پیر، 7 مارچ، 2022

رکوع سجدہ کی تسبیحات کی مقدار اور اس کا حکم سوال نمبر ٢٠٩

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

مسئلہ یہ ہےکہ نماز میں رکوع کی تسبیح رکوع میں کوئی تین مرتبہ پڑھ لے اور سجدے میں جانے کے بعد سجدے کی تسبیح پانچ مرتبہ پڑھ لے تو اس طرح تعداد کی کمی یا زیادتی ہونے کی  وجہ سے نماز ہو جائیگی یا نہیں؟

سائل: عبدالحئی سالک تلواڑی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


رکوع اور سجدے کی تسبیح طاق عدد میں پڑھنا سنت ہے، تین مرتبہ پڑھ لینے سے یہ سنت ادا ہو جاتی ہے اس سے زیادہ پانچ یا سات مرتبہ بھی پڑھ سکتے ہیں ۔ بہرحال طاق عدد کا خیال رکھیں۔


لہذا نماز میں رکوع اور سجدہ کی حالت میں کم از کم تین مرتبہ تسبیح پڑھنا سنت ہے، درمیانی درجہ یہ ہے کہ پانچ دفعہ پڑھے اور اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ سات دفعہ پڑھے، بہرحال تین سے کم بار تسبیح پڑھنے سے سنت ادا نہیں ہوگی۔


صورت مسئولہ میں رکوع اور سجدہ کی تسبیحات میں برابری ضروری نہیں ہے کم زیادہ ہوجانے سے نماز ہوجاتی ہے البتہ اقل مقدار سنت تین ہے اس کا خیال رکھا جائے لہذا آپ کی نماز درست ہوجائے گی البتہ کوشش کریں کہ تسبیحات میں طاق عدد مثلاً تین، پانچ، سات، نو کی رعایت ہوجائے۔


مراقی الفلاح میں ہے۔

ویسن تسبیحہ أي الرکوع ثلاثًا لقول النبي -صلی اللہ علیہ وسلم- إذا رکع أحدکم فلیقل ثلاث مرات سبحان ربي العظیم وذلک أدناہ وإذا سجد فلیقل سبحان ربي الأعلی ثلاث مرات وذلک أدناہ․․․ والأمر للاستحباب فیکرہ أن ینقص عنہا ولو رفع الإمام مثل إتمام المقتدي ثلاثا فالصحیح أنہ یتابعہ الخ وفي حاشیة الطحطاوي قال في البرح ما ملخّصہ أن الزیادة أفضل بعد أن یختم علی وتر الخص۔ ( مراقی الفلاح ٢٤٦، ط: زکریا)


الفتاوى الهندية میں ہے۔

ثم إذا استوى قائماً كبر وسجد كذا في الهداية ويكبر في حالة الخرور ويقول في سجوده: سبحان ربي الأعلى ثلاثاً وذلك أدناه. كذا في المحيط. ويستحب أن يزيد على الثلاث في الركوع والسجود بعد أن يختم بالوتر. كذا في الهداية. فالأدنى فيهما ثلاث مرات، والأوسط خمس مرات، والأكمل سبع مرات. كذا في الزاد. وإن كان إماماً لايزيد على وجه يمل القوم. كذا في الهداية۔ (الفتاوى الهندية ١/٧٥)


الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے۔

وأما من حيث الرواية فالأرجح السنية؛ لأنها المصرح بها في مشاهير الكتب، وصرحوا بأنه يكره أن ينقص عن الثلاث وأن الزيادة مستحبة بعد أن يختم على وتر خمس أو سبع أو تسع۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ٢/١٩٧) واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: