ہفتہ، 12 مارچ، 2022

کونسا خون کپڑوں پر لگے تو اس سے ‌نما‌ز نہیں ہوتی؟ سوال نمبر ٢٢١

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب آج صبح نماز پڑھنے کے لئے آیا تو دیکھا کہ میری سفید بنیان پر ایک مچھر کے مارنے جیسا خون لگا پڑا ہے جو بمشکل 1½  کی لکیر کے بقدر ہے اگر میں اس کو پہنے ہوئے ہی نماز ادا کرتا تو کیا نماز ادا ہوجاتی؟ 

سائل: محمد عبداللہ بن رحیم بخش


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


خون کی دوقسمیں ہیں ایک دم مسفوح یعنی بہنے والا خون اور دوسرا دم غیر مسفوح یعنی جو خون بہنے والا نہ ہو


جن جانور میں بہنے والا خون ہے یعنی ان میں خون اتنی مقدار میں ہو کہ وہ بہہ سکے کسی کپڑے وغیرہ پر لگ جائے تو وہ نجس ہو جاتا ہے


اور ایسے جانور جن میں بہنے والا خون نہیں ہوتا۔ بلکہ معمولی سا خون ہوتا ہے ان کا حکم یہ ہے کہ  کسی کپڑے وغیرہ پر لگ جائے تو وہ کپڑا نجس نہیں ہوگا۔ اس لیے مچھر یا مکھی کا خون کپڑے پر لگنے سے وہ نجس نہیں ہو گا، اس لئے کہ ان میں بہنے والا خون نہیں ہوتا۔


الفتاوى الهندية میں ہے۔

ودم البق والبراغيث والقمل والكتان  طاهر وإن كثر، كذا في السراج الوهاج۔ (الفتاوى الهندية ١/٤٦)


شامی میں ہے۔

قوله: (وقمل وبرغوث وبق) أي وإن كثر. بحر ومنية. وفيه تعريض بما عن بعض الشافعية أنه لا يعفى عن الكثير منه، وشمل ما كان في البدن والثوب تعمد إصابته أو لا ا ه‍. حلية. وعليه فلو قتل القمل في ثوبه يعفى عنه، وتمامه في الحلية. ولو ألقاه في زيت ونحوه لا ينجسه، لما مر في كتاب الطهارة من أن موت ما لا نفس له سائلة في الاناء لا ينجسه. وفي الحلية: البرغوث بالضم والفتح قليل۔ (فتاوی شامی ١/٥٢٤) واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا



کوئی تبصرے نہیں: