پیر، 14 مارچ، 2022

مسجد کا پرانا سامان فروخت کرنا جائز ہے؟ سوال نمبر ٢٢٦

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں ذیل کے مسٔلے میں مفتیان کرام

ایک مسجد ہے اس کی ازسرنو تعمیر کرنی ہے اس کا جو پرانا سامان ہے اسکو بدلنا چاہتے ہیں کیا اس کے پرانے سامان کو کسی کو پیسے لیکر دے سکتے ہیں یا نہیں یا کسی دوسری مسجد میں بغیر قیمت کے دیدیں؟؟

سائل: عبد الحفیظ چوہان جموں وکشمیر



الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


مسجدکے لیے وقف کی گئی اور خریدی گئی اشیاء کو اسی مسجد میں استعمال کیا جانا ضروری ہے، اگر وہ چیز مسجد کے کام کی نہ ہو اور ضائع ہونے کا اندیشہ ہو سنبھالنا مشکل ہو تو مسجد کی انتظامیہ باہمی مشورے اور اتفاق سے اس سامان کو بازاری قیمت کے مطابق فروخت کرکے اس کے عوض میں حاصل شدہ رقم کو مسجد کی دیگر اشیاء کو خریدنے میں خرچ کر سکتی ہے۔



مسؤلہ صورت میں اگر سامان مسجد کے استعمال کے قابل نہ رہا ہو اور ان چیزوں کی ضرورت نہ رہے اور رکھنے کی صورت میں اس کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو تو اسے بازاری قیمت کے مطابق فروخت کرکے اس کی رقم اسی مسجد کی ضروریات میں خرچ کی جاسکتی ہے۔

 

البحر الرائق میں ہے۔

ولو أن أهْل الْمسجد بَاعوا حشيش الْمسجد أو جنازة أو نعشا صار خلقا ومن فعل ذلك غائب اختلفوا فيه قال بعضهم يجوز والأولى أن يكون بإذن القاضي وقال بعضهم لا يجوز إلا بإذن القاضي وهو الصحيح. اه ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وبہ علم أن الفتویٰ علی قول محمدؒ فی آلات المسجد (أی فی جواز نقلھا للضرورۃ) وعلی قول أبی یوسفؒ فی تابید المسجد۔ (البحر الرائق ۵/١۵١  طبع رشیدیہ کوئٹہ)


فتاوی عالمگیری میں ہے۔

وذکر أبو اللیث في نوازله: حصیر المسجد إذا صار خلقاً واستغنی أهل المسجد عنه وقد طرحه إنسان إن کان الطارح حیاً فهو له وإن کان میتاً ولم یدع له وارثاً أرجو أن لا بأس بأن یدفع أهل المسجد إلی فقیر أو ینتفعوا به في شراء حصیر آخر للمسجد. والمختار أنه لایجوز لهم أن یفعلوا ذلک بغیر أمر القاضي، کذافي محیط السرخسي۔ (فتاوی عالمگیری ٢/٤۵٨ ط: دارالفکر بیروت ) واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: