سوال
زکوۃ کس پر فرض ہے اور انسان پر زکوۃ فرض ہونے کے لئے کیا شرائط ہے؟ اور سونے چاندی کا نصاب کیا ہے؟ اس زمانے کے حساب سے کتنے گرام سونا یا چاندی ہو تو زکوۃ واجب ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
زکوۃ اسلام کے پانچ ارکان میں سے ايک رکن ہے، اور نماز کے بعد اسلام کا اہم ترین رکن ہے، جس کی فرضیت کا انکار کرنے والا کافر ہے، لغوی اعتبار سے زکوٰۃ کا لفظ دو معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے، اس کا ایک معنی پاکیزگی، طہارت اور پاک صاف ہونے یا کرنے کے ہے اور دوسرا معنی نشوونما اور ترقی کا ہے۔ (المعجم الوسيط)
دینی اصطلاح میں زکوۃ ایسی مالی عبادت ہے جو ہر صاحب نصاب مسلمان پر اپنے مال کا چالیسواں حصہ یعنی ڈھائی پرسینٹ نکالنا فرض ہے، اور اسے غریب، یتیم اور مستحقین کو ادا کرنا ضروری ہے، اور اس کا بنیادی مقصد غریبوں کی مدد، معاشرتی فلاح و بہبود میں صاحب ثروت لوگوں کا حصہ ملانا اور مستحق لوگوں تک زندگی گزارنے کا سامان بہم پہنچانا ہے۔
انسان پر زکوۃ کی فرضیت کے لئے یہ چیزیں ضروری ہے۔
(١) آزاد ہو، لیکن یہ شرط اس زمانے میں نہیں ہے۔
(٢) مسلمان ہو (کافر پر ز کوۃ واجب نہیں ہے)
(٣) سمجھدار ہو (پاگل پر زکوۃ واجب نہیں ہے جب کہ اس کا پاگل پن مسلسل طاری ہو یعنی وہ برابر پاگل ہی رہتاہو)
(٤) بالغ ہو (بچہ پر زکوۃ واجب نہیں ہے)
زکوۃ فرض ہونے کے لئے مالیت کے اعتبار سے ان شرائط کا پایا جانا ضروری ہے۔
(١) ملکیت تام ہو (لہذا جو مال فی الحال اپنی ملکیت اور قبضے میں نہ ہو اس پر زکوۃ واجب نہیں ہے)
(٢) نصاب ضرورت اصلیہ سے زائد ہو (استعمالی سازوسامان پرز کو ۃ واجب نہیں ہے)
(٣) نصاب قرض سے خالی ہو (یعنی قرض کی رقم کو الگ کرنے کے بعد نصاب مکمل ہوگا تو ہی زکوۃ واجب ہے)
(٤) مال نامی ہو (یعنی وہ ایسا مال ہو کہ جس میں بڑھنے کی صلاحیت ہو خواہ وہ اپنی خلقت کے اعتبار سے ہو جیسے سونا چاندی یافعلی اعتبار سے ہو جیسے مال تجارت مویشی وغیرہ)
نصاب سے مراد یہ ہے کہ ساڑھے سات تولہ سونا ہو یا ساڑھے باون تولہ چاندی ہویا دونوں کی مالیت کے برابر یا دونوں میں سے ایک کی مالیت کے برابرنقد مال ہو، لہذا زکوة ہر اس مسلمان عاقل بالغ پر فرض ہے جس کے پاس مندرجہ ذیل چیزوں میں سے کوئی چیز درج شدہ تفصیل کے مطابق موجود ہو :
ا۔۔۔ سونا جبکہ ساڑھے سات تولہ(۸۷/٤٨ 87.48 گرام) یا اس سے زیادہ ہو۔
۲۔۔۔ چاندی جبکہ ساڑھے باون تولہ ہو(٦١٢/٣٦ 612.36 گرام) یا اس سے زیادہ ہو۔
۳۔۔۔ روپیہ، پیسہ، جبکہ اس کی مالیت ساڑھےسات تولہ سونا (۸۷/٤٨ 87.48 گرام) یا ساڑھے باون تولہ چاندی(٦١٢/٣٦ 612.36 گرام) کی مالیت کے بقدر ہو.
٤۔۔۔ مالِ تجارت جبکہ اس کی مالیت ساڑھےسات تولہ سونا (۸۷/٤٨ 87.48 گرام) یا ساڑھے باون تولہ چاندی(٦١٢/٣٦ 612.36 گرام) کی مالیت کے برابر ہو۔
اصل چاندی میں دوسو درہم یا اس کی مالیت اور سونا ہو تو بیس دینار یا اس کی مالیت ہو تو زکوۃ واجب ہوتی ہے۔
ایک درہم ٣/٠٦١ ( 1 6 0 . 3 )
اس حساب سے ٢٠٠ درہم ٦١٢/٣٦ ( 612.36 ) گرام چاندی ہوتا ہے۔
ایک دینار ٤/٣٧۵( 4.375 )اس حساب سے ۲۰ دینار ۸۷/٤٨ ( 87.48 ) گرام سونا ہوتا ہے۔
(یہ اوزان اثمارالهدایہ ج ۲ ص ۵۰٦ بحوالہ احسن الفتاوی میں بسط الباع تحقیق الساع ج ۴ ص ۳۸۵ سے ٤١٦ تک ہے اس کے تحت جو بحث ہے اس کو بالتفصیل دیکھا جاۓ فائدہ ہوگا)
اوراگر کسی کے پاس ساڑھے سات تولہ سے کم سونا ہے اور کچھ بھی نہیں ہے تو اس پر زکوہ واجب نہیں ہے، البتہ کچھ سونا، کچھ چاندی ہے، یا کچھ سونا کچھ نقد روپے ہیں، یا کچھ سونے کے ساتھ کچھ مالِ تجارت ہے، یا درج بالا چار میں سے کوئی سے بھی دو یا تین یا چاروں مل کر ساڑھے باون تولے (٦١٢/٣٦ 612.36 گرام) چاندی کی مالیت کے بقدر ہے تو زکوہ واجب ہے، ورنہ نہیں.
فتاویٰ عالمگیری میں ہے۔
(ومنها الحرية حتى لا تجب الزكوة على العبد ...... ومنها الاسلام ....... ومنها الـعـقـل والبـلـوغ فـلـيــس الـزكـوة عـلـى الـصبـى والـمـجـنـون فـتـاوى عالمگیری ١٧٢ ١٧١ / ۱)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے۔
( ومنها الملك التام وهو ما اجتمع فيه الملك واليد أما اذا وجد الملك دون اليـد ـ ـ لا تـجـب فيه الزكوة ...... ومنها فراغ المال عن الحاجة الاصليه ...... ومنها فراغ عن الدين ....... ومنها كون النصاب نامياًـ (فتاویٰ عالمگیری ۱۷۲۔١٧٤ /١)
الھدایة کتاب الزکوة میں ہے۔
وفی الھدایة الزکوة واجبة علی الحر العاقل البالغ المسلم اذا ملک نصابا ملکا تاما و حال علیہ الحول، (الھدایة کتاب الزکوة ١/٢٠٠)
فتاوی عالمگیری میں ہے۔
تجب فی کل مائتی درھم خمسة دراھم و فی کل عشرین مثقال ذھب والمثقال ھو الدینارعشرون قیراطا۔ (فتاوی عالمگیری١/١٧٨)
ایضاً
وهي واجبة على الحر المسلم المالك لمقدار النصاب فاضلاً عن حوائجه الأصلية، كذا في الاختيار شرح المختار، ولايعتبر فيه وصف النماء، ويتعلق بهذا النصاب وجوب الأضحية، ووجوب نفقة الأقارب، هكذا في فتاوى قاضي خان۔ (الفتاوى الهندية ١/١٩١)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں