ہفتہ، 5 مارچ، 2022

جنازہ کو بیچ سے اٹھا کر چلنا سوال نمبر ٢٠٠

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

ایک مسئلہ درپیش ہے کہ جنازہ لے کر چلتے وقت کسی آدمی کا بالکل بیچ میں کھڑے ہوکر پورے راستے میں چلنا کیسا ہے؟

سائل: مفتی لقمان ہالولی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


یہ طریقہ سنت کے خلاف ہے اس طرح سے جنازہ اٹھانے کا ثواب نہیں ملے گا اور اگر چلنے والوں کو تکلیف ہو تو حرمت لغیرہ کے تحت ناجائز ہوگا۔


جنازے کو اٹھانے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ اگر چھوٹے بچے، بچی کی میت ہو تو ایک آدمی اپنے ہاتھوں میں اٹھالے کافی ہے، البتہ اگر بالغ کی میت ہو تو اس کو چار پائی پر رکھ کر چار آدمی اٹھائیں، پھر اس اٹھانے میں ایک تو نفسِ سنت ہے اور ایک کمالِ سنت ہے: نفسِ سنت تو یہ ہے کہ بلا ترتیب چار پائی کے چاروں پاؤں پکڑ کر دس دس قدم چلے، اور کمالِ سنت یہ ہے کہ پہلے میت کے سرہانے کی دائیں جانب کو اپنے دائیں کاندھے پر رکھ کر دس قدم چلے، پھر پائینتی کے دائیں جانب کو دائیں کاندھے پر رکھ کر دس قدم چلے، پھر سرہانے کی بائیں جانب کو بائیں کاندھے پر رکھ کر دس قدم چلے، پھر پائینتی کی بائیں جانب کو بائیں کاندھے پر رکھ کر دس قدم چلے۔  نیز جنازہ لے جاتے وقت میت کا سر آگے رکھیں اور جنازہ کو ذرا تیز قدم کے ساتھ لے کر چلیں، تاہم دوڑیں نہیں۔


فتح باب النقایہ فی شرح کتاب النقایہ میں ہے۔

وسن في حمل الجنازة أربعة من الرجال، لما روى محمد في الآثار، عن أبي حنيفة، عن منصور بن المعتمر، عن عبيد بن نسطاس، عن أبي عبيدة، عن أبيه، عبد الله بن مسعود أنه قال من السنة حمل السرير بجوانبه الأربع ورواه أبو داود الطيالسي، وابن أبي شيبة، وعبد الرزاق عن شعبة، عن منصور ولفظهما فليأخذ بجوانب السرير الأربع، ورواه ابن ماجه بلفظ من اتبع جنازة، فليأخذ بجوانب السرير الأربع كلها، فإنه من السنة، فإن شاء فليتطوع، وإن شاء فليدع، ولقول علي الأزدي  رأيت ابن عمر في جنازة فحمل بجوانب السرير الأربع، ولقول أبي هريرة من حمل الجنازة بجوانبها الأربع، فقد قضى الذي عليه، رواهما عبد الرزاق وورد من حمل الجنازة بجوانب السرير الأربع، غفر له أربعون كبيرة، رواه ابن عساكر ، عن واثلة۔ (فتح باب النقایہ فی شرح کتاب النقایہ ط: دارالکتاب العلمیہ ١/٤٥٩ )


فتاوی ہندیہ میں ہے:

سن في حمل الجنازة أربعة من الرجال كذا في شرح النقاية للشيخ أبي المكارم إذا حملوه على سرير أخذوه بقوائمه الأربع به وردت السنة كذا في الجوهرة النيرة ثم إن في حمل الجنازة شيئين نفس السنة وكمالها أما نفس السنة أن تأخذ بقوائمها الأربع على طريق التعاقب بأن تحمل من كل جانب عشر خطوات وهذا يتحقق في حق الجمع وأما كمال السنة فلا يتحقق إلا في واحد وهو أن يبدأ الحامل بحمل يمين مقدم الجنازة كذا في التتارخانية ۔۔۔۔۔۔۔۔ وذكر الإسْبيجَابي أَن الصبِي الرضِيع أَوْ الفطِيم أَو فَوق ذالك قليلا إذَا مَات فَلَا بَأس بِأَنْ يَحملَه رَجُل وَاحِد عَلَى يديه ويتداوله الناس بالْحمْل عَلَى أيديهم وَلَا بأس بِأن يحمله على يديْه وَهو راكب وَإن كان كبيرا يحمَل على الْجنازة، كذا في الْبحر الرائق۔ (كتاب الصلاة، الباب الحادي و العشرون في الجنائز، الْفصْل الرابع في حمل الْجنازة، ١/ ١٦٢) 


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: