پیر، 21 مارچ، 2022

مسجد یا اس کے علاوہ دوسری جگہوں پر جماعت ثانیہ کا شرعی حکم سوال نمبر ٢٤١

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

غیر مسجد میں یا مدرسہ کے  حول میں یا اگر گھر میں ایک جگہ نماز ہو گیا ہو اور اسی جگہ پر ہم اگر نماز پڑھنا چاہیے تو گیا نماز پڑھ سکتے ہیں؟ حوالہ کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں آپ کی مہربانی ہوگی   

سائل: محمد امتیاز انڈمان


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک جماعت ثانیہ مکروہ ہے کیوں کہ جماعت دراصل پہلی جماعت ہے، دوسری جماعت کی اجازت دینے سے لوگوں کے دلوں سے پہلی جماعت کی اہمیت وعظمت ختم ہوجائے گی اور اس کی وجہ سے نمازیوں کی حاضری میں سستی پیدا ہوتی ہے جس سے جماعت اولیٰ کی تقلیل لازمی ہوتی ہے اس لئے کہ ہر ایک یہ سوچے گا کہ میں دوسری جماعت میں شریک ہوجاؤں گا، جب کہ   شریعتِ مطہرہ  میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے  کی بڑی فضیلت اور تاکید آئی ہے اور جماعت میں کثرت بھی مطلوب ہے، جب کہ ایک سے زائد جماعت کرانے میں کثرت کی بجائے تفریق ہے اس لیے جماعت ثانیہ کو حضرت امام صاحبؒ نے مکروہ فرمایا اور اجازت نہیں دی۔


البتہ جماعت ثانیہ کی کراہت کا حکم مطلق نہیں ہے بلکہ چند شرائط کے ساتھ خاص ہے، وہ یہ ہے۔


(١) وہ مسجد محلے کی ہو، مسجد طریق نہ ہو، اگر مسجد طریق ہے یعنی: اس میں مستقل طور پر امام اور موٴذن مقرر نہیں ہے تو جماعت ثانیہ جائز ہے۔


(٢) مسجد میں پانچوں وقت کی نماز باجماعت ہوتی ہو، اگر پانچویں وقت کی نماز باجماعت نہیں ہوتی تو جماعت ثانیہ جائز ہے۔


(٣) امام، مؤذن مقرر ہوں اور نمازی معلوم ہو اگر امام و مؤذن مقرر نہ ہو یا مقرر تو ہو لیکن ایسی جگہ پر مسجد ہے جہاں نمازی معلوم نہیں ہے، تو جماعت ثانیہ جائز ہے۔


(٤) نیز جماعت کے اوقات بھی متعین ہوں اگر جماعت کے اوقات متعین نہ ہو تو جماعت ثانیہ جائز ہے۔


(٥) ایک مرتبہ جس جگہ نماز باجماعت ادا ہوگئی ہو اسی جگہ دوبارہ جماعت ثانیہ کرنا، اگر اس جگہ سے ہٹ کر دوسری جگہ جماعت ثانیہ کریں تو جماعت ثانیہ جائز ہے۔


(٦) مسجد شرعی کی حدود میں اہل محلہ نے نماز باجماعت ادا کرلی ہو۔


صورت مسئولہ میں مسجد میں جہاں اہل محلہ نے نماز باجماعت ادا کرلی ہو اس کے علاوہ مسجد شرعی کی حدود سے باہر مسجد کے وضو خانہ وغیرہ کے پاس یا کسی آفس یا گھر مدرسہ کے حال وغیرہ میں ایک بار نماز باجماعت ہوجائے تو بھی اس کے بعد دوسری یا تیسری جماعت کرنا بلا کراہت درست ہے۔


شامی میں ہے۔

وکرہ تکرار الجماعة إلا في مسجد علی طریق فلا بأس بذلک، جوھرة ۔۔۔۔۔۔۔۔ قولہ: وتکرار الجماعة لما روی عبد الرحمن بن أبي بکر عن أبیہ ”أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خرج من بیتہ لیصلح بین الأنصار فرجع وقد صلی فی المسجد بجماعة، فدخل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم في منزل بعض أھلہ فجمع أھلہ فصلی بھم جماعة“۔ ولو لم یکرہ تکرار الجماعة فی المسجد لصلی فیہ، وروي عن أنس ”أن أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کانوا إذا فاتتھم الجماعة فی المسجد صلوا فی المسجد فرادی“ ، ولأن التکرار یؤدي إلی تقلیل الجماعة؛ لأن الناس إذا علموا أنھم تفوتھم الجماعة یتعجلون فتکثر وإلا تأخروا اھ بدائع وحینئذ فلو دخل جماعة المسجد بعد ما صلی أھلہ فیہ فإنھم یصلون وحدانا، وھو ظاھر الروایة۔ ظھیریة اھ، وفي آخر شرح المنية : وعن أبي حنيفة لو كانت الجماعة أكثر من ثلاثة يكره التكرار ، وإلا فلا . وعن أبي يوسف : إذا لم تكن على الهيئة الأولى لا تكره ، وإلا تكره وهو الصحيح ، وبالعدول عن المحراب تختلف الهيئة ، كذا في البزازية اهـ . وفي التاترخانية عن الولوالجية : وبه نأخذ ، وسيأتي في باب الإمامة إن شاء الله تعالى لهذه المسألة زيادة كلام . قوله : (إلا في مسجد على طريق) هو ما ليس له إمام ومؤذن راتب فلا يكره التكرار فيه بأذان وإقامة ، بل هو الأفضل . خانية۔ (فتاوی شامی کتاب الصلاة، باب الأذان ۲/٦٤ )


فتاوی شامی میں ہے۔

(ويكره) أي تحريما لقول الكافي لا يجوز، والمجمع لا يباح، وشرح الجامع الصغير إنه بدعة كما في رسالة السندي. قوله: (بأذان وإقامة الخ) عبارته في الخزائن أجمع مما هنا، ونصها:

يكره تكرار الجماعة في مسجد محلة بأذان وإقامة، إلا إذا صلى بهما فيه أو لا غير أهله أو أهله لكن بمخافتة الاذان، ولو كرر أهله بدونهما أو كان مسجد طريق جاز إجماعا، كما في مسجد ليس له إمام ولا مؤذن ويصلي الناس فيه فوجا فوجا، فإن الأفضل أن يصلي كل فريق بأذان وإقامة على حدة كما في أمالي قاضيخان اه‍. ونحوه في الدرر. والمرا بمسجد المحلة: ما له إمام وجماعة معلومون كما في الدرر وغيرها. قال في المنبع: والتقييد بالمسجد المختص بالمحلة احتراز من الشارع، وبالأذان الثاني احتراز عما إذا صلى في مسجد المحلة جماعة بغير أذان حيث يباح إجماعا ا ه‍. ثم قال في الاستدلال على الإمام الشافعي النافي للكراهة ما نصه: ولنا أنه عليه الصلاة والسلام كان خرج ليصلح بين قوم فعاد إلى المسجد وقد صلى أهل المسجد فرجع إلى منزله فجمع أهله وصلى ولو جاز ذلك لما اختار الصلاة في بيته على الجماعة في المسجد، ولان في الاطلاق هكذا تقليل الجماعة معنى، فإنهم لا يجتمعون إذا علموا أنها لا تفوتهم.

وأما مسجد الشارع فالناس فيه سواء لا اختصاص له بفريق دون فريق ا ه‍. ومثله في البدائع وغيرها، ومقتضى هذا الاستدلال كراهة التكرار في مسجد المحلة ولو بدون أذان، ويؤيده ما في الظهيرية: لو دخل جماعة المسجد بعدما صلى فيه أهله يصلون وحدانا وهو ظاهر الرواية۔ (فتاوی شامی مطلب في تكرار الجماعة في المسجد ٢/٢٨٨)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: