منگل، 15 مارچ، 2022

زبان سے کلمہ کفر نکالنے کی صورت میں کیا حکم ہے ؟ سوال نمبر ٢٣٤

 سوال

عالم میں برزخ کے عنوان سے اگر کوئی یوں کہے

ابے وہاں کس نے دیکھا ہے؟ تو اس کے متعلق کیا حکم ہے

سائل: محبوب خان الحسنی مانگرول گجرات


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


کلمہ کفر جب منہ سے نکلے تو اس کی دوصورتیں ہوگی، (١) جان بوجھ کر کلمہ کفر منہ سے نکالنا، اگر کسی شخص نے جان بوجھ کر کوئی ایسا کلمہ زبان سے کہہ دیا جس سے کفر لازم آتا ہے تو فقہاء اس پر تجدید ایمان و تجدید نکاح کے لزوم کا حکم دیتے ہیں، لہذا اپنے ارادے اور اختیار سے کلماتِ  کفریہ ادا کرنے سے انسان دائرۂ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، خواہ وہ کلمات غصے میں کہے ہوں  یا مذاق میں یا ان کے مطابق عقیدہ نہ ہو، لیکن کلمات کفر ہوں۔


(٢) کلمات کفر غلطی اور بلا اختیار کے نکل جائے، اگر کسی کے منہ سے غلطی سے کوئی کفریہ کلمہ زبان سے نکل جائے (مثلاً کہنا کچھ اور چاہ رہاہو اور زبان سے کفریہ جملہ نکل جائے) تو اس کی وجہ سے آدمی کافر نہیں، اسی ضرح کوئی ایسا جملہ کہہ دیا جس کے کفر ہونے میں اختلاف ہو، یا کلمہ تو متفقہ طور پر کفریہ ہی ہو، لیکن متکلم کو اس کے کفریہ ہونے کا علم نہ ہو تو اس پر اس سے رجوع کرکے توبہ و استغفار لازم ہے اور احتیاطا تجدید نکاح بھی کروالیا جائے،


مسؤلہ صورت میں اگر کسی نے یہ الفاظ بلانیت ایسے ہی منھ سے نکال دئے یا تعجب میں اور لاعلمی میں ایسا کلمہ کہا جس میں کفر کے علاوہ اور احتمالات بھی ہوں تو ایسے شخص کو کا فر نہیں کہا جائے گا۔ البتہ ایسے شخص کو توبہ استغفار اور احتیاطا تجدید نکاح کر لینا چاہیے اور اگر ان صاحب کا وہ جملہ بطور اعتراض کے ہو تو اس کے لئے اوپر پہلی صورت والا حکم ہوگا۔


فتاوی شامی میں ہے۔

قال في البحر والحاصل: أن من تكلم بكلمة للكفر هازلاً أو لاعبًا كفر عند الكل ولا اعتبار باعتقاده، كما صرح به في الخانية. ومن تكلم بها مخطئًا أو مكرهًا لايكفر عند الكل، ومن تكلم بها عامدًا عالمًا كفر عند الكل، ومن تكلم بها اختيارًا جاهلاً بأنها كفر ففيه اختلاف۔ (فتاوی شامی  ٦/٣۵٨ )


المسوی شرح مؤطا میں ہے۔  

وإن اعترف به ظاهرًا ولکن یفسر بعض ما ثبت من الدین ضرورة بخلاف ما فسره الصحابة و التابعون و أجمعت علیه الأمة فهوالزندیق، کما إذا اعترف بأن القرآن حقّ ومافیه من ذکر الجنة والنار حقّ، لکن المراد بالجنة الابتهاج الذی یحصل بسسب الملکات المحمودة والمراد بالنار هي الندامة التي تحصل بسبب الملکات المذمومة ولیس في الخارج جنة ولا نار فهو زندیق۔ (المسوی شرح مؤطا  ٢/١٣٠)۔


محیط برہانی میں ہے۔

ومن اتى بلفظة الكفر مع علمه أنها لفظة الكفر عن اعتقاد, فقد كفر, وإن لم يعتقد أو لم يعلم أنها لفظة الكفر, ولكن أتى بها عن اختيار, فقد كفر عند عامة العلماء رحمهم الله تعالى (المحيط البرهاني ٧/٣٩٧)


فتاویٰ تاتار خانیہ میں ہے۔

وفي الظهيرية: وان لم تكن له نية حمل المفتى كلامه على وجه لا يوجب التكفير ويؤمر بالتوبة والاستغفار واستجداد النكاح۔ (الفتاوى التاتارخانية ٧/٢٨٢) 


مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر میں ہے۔

فما يكون كفرًا بالاتفاق يوجب إحباط العمل كما في المرتد وتلزم إعادة الحج إن كان قد حجّ ويكون وطؤه حينئذ مع امرأته زنا والولد الحاصل منه في هذه الحالة ولد الزنا، ثم إن أتى بكلمة الشهادة على وجه العادة لم ينفعه ما لم يرجع عما قاله؛ لأنه بالإتيان بكلمة الشهادة لايرتفع الكفر، وما كان في كونه كفرًا اختلاف يؤمر قائله بتجديد النكاح وبالتوبة والرجوع عن ذلك احتياطًا، وما كان خطأً من الألفاظ لايوجب الكفر فقائله مؤمن على حاله ولايؤمر بتجديد النكاح ولكن يؤمر بالاستغفار والرجوع عن ذلك، هذا إذا تكلم الزوج، فإن تكلمت الزوجة ففيه اختلاف في إفساد النكاح، وعامة علماء بخارى على إفساده لكن يجبر على النكاح ولو بدينار وهذا بغير الطلاق۔ (مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر ١/٦٨٧)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: