد الحفیظ چوہان جموں وکشمیر انڈیا


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


قبرستان کی ہری گھاس اور ہرے درخت کاٹنے سے علماء نے منع فرمایا ہے، کیونکہ وہ اللہ تعالی کی حمد و ثناء بیان کرتیں ہے، جس سے اللہ تعالی کی رحمت نازل ہوتی ہے اور مردوں کو اس سے فائدہ حاصل ہوتا ہے، لہذا اگر ان کو کاٹ دیا جائے گا، تو مردے اس فائدے سے محروم رہیں گے، لیکن اگر قبرستان کی صفائی کی ضرورت ہو تو صفائی کے خاطر اس کو کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اسی طرح اگر ضرورت ہو تو ہری بھری گھاس یا درخت بھی کاٹے جاسکتے ہیں البتہ نئے قبروں کی رعایت کرتے ہوئے پھاوڑا یا کدال وغیرہ چلائی جائے۔


کتاب النوازل میں حضرت مفتی سلمان صاحب منصورپوری ایک سوال کے جواب میں رقم طراز ہیں کہ: فقہاء نے قبرستان سے تر گھاس کاٹنے کی کراہت یا علت یہ لکھی ہے: لأنہ ما دام رطبًا یسبح اللّٰہ فیونس المیت۔ (مراقي الفلاح / فصل في زیارۃ القبور ۳۴۲ کراچی)

اِس علت سے معلوم ہوتا ہے کہ کراہت اس صورت میں ہے جب کہ قبر کے اوپر کی اور قبر کے قریب کی گھاس کاٹی جائے؛ کیوںکہ یہی گھاس میت کے لئے انس کا موجب ہوتی ہے، اِس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ ایسا قبرستان جو موقوفہ تو ہو؛ لیکن اُن میں قبریں نہ ہوں، یا اُس کا کوئی حصہ قبروں سے بالکل خالی ہو، تو اُس خالی جگہ کی گھاس کاٹنے میں میت کی قطع استیناس کی علت نہیں پائی جاتی؛ لہٰذا وہ جائز ہونا چاہئے، اِس وضاحت سے یہ معلوم ہوگیا کہ شامی کی عبارت: ’’یکرہ أیضًا قطع النبات الرطب والحشیش من المقبرۃ دون الیابس‘‘ سے ایسا مقبرہ مراد ہے جس میں قبریں قریب قریب ہوں، نفسِ موقوفہ قبرستان مراد نہیں ہے، اِسی وجہ سے فقہ کی دیگر کتابوں میں مقبرہ کے بجائے قبور کا لفظ آیا ہے۔ 

یکرہ أیضًا قطع النبات الرطب والحشیش من المقبرۃ دون الیابس۔ (شامي، کتاب الصلاۃ / باب صلاۃ الجنائز، مطلب في وضع الجرید ونحو الآس علی القبور ۲؍۲۴۵ کراچی، وکذا في الفتاویٰ التاتارخانیۃ، کتاب الصلاۃ / باب الجنائز، القبر والدفن ۲؍۱۷۳ إدارۃ القرآن کراچی، ۳؍۷۶ رقم: ۳۷۵۱ زکریا)


وکرہ قلع الحشیش الرطب وکذا الشجر من المقبرۃ؛ لأنہ ما دام رطبًا یسبِّح اللّٰہ تعالیٰ فیؤنس المیت وتنزل بذکر اللّٰہ تعالیٰ الرحمۃ، ولا بأس بقلع الیابس منہا أي الحشیش والشجر لزوال المقصود۔ (مراقي الفلاح / فصل في زیارۃ القبور ۳۴۲ کراچی)


قبر کے اوپر یا قریب لگے ہوئے درخت کو کاٹنا بھی عباراتِ فقہیہ میں مکروہ لکھا ہے، ہاں اگر قبرستان کی خالی جگہ میں ایسا درخت ہو تو اُس کے کاٹنے میں کوئی حرج نہ ہوگا، نیز اگر قبرستان کے فائدہ کے لئے اور کسی وجہ سے قبر پر لگے ہوئے درخت کے کاٹنے کی ضرورت ہو تو اِس کی بھی گنجائش دی گئی ہے، مگر بلاضرورت ایسا نہ کیا جائے۔یکرہ قطع ما نبت علی القبور ما دام رطبًا۔ (سراجیۃ ۷۲، نصاب الاحتساب ۸۶ بحوالہ: فتاویٰ رحیمیہ ۵؍۱۰۶، ۷؍۱۲۵ دار الاشاعت کراچی)  ( مستفاد کتاب النوازل ١٤/٢٩٨)


فتاوی عالمگیری میں درختوں کے سلسلہ میں اس طرح سے وضاحت کی ہے کہ قبرستان میں جو درخت ہے اس کی دو صورتیں ہے ایک تو یہ کہ یہ درخت اس زمین پر پہلے سے اگے ہوئے ہیں اور پھر اس زمین کو قبرستان کے لئے وقف کردیا گیا۔

اس کی بھی دو صورتیں ہیں

ایک یہ کہ وہ زمیں اس کی اپنی مملوکہ ہے دوسرے وہ بنجر زمین تھی جس کو محلے والوں نے قبرستان کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا ہو۔

اس صورت میں درخت مالک زمین  کے ہوں گے اور دوسری صورت میں وہ مباح الاصل ہوں گے۔

دوسرے یہ کہ پہلے اس زمین کو قبرستان کے لئے وقف کردیا گیا بعد میں درخت اگے ہیں۔

اس کی بھی دوصورتیں ہے

ایک درختوں کے اگانے والے کا علم ہوگا کہ یہ کس نے اگائے ہیں یا اگانے والے کا علم نہیں ہوگا۔ اگر علم ہے تو وہ اسی کے ہوں گے اور اگر علم نہیں ہے تو قاضی کی ثواب دید پر ہوگا اگر وہ مناسب سمجھیں تو اس کو کٹوادیں اور اس کی آمدنی قبرستان کی مرمت میں استعمال کریں۔


اب اس کاٹے ہوئے درختوں اور گھاس کو کیا کیا جائے تو اس سلسلہ میں فتاوی دارالعلوم دیوبند میں یہ مرقوم ہے کہ: قبرستان کے درختوں کو فروخت کرکے ان کی قیمت قبرستان کی چہاردیواری اور صفائی وغیرہ میں استعمال کی جائے گی، اگر ان میں صرف کرنے کی ضرورت نہ ہو تو ضرورت مند اموات کی تجہیز وتکفین اسی طرح دیگر اور خیر مثلاً مسجد، مدرسہ کی تعمیر ومرمت وغیرہ میں استعمال کی جاسکتی ہے۔ (مستفاد از فتاوی دارالعلوم: ۱۴/۱۸۲، ۱۸۳، وغیرہ، ط: مکتبہ دارالعلوم، دیوبند)


مسئولہ صورت میں قبروں کو چھوڑ کر قبروں کے ارد گرد کی خراب ہونے والی لکڑی چھوٹے چھوٹے درخت یا جھاڑیاں اور گھاس کو صفائی یا راستہ بنانے کی خاطر کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اگر قبروں کے اوپر کی گھاس یا چھوٹے چھوٹے درخت اصلاح اور درستگی کے لئے کاٹیں جائے، تو اس کی بھی گنجائش نکل سکتی ہے، باقی اگر قبرستان کی ہری گھاس خشک ہوجائے، یا درخت خوشک ہوکر خراب ہو جائے تو اس کے کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

البتہ ان کی قیمت قبرستان کی چہاردیواری اور صفائی وغیرہ میں استعمال کی جائے گی، اگر ان میں صرف کرنے کی ضرورت نہ ہو تو ضرورت مند اموات کی تجہیز وتکفین اسی طرح دیگر اور خیر مثلاً مسجد، مدرسہ کی تعمیر ومرمت وغیرہ میں استعمال کی جاسکتی ہے۔


فتاوی شامی میں ہے۔

يكره أيضا قطع النبات الرطب والحشيش من المقبرة دون اليابس كما في البحر والدرر وشرح المنية وعلله في الإمداد بأنه ما دام رطبا يسبح الله - تعالى - فيؤنس الميت وتنزل بذكره الرحمة اه ونحوه في الخانية۔ (فتاوی شامی ٣/١۵۵)


فتاوى هنديہ میں ہے۔

مقبرة عليها أشجار عظيمة فهذا على وجهين : إما إن كانت الأشجار نابتة قبل اتخاذ الأرض أو نبتت بعد اتخاذ الأرض مقبرة .ففي الوجه الأول المسألة على قسمين : إما إن كانت الأرض مملوكة لها مالك ، أو كانت مواتا لا مالك لها واتخذها أهل القرية مقبرة ، ففي القسم الأول الأشجار بأصلها على ملك رب الأرض يصنع بالأشجار وأصلها ما شاء ، وفي القسم الثاني الأشجار بأصلها على حالها القديم . وفي الوجه الثاني المسألة على قسمين : إما إن علم لها غارس أو لم يعلم ، ففي القسم الأول كانت للغارس ، وفي القسم الثاني الحكم في ذلك إلى القاضي إن رأى بيعها وصرف ثمنها إلى عمارة المقبرة فله ذلك ، كذا في الواقعات الحسامية۔ (فتاوى هنديہ  کتاب الوقف باب الرباطات والمقابر ٢/٤٣۵)


فتاوی خانیہ علی الہندیہ میں ہے۔

 وإن نبتت الأشجار فیہا بعد اتخاذ الأرض مقبرة، فإن علم غارسہا کانت للغارس، وإن لم یعلم الغارس فالرأی فیہا للقاضی أن یبیع الأشجار، ویصرف ثمنہا إلی عمارة المقبرة فلہ ذلک، ویکون فی الحکم کأنہا وقف۔ (خانیة علی الہندیة ۳۱۱/۳)


مراقی الفلاح میں ہے۔

وکرہ قلع الحشیش الرطب وکذا الشجر من المقبرة؛ لأنہ ما دام رطبًا یسبِّح اللّٰہ تعالیٰ فیونس المیت وتنزل بذکر اللّٰہ تعالیٰ الرحمة، ولا بأس بقلع الیابس منہا أی الحشیش والشجر لزوال المقصود۔ (مراقی الفلاح / فصل فی زیارة القبور ۳٤۲کراچی)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

ہفتہ، 26 مارچ، 2022

مال نصاب پر کس طرح اور کیسے زکوۃ کا حکم ہوگا؟ سوال نمبر ٢۵٦

 سوال

زکوۃ ساڑے سات تولہ سونے پر ہے اگر ساڑے سات تولہ سے آدھ تولہ بھی اوپر ہو تو کیا زکوٰۃ پورے آٹھ تولہ کی نکالنی پڑے گی یا صرف اسکی جو نصاب سے زیادہ ہو؟ اسی طرح درمیان سال میں جو مال حاصل ہو اس کی زکوۃ کا کیا حکم ہے؟ اور اگر ساڑے سات تولہ سونے سے کم ہو تو اس پر زکوۃ آئے گی یا نہیں؟ اور ایک سے زائد مال نصاب ہونے کی صورت میں چاندی کے نصاب کو معیار کیون بنایا گیا ہے؟ اور مال مستفاد کے زکوۃ کا کیا حکم ہے؟

سائل: عبد الحفیظ چوہان جموں وکشمیر انڈیا



الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


سب سے پہلے یہ بات سمجھئے کہ وجوب زکوۃ کا معیار نصاب ہے لہذا جس کے پاس نصاب زکوۃ ہے تو اس پر زکوۃ واجب ہوگی اور جب نصاب ثابت ہوگیا تو اب اس کے پاس جتنی بھی رقم زائد ہوگی ان سب کو اصل نصاب سے ملا کر زکوۃ نکالنا ضروری ہوگا اب اگر کسی کے پاس صرف سونا ہے اس کے علاوہ کوئی اور مال نہیں ہے (چاندی، نقد رقم اور مالِ تجارت میں سے) تو سونے کی زکاۃ کا نصاب ساڑھے سات تولہ یعنی (۸۷/٤٨ 87.48 گرام) سے کم ہے تو  اس میں زکوۃ واجب نہیں ہے۔


لیکن اگر سونے کے ساتھ  کوئی اور قابلِ زکوۃ مال موجود ہو، تو پھر صرف سونے کے نصاب کا اعتبار نہیں کیا جائے گا، بلکہ ایسی صورت میں چاندی کے نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی) کی قیمت کا اعتبار کیا جائے گا، لہٰذا اگر سونے اور دوسرے قابلِ زکوۃ مال کو ملا کر مجموعی قیمت ساڑے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہوجائے تو اس پر زکاۃ واجب ہوجائے گی۔


اور ایک سے زیادہ مال جمع ہونے کی صورت میں چاندی کے نصاب کا اعتبار اس لیے کیا گیا کہ زکاۃ کے وجوب میں فقراء کی حاجت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، جس میں فقراء کا فائدہ ہو فقہاء کرام نے اس کو اختیار کیا ہے، اور موجودہ دور میں چاندی کا نصاب کم ہے، لہٰذا زکاۃ واجب ہونے کی صورت میں فقراء کا فائدہ ہوگا۔


اور نصاب سے زائد ہونے کی صورت میں زائد رقم پر بھی زکوۃ لازم ہوگی اس پر الگ سے سال کا گزرنا ضروری نہیں ہے اسی طرح مال مستفاد یعنی درمیان سال میں جو مال حاصل ہوا ہے اس کو بھی اسی نصاب سے ملا کر زکوۃ لازم ہوگی لہذا مز کی ( زکوۃ دینے والا اپنی زکوۃ دینے کی تاریخ اور مہینہ متعین کر لے اسکے بعد سال کے درمیان جتنا بھی مال حاصل ہوتا رہے سونا چاندی یا نقد رقم سے یا مال تجارت سے ان سب کو ملا کر زکوۃ اپنی متعینہ تاریخ میں نکالے گا ۔ 


الموسوعة الفقهية الكويتية میں ہے۔

ذهب الجمهور ( الحنفية والمالكية وهو رواية عن أحمد وقول الثوري والأوزاعي ) إلى أن الذهب والفضة يضم أحدهما إلى الآخر في تكميل النصاب ، فلو كان عنده خمسة عشر مثقالا من الذهب ، ومائة وخمسون درهما ، فعليه الزكاة فيهما ، وكذا إن كان عنده من أحدهما نصاب ۔۔۔۔۔۔ ومن الآخر مالا يبلغ النصاب يزكيان جميعا ، واستدلوا بأن نفعهما متحد ، من حيث إنهما ثمنان ….. أما العروض فتضم قيمتها إلى الذهب أو الفضة ويكمل بها نصاب كل منهما . قال ابن قدامة : لا نعلم في ذلك خلافا . وفي هذا المعنى العملة النقدية المتداولة۔ (الموسوعة الفقهية الكويتية ٢٣/٢٦٧)


فتاوی عالمگیری میں ہے۔

عالمگیری میں ہے ومن كان له نصاب فاستفاد في اثناء الحول مالا من جنسه ضمه الى ماله وزكـاه المستفاد من نمائه اولا وبأى وجه استفاد ضمہ۔ (فتاوی عالمگیری ١/١٧٥)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا