بدھ، 16 مارچ، 2022

اٹھارہ ہزار مخلوقات کے بارے میں روایات کی روشنی میں کیا تحقیق ہے؟ سوال نمبر ٢٣٦

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

 حضرت ایک سوال ہے لوگ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اٹھارہ ہزار مخلوقات میں سے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے تو معلوم یہ کرنا ہے کہ اٹھارہ ہزار کا لفظ قرآن وحدیث سے ثابت ہے یا نہیں برائے مہربانی جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔

سائل: بندہ احقر محمد انصاف للریا


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


اس سلسلہ مین الجامع لأحکام القرآن" معروف بہ تفسیر قرطبی میں رب العالمین کی تفسیر کے تحت اس طرح سے بیان کیا ہے: عموما یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ اللہ تعالی نے کل اٹھارہ ہزار مخلوقات پیدا کی ہیں لیکن اٹھارہ ہزار تعداد پر مشتمل یہ روایت درحقیقت مخلوقات کے بارے میں نہیں ہے، کل عالم کی تعداد کے بارے میں ہیں، اور اس تعداد میں بھی کافی اختلاف ہے ۔۔۔۔۔۔۔ زید بن اسلم نے کہا : اس سے مراد وہ ہیں جن کو رزق دیا جاتا ہے۔ اسی قسم کا قول ابو عمروبن علاء کا ہے کہ وہ روحانیون ہیں۔ حضرت ابن عباس کے قول کا معنی بھی یہی ہے، ہر ذی روح جو زمین کی سطح پر چلا۔ وہب بن منبہ نے کہا : اللہ تعالیٰ کے اٹھارہ ہزار عالم ہیں دنیا ان عالموں میں سے ایک عالم ہے۔ حضرت ابو سعید خدری نے کہا : اللہ تعالیٰ کے چالیس ہزار عالم ہیں۔ دنیا، مشرق سے مغرب تک ایک عالم ہے۔ مقاتل نے کہا : عالمون، اسی ہزار عالم ہے، چالیس ہزار عالم خشکی میں ہیں اور چالیس ہزار عالم سمندر میں ہیں۔ ربیع بن انس نے ابو العالیہ سے روایت کیا ہے، فرمایا : جن ایک عالم ہے، انسان ایک عالم ہے، اس کے علاوہ زمین کے چار کونے ہیں، ہر کونے میں پندرہ ہزار عالم ہیں اللہ تعالیٰ نے سب کو اپنی عبادت کے لئے تخلیق فرمایا ہے۔ میں کہتا ہوں : ان اقوال میں سے صحیح ترین قول یہ ہے کہ عالم ہر مخلوق وموجود کو شامل ہے اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : قال فرعون وما رب العلمین قال رب السموت والارض وما بینھما (الشعراء)

(الجامع لأحکام القرآن" معروف بہ تفسیر قرطبی مفسر ابوعبدالله، محمد بن احمد بن ابوبکر بن فَرْح انصاری خزرجی اندلسی شمس الدين القرطبی)


معالم التنزیل میں علامہ بغوی نے اس اخلاف کو اس طرح سے بیان کیا ہے: حضرت ابو عبید فرماتے ہیں کہ عالمین کا لفظ چار قسم کی مخلوق کو شامل ہے ۔ (١) فرشتے (٢) انسان (٣) جنات (٤) شیاطین۔ دریں صورۃ عالمین علم سے مشتق ہوگا اور چوپائے جانور عالمین میں داخل نہ ہوں گے کیونکہ یہ ذی عقل نہیں ہیں ۔

(عدد عالمین کا ذکر)

عالمین کے مبلغ عدد میں اختلاف ہے، حضرت سعید بن المسیب فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ایک (١٠٠٠) عالم ہیں چھ سو (٦٠٠) سمندر ہیں اور چار سو (٤٠٠) خشکی میں حضرت مقاتل بن حیان (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اسی ہزار (٨٠٠٠٠) ہزار عالم ہیں چالیس ہزار (٤٠٠٠٠) سمندر میں اور چالیس ہزار (٤٠٠٠٠) خشکی میں۔

حضرت وہب (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اٹھارہ (١٨) ہزار عالم ہیں جن میں سے یہ کل کائنات ایک عالم ہے اور خرابہ کے مقابل آبادی کی حیثیت ایسی ہے جیسے صحرا میں ایک خیمہ ۔ حضرت کعب احبار (رح) فرماتے ہیں کہ عالمین کی تعداد اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت)” وما یعلم جنود ربک الا ھو “۔ کہ تیرے رب کے لشکروں کو سوا اس کے کوئی نہیں جانتا ۔

(معالم التنزیل المعروف تفسیر بغوی حسین بن مسعود بغوی)


حافظ عماد الدین ابن کثیر اپنے تفسیر تفسیر ابن کثیر اس اختلاف کو اس طرح سے بیان کیا ہے: عالمین جمع ہے عالم کی اللہ تعالیٰ کے سوا تمام مخلوق کو عالم کہتے ہیں۔ لفظ عالم بھی جمع ہے اور اس کا واحد لفظ ہے ہی نہیں۔ آسمان کی مخلوق خشکی اور تری کی مخلوقات کو بھی عوالم یعنی کئی عالم کہتے ہیں۔ اسی طرح ایک ایک زمانے، ایک ایک وقت کو بھی عالم کہا جاتا ہے۔ ابن عباس سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ اس سے مراد کل مخلوق ہے خواہ آسمانوں کی ہو یا زمینوں کی یا ان کے درمیان کی، خواہ ہمیں اس کا علم ہو یا نہ ہو۔ علی ہذا القیاس۔ اس سے جنات اور انسان بھی مراد لئے گئے ہیں۔ سعید بن جیر مجاہد اور ابن جریح سے بھی یہ مروی ہے۔ حضرت علی سے بھی غیر معتبر سند سے یہی منقول ہے اس قول کی دلیل قرآن کی آیت لیکون للعالمین نذیرا بھی جاتی ہے یعنی تاکہ وہ عالمین یعنی جن اور انس کے لئے ڈرانے والا ہوجائے۔ فرا اور ابو عبید کا قول ہے کہ سمجھدار کو عالم کہا جاتا ہے۔ لہذا انسان، جنات، فرشتے، شیاطین کو عالم کہا جائے گا۔ جانوروں کو نہیں کہا جائے گا۔ زید بن اسلم، ابو محیص فرماتے ہیں کہ ہر روح والی چیز کو عالم کہا جاتا ہے۔ قتادہ کہتے ہیں۔ ہر قسم کو ایک عالم کہتے ہیں ابن مروان بن حکم عرف جعد جن کا لقب حمار تھا جو بنوامیہ میں سے اپنے زمانے کے خلیفہ تھے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سترہ ہزار عالم پیدا کئے ہیں۔ آسمانوں والے ایک عالم، زمینوں والے سب ایک عالم اور باقی کو اللہ ہی جانتا ہے مخلوق کو ان کا علم نہیں۔ ابوالعالیہ فرماتے ہیں انسان کل ایک عالم ہیں، سارے جنات کا ایک عالم ہے اور ان کے سوا اٹھارہ ہزار یا چودہ ہزار عالم اور ہیں۔ فرشتے زمین پر ہیں اور زمین کے چار کونے ہیں، ہر کونے میں ساڑھے تین ہزار عالم ہیں۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ یہ قول بالکل غریب ہے اور ایسی باتیں جب تک کسی صحیح دلیل سے ثابت نہ ہوں ماننے کے قابل نہیں ہوتیں۔ جمیری کہتے ہیں ایک ہزار امتیں ہیں، چھ سو تری میں اور چار سو خشکی میں۔ سعید بن مسیب سے یہ بھی مروی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ سعید بن میب (رح) سے بھی یہ قول مروی ہے۔ وہب بن منبہ فرماتے ہیں اٹھارہ ہزار عالم ہیں، دنیا کی ساری کی ساری مخلوق ان میں سے ایک عالم ہے۔ حضرت ابو سعید خدری (رض) فرماتے ہیں چالیس ہزار عالم ہیں ساری دنیا ان میں سے ایک عالم ہے۔ زجاج کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے دنیا آخرت میں جو کچھ پیدا کیا ہے وہ سب عالم ہے۔ قرطبی کہتے ہیں کہ یہ قول صحیح ہے اس لئے کہ یہ تمام عالمین پر مشتمل لفظ ہے۔ (تفسیر ابن کثیر مفسر حافظ عماد الدین ابن کثیر شافعی دمشقیؒ)


معارف القرآن میں حضرت مفتی شفیع صاحب نے اس اختلاف کو اس طرح سے بیان کیا ہے: حضرت ابوسعید خدری (رض) سے منقول ہے کہ عالم چالیس ہزار ہیں یہ دنیا مشرق سے مغرب تک ایک عالم ہے باقی اس کے سوا ہیں اسی طرح حضرت مقاتل امام تفسیر سے منقول ہے کہ عالم اسی ہزار ہیں (قرطبی ) اس پر جو یہ شبہ کیا جاتا تھا کہ خلاء میں انسانی مزاج کے مناسب ہوا نہیں ہوتی اس لئے انسان یا کوئی حیوان وہاں زندہ نہیں رہ سکتا امام رازی نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ کیا ضروری ہے کہ اس عالم سے خارج خلاء میں جو دوسرے عالم کے باشندے ہوں ان کا مزاج بھی ہمارے عالم کے باشندوں کی طرح ہو جو خلاء میں زندہ نہ رہ سکیں یہ کیوں نہیں ہوسکتا کہ ان عالموں کے باشندوں کے مزاج وطبائع ان کی غذا و ہوا یہاں کے باشندوں سے بالکل مختلف ہوں۔ (معارف القرآن مفتی شفیع صاحب)


اسی طرح خریدۃ العجائب وفریدۃ الغرائبا کل عالم کے متعلق حضرت ابن عباس ؓسے ستر ہزار، حضرت ابوسعید خدریؓ سے چالیس ہزار اور حضرت سعید بن مسیبؒ سے ہزار عالم کی روایات منقول ہیں (خریدۃ العجائب وفریدۃ الغرائب ٤۱۱) 


ان ساری تفاسیر کی روشنی میں یہ پتا چلتا ہے کہ جو عدد بیان ہواہے وہ دنیاوی مخلوقات کے بارے میں نہیں ہے بلکہ عالمین کے بارے میں ہے اور یہ پوری دنیا بھی ان عالموں میں سے ایک عالم ہے۔


البتہ کتاب النوازل میں حضرت مفتی سلمان منصور پوری صاحب اس طرح کے سوال کے جواب میں رقم طراز ہے: تعداد عالم کے سلسلہ میں روایات مختلف ملتی ہیں؛ البتہ حضرت وہبؒ کا قول’’ روح البیان‘‘ میں مذکور ہے کہ کل عالم اٹھارہ ہزار ہیں، نیز بعض روایات کے مطابق ہر جنس مخلوق کو ایک عالم کہا جاتا ہے، چناںچہ اس قول کے مطابق اگر کہا جائے کہ اللہ نے اٹھارہ ہزار قسم کی مخلوق پیدا کیں یا اٹھارہ ہزار عالم بنائے، دونوں کہنا صحیح اور درست ہے۔

قال وہب: للّٰہ ثمانیۃ عشر ألف عالم، الدنیا عالم منہا۔ (روح البیان ۱؍۱۲، تفسیر خازن ۱؍۲۱)

قال مقاتل: العالَمون ثمانون ألف عالَم، أربعون ألف عالم في البر، وأربعون ألف عالم في البحر۔ (الجامع لأحکام القرآن للقرطبي ۱؍۱۳۶)

وقال بعض العلماء: کل صنف من أصناف الخلائق عالم فالإنس عالم، والجن عالم والملائکۃ عالم والطیر عالم والبنات عالم۔ وہٰکذا علی ہامش فتح البیان (روح البیان ۱؍۲۵)

البتہ یہ کہنا کہ مخلوقات کی تعداد کل اٹھارہ ہزار ہے درست نہیں؛ اس لئے کہ مخلوق خداوندی بے شمار ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔ (کتاب النوازل ٢/٢٣٦)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: