سوال
وہ کونسے ہے جس پرز کوۃ واجب نہیں ہے ؟
اموالالجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
نیچے درج کئے گئے اموال میں زکوۃ واجب نہیں ہے چاہے ان کی قیمت کتنی ہی ہو۔
( ۱ ) وہ غیر منقولہ اشیاء جو تجارت کے لئے نہ ہو جیسے رہنے کے گھر وغیرہ چاہے وہ ایک سے زائد ہو۔
لہذا زمین یا گھر رہائش کی نیت سے خریدا گیا ہو تو اس پر شرعاً زکات لازم نہیں ہوتی، اسی طرح سے جو دوکان اس غرض سے خریدی ہو کہ اس میں کاروبار کیا جائے گا تو اس دوکان کی قیمت پر بھی زکات واجب نہیں ہوتی، اسی طرح پراپرٹی خریدتے وقت اگر کوئی نیت نہیں کی ہو (کہ اس کو بیچنا ہے یا رہائش اختیار کرنی ہے) تو اس پر بھی زکات نہیں ہے۔
( ۲ ) استعمالی کپڑے چادریں، فرش، قالین، وغیرہ۔
جو کپڑے چادریں فرش قالین تجارت کی غرض سے نہیں خریدے گئے ہوں، بلکہ خود پہننے کی نیت سے خریدے ہوں یا تحفے میں ملے ہوں، اس پر زکات واجب نہیں ہوگی،
( ۳ ) کراۓ پر بنائے گئے مکانات۔
جو مکان کرایہ پر دینے کے لیے بنایا ہو اور اسے کرایہ پر دیتا ہے تو اس مکان کی قیمت پر زکوة واجب نہیں ہوتی ہے بلکہ ماہانہ یا سالانہ جو کرایہ حاصل ہوتا ہے اس پر زکوة واجب ہوتی ہے بشرطیکہ حاصل شدہ آمدنی میں وجوب زکوة کی تمام شرطیں پائی جائیں، مثلاً سارا کرایہ تنہا یا دوسرے نصاب کے ساتھ مل کر بہ قدر نصاب ہو اور سال گذرجائے۔
( ٤ ) گھر میں رکھا ہوا کھانے پینے کا ذخیرہ چاہے کتنا ہی زیادہ ہو۔
( ۵ ) گھر کا ساز وسامان ۔ (فریج کولر واشنگ مشین وغیرہ)۔
( ٦ ) سجاوٹ کے برتن چاہے کسی طرح کے ہو
گھر میں گھریلو استعمال کا جو سامان ہوتا ہے خواہ وہ روز استعمال کا ہو یا کبھی کبھار استعمال کا یا استعمال کی نیت سے گھر میں ہو اور پورے سال اس کے استعمال کی نوبت نہ آتی ہو یا سالوں میں کبھی استعمال کی نوبت آتی ہو، اُس پر زکوة نہیں،
( ٧ ) سواریاں ۔ ( گاڑی ، موٹر سائیکل ، رکشہ ، وغیرہ )
( ٨ ) اپنی حفاظت کے لئے رکھے ہوۓ ہتھیار چاہے وہ کسی قسم کے ہو ۔
( ٩ ) مطالعہ کی کتابیں۔
( ۱۰ ) ہیرے ، جواہرات جب کہ وہ تجارت کے لئے نہ ہو اگر تجارت کے لئے ہے تو زکوۃ واجب ہے ۔
( ۱۱ ) آلات صناعت ، اور ہر وہ سامان جو تجارت کی نیت سے نہ خریدہ ہو۔ ان سب چیزوں پر زکوۃ واجب نہیں ہے۔
خلاصۂ کلام یہ ہوا کہ
زکوة صرف سونا، چاندی، کرنسی اور فروخت کرنے کی نیت سے خرید کردہ چیزوں پر ہوتی ہے، لہذا تین چیزیں ایسی ہے کہ جس پر ہر حال میں زکوۃ واجب ہے (١) سونا (٢) چاندی (٣) نقدی اس کے علاوہ جتنا بھی سرمایہ ہے اس میں خریدتے وقت تجارت کی نیت ہو تو زکوٰۃ واجب ہے اور اگر خریدتے وقت تجارت کی نیت نہ ہو تو زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔
اس لئے کہ زکاۃ صرف اس مال پر فرض ہے جو عادۃً بڑھتاہو، (خواہ حقیقتاً بڑھے یا حکماً) جیسے مال تجارت یا مویشی یا سونا چاندی اور نقدی، سونا، چاندی اور نقدی کو اسلام نے تجارت کا ذریعہ قرار دیا ہے لہذا اس پر تو ہر حال میں زکاۃ لازم ہے، چاہے اس میں تجارت کی نیت کی ہو یا نہ کی ہو، البتہ ان اموال کے علاوہ ذاتی مکان دکان گاڑی برتن فرنیچر اور دوسرے گھریلو سامان ملوں اور کارخانوں کی مشینری اور جواہرات وغیرہ اگر تجارت کے لیے نہیں ہیں تو ان پر زکاۃ فرض نہیں ہے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے۔
ومنھا فراغ المال عن حاجتہ الاصلیۃ فـلـيـس فـي دور السكنى وثياب البدن وأثاث المنازل ودواب الركوب وعبيـد الـخـدمة وسـلاح الاستـعـمـال زكـوة وكذا طعام اهله وما يتجمل به من الاوان اذا لم يكن من الذهب والفضة وكذا الجوهرة واللؤلؤ والياقوت والبلخش والـز مـرد و نـحـوهـا اذالـم يـكـن للتجارت ....... وكذا كتب العلم ان كان من أهله والآلات المحتريفين كذا في السراج الوهاج ـ عالمگیری- ۱۷۲/۱)
فتاوی شامی میں ہے۔
(وسببہ) أي سبب افتراضھا (ملک نصاب حولي) …… (تامٍ) … ( فارغ عن دین لہ مطالب من جھة العباد) … (و) فارغ ( عن حاجتہ الأصلیة) … ( نامٍ ولو تقدیراً) بالقدرة علی الاستنماء ولو بنائبہ …… (فلا زکاة …… في ثیاب البدن) المحتاج إلیھا لدفع الحر والبرد، ابن ملک (وأثاث المنزل ودور السکنی ونحوھا) وکذا الکتب وإن لم تکن لأھلھا إذا لم تنو للتجارة غیر أن الأھل لہ أخذ الزکاة وإن ساوت نصباً إلا أن تکون غیر فقہ وحدیث وتفسیر أو تزید علی نسختین منھا ھو المختار إلخ (الدر المختار مع رد المحتار، أول کتاب الزکاة، ۱۷٤ - ۱۸۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں