سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
مفتی صاحب بڑے ادب سے ایک سوال حاضر خدمت ہے میں جمعہ سے پہلے سنت ادا کر رہا تھا قاعدے اولیٰ کے بعد تیسری رکعت کیلئے کھڑا رہا تیسری رکعت مکمل کرنے کے بعد اس بات کا خیال نہ رہا کہ یہ تیسری رکعت ہےاور پھر سے قائد میں بیٹھ گیا دوسری مرتبہ قائد میں بیٹھ کر اتحیات پڑھنے کے بعد خیال آیا کے تیسرے رکعت پر ہی قائد میں بیٹھ گیا پھر میں نے اس کے بعد دو رکعت پڑھ کر قائد آخر کیا کل میزان 5 ہوئی آخر میں سجدے سھو کیا، کیا میری اس صورت میں نماز ادا ہوگی؟
سائل: محمد اسلم میزابی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
فرض واجب یا سنن مؤکدہ میں جب زائد رکعت کے لئے کھڑا ہوجائے تو دیکھا جائے گا کہ وہ چوتھی رکعت کے بعد قعدہ میں بیٹھا تھا یا نہیں اگر چوتھی رکعت کے بعد قعدہ میں بیٹھا تھا اور اس کے بعد پانچویں رکعت کے لیے غلطی سے کھڑا ہوگیا تو جب تک وہ پانچویں رکعت کا سجدہ نہ کرلے قعدہ کی طرف واپس لوٹ آئے اور سجدہ سہو کرکے نماز مکمل کرلے۔
اور اگر مذکورہ شخص نے چوتھی رکعت پر قعدہ نہیں کیا تھا اور اس کے بعد پانچویں رکعت کے لیے کھڑا ہوگیا تو پانچویں رکعت کے سجدہ سے پہلے پہلے واپس قعدہ میں آجائے، اور سجدہ سہو کرکے نماز مکمل کرلے، اور اگر پانچویں رکعت کا سجدہ بھی کرلیا ہو تو اب اس کی فرض نماز باطل ہوگئی، اب اس نماز کا اعادہ کرنا لازم ہے، دونوں صورتوں میں وہ اگر پانچویں کا سجدہ کرچکا ہے تو اس کے ساتھ چھٹی رکعت بھی ملالے تاکہ بعد والی دورکعت نفل ہوجائے، یہ حکم فرض نمازوں کا ہے۔
جہاں تک سنن مؤکدہ کا مسئلہ ہے تو فقہاء نے ان کو بھی أفعال کے اعتبار سے فرض کے قائم مقام قرار دیا ہے، شامی میں ہے، ولا يستفتح إذا قام إلى الثالثة منها لأنها لتأكدها أشبهت الفريضة۔ لہذا سنن مؤکدہ کا بھی یہی حکم ہوگا جو فرائض کا ہے۔
مسؤلہ صورت میں چونکہ اس نے قعدہ اخیر نہیں کیا ہے اس لئے اس کی نماز نفل ہوجائے گی اب وقت کے اندر دوبارہ ان سنتوں کو لوٹانا لازم ہوگا۔
الفتاوى الهندية میں ہے۔
رجل صلى الظهر خمساً وقعد في الرابعة قدر التشهد إن تذكر قبل أن يقيد الخامسة بالسجدة أنها الخامسة عاد إلى القعدة وسلم، كذا في المحيط. ويسجد للسهو، كذا في السراج الوهاج. وإن تذكر بعدما قيد الخامسة بالسجدة أنها الخامسة لا يعود إلى القعدة ولا يسلم، بل يضيف إليها ركعةً أخرى حتى يصير شفعاً ويتشهد ويسلم، هكذا في المحيط. ويسجد للسهو استحساناً، كذا في الهداية. وهو المختار، كذا في الكفاية. ثم يتشهد ويسلم، كذا في المحيط. والركعتان نافلة ولا تنوبان عن سنة الظهر على الصحيح، كذا في الجوهرة النيرة ... وإن لم يقعد على رأس الرابعة حتى قام إلى الخامسة إن تذكر قبل أن يقيد الخامسة بالسجدة عاد إلى القعدة، هكذا في المحيط. وفي الخلاصة: ويتشهد ويسلم ويسجد للسهو، كذا في التتارخانية. وإن قيد الخامسة بالسجدة فسد ظهره عندنا، كذا في المحيط۔ (الفتاوى الهندية ١/١٢٩)
الدر المختار مع الشامی میں ہے۔
ولايصلى على النبي صلى الله عليه وسلم في القعدة الأولى في الأربع قبل الظهر والجمعة وبعدها ولو صلى ناسياً فعليه السهو، وقيل: لا، شمني ولا يستفتح إذا قام إلى الثالثة منها لأنها لتأكدها أشبهت الفريضة۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ٢/٤٥٦)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں