سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
مقتدی کی ایک رکعت چھوٹی ہوٸ تھی اور اس نے امام کے ساتھ بھول سے پہلی سلام پھیردی فورا اسکو یاد آیا کے اس کی ایک رکعت باقی ہے کھرا ہو گیا اور اسکو دل میں یہ تھا کے وہ سجدہ کرے کے نہ کرے اور اسنے سجدہ سہو کیےبغیر سلام پھیر دی تو کیا اسکی نماز ہوگٸ یا اسکو لوٹانی پرے گی؟
سائل: سعید احمد
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
جس آدمی کی کچھ رکعتیں نکل چکی ہیں اس کو مسبوق کہتے ہیں، مسبوق کے سلام پھیر نے کی دوصورتیں ہے۔
(١) مسبوق نے جان بوجھ کرسلام پھیراہو۔
یعنی یہ جانتے ہوئے سلام پھیردیا کہ ابھی میری ایک یا اس سے زائد رکعتیں باقی ہیں تو چوں کہ یہ درمیان نماز میں جان بوجھ کر سلام پھیرنا ہے اس لیے اس سلام کی وجہ سے اس کی نماز فاسد ہوجائے گی خواہ اس نے امام سے پہلے سلام پھیرا ہو یا امام کے ساتھ ساتھ یا امام کے بعد سلام پھیراہو۔
(٢) مسبوق نے جان بوجھ کرسلام نہ پھیراہو۔
یعنی اس کو یاد نہیں ہے کہ اس کی رکعت چھوٹ گئی ہے اور سلام پھیر دیا ہو تو اس کی تین صورتیں ہے۔
(١) امام سے پہلے سلام پھیر دی ہو۔
(٢) امام کے ساتھ ساتھ سلام پھیری ہو۔
پہلی اور دوسری صورت میں مسبوق نے امام سے پہلے لفظ السلام کہہ دیا یا امام کے ساتھ ساتھ کہا تو چوں کہ وہ اس وقت مقتدی ہے اس لیے سہو کی صورت میں اس سلام کی وجہ سے اس پر کوئی سجدہ سہو واجب نہ ہوگا۔
(٣) امام کی سلام کے بعد سلام پھیراہو۔
اس صوت میں مسبوق اگر امام کے سلام پھیرنے کے بعد (جیساکہ عموماً ہوتاہے) بھول سے سلام پھیر لے، لیکن کوئی ایسا عمل نہ کرے جس سے نماز فاسد ہوجاتی ہو تو آخر میں سجدہ سہو واجب ہوگا اور نماز ہوجائے گی،نماز توڑ کر دوبارہ دوہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
لیکن عام طور پر مقتدی اور مسبوق عادتاً امام کے سلام کے بعد ہی سلام پھیرتا ہےاورسلام میں تاخیر ہوہی ہوجاتی ہے عجلت نہیں ہو پاتی اس لئے بہتر ہے کہ ہرحال میں سجدئہ سہو کر لے۔
مسؤلہ صورت میں مسبوق نے امام کے ساتھ بھول سے پہلی سلام پھیردی اب یاد آنے پر اس نے مابقیہ نماز کو پورا کیا تو آخر میں اس پر سجدہ سہو واجب ہوگیا تھا اس نے سجدہ سہو نہیں کیا تو اب وہ نماز واجب الاعادہ ہوگی، لہذا اس کو لوٹا واجب ہے۔
ماخوذ از شامی
( ولو سلـم ساهياً ) قيد به لأنه لو سلم مع الإمام على ظن أن عليه السلام معه فهو سلام عمد فتفسد كما في البحر عن الظهيرية . قوله : ( لزمه السهو ) لأنه منفرد في هذه الحالة ح . قوله : ( وإلا لا ) ای وان سلم معہ اوقبلہ لا یلزمہ لا نہ مقتدفی ھاتین الحالتینح وفی شرحٔ المنیۃ عن المحیط ان سلم فی الاول مقارناً لسلا مہ فلا سہو علیہ لانہ مقتد بہ وبعدہ یلزم لانہ منفرد اھ ثم قال : فعلى هذا يراد بالمعية حقيقتها ، وهو نادر لأنه مقتد الوقوع ا هـ
قلت: یشیر إلی أن الغالب لزوم السجود؛ لأن الأغلب عدم المعیة، وھذا مما یغفل کثیر من الناس فلیتنبہ لہ (کتاب الصلاة، آخر باب الإمامة ، ٢/٣٥٠ ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
فتاوی عالمگیری میں ہے۔
(ومنها) أنه لو سلم ساهياً أو قبله لا يلزمه سجود السهو وإن سلم بعده لزمه. كذا في الظهيرية هو المختار. كذا في جواهر الأخلاطي. وإن سلم مع الإمام على ظن أن عليه السلام مع الإمام فهو عمد فتفسد. كذا في الظهيرية.''(الفتاوى الهندية ١/٩١ الفصل السابع فی المسبوق واللاحق، ط: رشیدیه)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض: مفتی آصف گودھروی
خادم: مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں