سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
جناب مفتی صاحب جب فرض نماز اکیلے ادا کررہے ہو تو دو رکعات کے بعد سورہ فاتحہ کے بعد کوئی سورت ملانی ہے یا نہیں اور اگر امام کے ساتھ ہو اور ایک یا دو رکعات چھوٹی ہو تو اس میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ ملانی ہے یا نہیں۔
سائل: عبداللطیف مہوا
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
فرض نماز کی تیسری یا چوتھی رکعت میں صرف سورہ فاتحہ پڑھنا سنت ہے، اس کے ساتھ کوئی سورت یا آیت ملانا سنت نہیں ہے، اور واجب بھی نہیں ہے، بلکہ فرض نماز کی تیسری یا چوتھی رکعت میں کسی نے کچھ بھی نہیں پڑھا، اور کچھ دیر خاموش کھڑا رہ کر رکوع کر لیا تو بھی نماز درست ہو جائے گی، اور سجدہ سہو بھی لازم نہ ہوگا، البتہ فرض نماز کی آخری دو رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنا افضل ہے، سورہ فاتحہ چھوڑنے کی عادت بنانا درست نہیں ہے۔
اسی طرح کسی نے فرض نماز کی تیسری یا چوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد کوئی سورت یا آیت پڑھ لی تو بھی مفتی بہ قول کے مطابق سجدہ سہو واجب نہ ہوگا۔
امام نے ایک یا دو رکعتیں نماز پڑھادی پھر کوئی شخص امام کے ساتھ شامل ہوا وہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد جب کھڑا ہوکر وہ اپنی نماز پوری کرے گا تو وہ منفرد یعنی تنہا اپنی نماز پڑھنے والے کے حکم میں ہوگا اور وہ اپنی چھوٹی ہوئی رکعتیں منفرد کی طرح پڑھے گا اور ان رکعتوں میں اولاً ثناء پڑھے گا پھر سورہٴ فاتحہ، اس کے بعد سورت بھی ملائے گا۔
لہذا مسبوق چوں کہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد جب اپنی چھوٹی ہوئی رکعتیں ادا کرتا ہے تو وہ قراءت کے لحاظ سے پہلی رکعتیں ہوتی ہیں اس لیے چار یا تین رکعت والی فرض نمازوں میں اگر مسبوق کو صرف دو رکعتیں ملیں تو اس پر چھوٹی ہوئی دو یا ایک رکعت میں سورہ فاتحہ کے ساتھ کوئی سورت، چھوٹی تین آیتیں یا ایک بڑی آیت ملانا واجب ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
واكتفى المفترض فيما بعد الأوليين بالفاتحة فإنها سنة على الظاهر، ولو زاد لا بأس به قوله ولو زاد لا بأس أي لو ضم إليها سورة لا بأس به لأن القراءة في الأخريين مشروعة من غير تقدير والاقتصار على الفاتحة مسنون لا واجب فكان الضم خلاف الأولى وذلك لا ينافي المشروعية والإباحة بمعنى عدم الإثم في الفعل والترك كما قدمناه في أوائل بحث الواجبات۔ (کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، ٢/٢٢١)
اسی طرح دوسری جگہ ہے۔
وفي أظھر الروایات لا یجب- سجود السھو لأن القراءة فیھما مشروعة من غیر تقدیر، والاقتصار علی الفاتحہ مسنون لا واجب (شامی ۲/١٥٠)
حاشية الطحطاوی على مراقي الفلاح میں ہے:
وتسن قراءة الفاتحة فيما بعد الأوليين يشمل الثلاثي والرباعي (کتاب الصلاۃ، فصل في بيان سننها، ص: 270/ ط: دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)
شامی میں ہے۔
والمسبوق من سبقہ الإمام بہا أو ببعضہا وہو منفرد حتی یثني ویتعوّذ ویقرأ (درمختار) قولہ حتی یثني الخ تفریع علی قولہ منفرد فما یقضیہ بعد فراغ إمامہ، فیأتي بالثناء والتعوذ؛ لأنہ للقرائة ویقرأ لأنہ یقضي أول صلاتہ في حق القرائة کما یأتي حتی لو ترک القراءة فسدت (درمختار مع الشامي: ۲/ ۳۴۷، باب الإمامة، ط: زکریا)
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں