سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
مفتی صاحب میں جس مسجد میں نماز پڑھتاہو اس مسجد کے امام صاحب ہفتہ میں دو تین مرتبہ فجر کی نماز میں بھول کر قرات کے درمیان دو تین آیتیں چھوڑ چھوڑ کر آگے سے پڑھلیتے ہیں ایسی غلطیاں باربار کرتے رہتےہیں اور وہ محنت بھی کرتے رہتےہیں تو کیا ایسے امام کو رکھنا چاہیے یا ایسے امام کے پیچھے نماز درست ہے اور وہ یہ بھ کہتے ہیں کہ چھوٹی ہوئی آیت کا لقمہ مت دو اس سے نماز میں خلل واقع ہوتا ہے اور گباھٹ سے مزید غلظیاں جاتی ہے تو کیا مقتدیوں کو لقمہ نہیں دینا چاہیے، تفصیل سے جواب عنایت فرمائیں بڑی نوازش ہوگی
سائل: زبیر احمدآباد
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
تلفظ کی تبدیلی یا الفاظ کی کمی بیشی یا آیت کو آگے پیچھے کرنے کی وجہ سے معنیٰ تبدیل نہ ہو یا معنیٰ تو تبدیل ہو لیکن تغیر فاحش نہ ہو تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی،
اگر اس طرح سے پڑھے کہ جس سے ایسے معنی پیدا ہوجائیں، جن کا اعتقاد کفر ہوتا ہے، تو نماز فاسد ہو جائے گی، اور اگر ایسا معنی پیدا نہ ہو جن کا اعتقاد کفر ہوتا ہے، تو نماز فاسد نہیں ہوتی، اور عام طور پر آیت وغیرہ چھوٹنے سے ایسے معنی پیدا نہیں ہوتے کہ جن کا اعتقاد کفر ہو، لہذا نمز درست ہوجائے گی۔
مقتدی کا لقمہ دینا
فرض نماز میں امام مقتدی کو لقمہ دینے پر مجبور نہ کریں اور مقتدی بھی امام کو لقمہ دینے میں عجلت سے کام نہ لیں یعنی اگر امام سے قرات میں ایسی غلطی نہ ہورہی ہو جس سے نماز ہی فاسد ہو جائے، یا امام قرات کرتے وقت بھول کی وجہ سے رک جائے تو مقتدی کو فوراً لقمہ دینا مکروہ ہے، لیکن اگر امام نماز میں قرأة کے اندر غلطی کرے تو مقتدی اس کو لقمہ دے سکتا ہے اور اسے امام لے سکتا ہے، مقتدی نے لقمہ دیدیا اور امام نے لقمہ قبول کرلیا تو نماز ہو جائے گی۔
فتاوی بنوریہ فتوی نمبر : ١٤٣٩٠٩٢٠١٨١١ میں لکھاہے کہ یہ بات ملحوظ رہے کہ مقتدی کے لیے امام کو لقمہ دینے (غلطی بتانے) میں جلدی کرنا مکروہ ہے ، اسی طرح امام کے لیے مقتدی کی راہ نمائی اور لقمہ کا انتظار کرنا بھی مکروہ ہے، ایسی صورت میں امام کو چاہیے کہ وہ کسی اور سورت سے ضروری قراءت کر لے، یا کوئی اور سورت پڑھ لے، یا اگر واجب قراءت کی مقدار پڑھ لی ہو تو رکوع کرلے۔ اسی طرح مقتدیوں کو بھی چاہیے کہ جب تک لقمہ دینے کی شدید ضرورت نہ ہو ، امام کو لقمہ نہ دیا کریں، اور شدید ضرورت سے مراد یہ ہے کہ مثلاً امام غلط پڑھ کر آگے بڑھنا چاہتا ہے یا رکوع بھی نہیں کررہا اور خاموش کھڑا ہے تو اس صورت میں لقمہ دے دیا کریں۔
الفتاوى الهندية میں ہے۔
والصحيح أن ينوي الفتح على إمامه دون القراءة، قالوا: هذا إذا أرتج عليه قبل أن يقرأ قدر ما تجوز به الصلاة، أو بعدما قرأ ولم يتحول إلى آية أخرى، وأما إذا قرأ أو تحول ففتح عليه تفسد صلاة الفاتح، والصحيح أنها لا تفسد صلاة الفاتح بكل حال ولا صلاة الإمام لو أخذ منه على الصحيح. هكذا في الكافي.
ويكره للمقتدي أن يفتح على إمامه من ساعته ؛ لجواز أن يتذكر من ساعته فيصير قارئاً خلف الإمام من غير حاجة. كذا في محيط السرخسي. ولا ينبغي للإمام أن يلجئهم إلى الفتح ؛ لأنه يلجئهم إلى القراءة خلفه وإنه مكروه، بل يركع إن قرأ قدر ما تجوز به الصلاة، وإلا ينتقل إلى آية أخرى. كذا في الكافي. وتفسير الإلجاء: أن يردد الآية أو يقف ساكتاً. كذا في النهاية۔ (الفتاوى الهندية ١/٩٩)
فتاوی شامی میں ہے۔
يكره أن يفتح من ساعته كما يكره للإمام أن يلجئه إليه، بل ينتقل إلى آية أخرى لا يلزم من وصلها ما يفسد الصلاة أو إلى سورة أخرى أو يركع إذا قرأ قدر الفرض كما جزم به الزيلعي وغيره وفي رواية قدر المستحب كما رجحه الكمال بأنه الظاهر من الدليل، وأقره في البحر والنهر، ونازعه في شرح المنية ورجح قدر الواجب لشدة تأكده. (رد المحتار ٣/٨٢)
المحيط البرهاني میں ہے۔
ولا ينبغي للمقتدي أن يفتح على الإمام من ساعته؛ لأنه ربما يتذكر الإنسان من ساعته فتكون قراءته خلفه قراءة من غير حاجة۔ (المحيط البرهاني ١/٣٨٩)
البحر الرائق میں ہے۔
قالوا يكره للمقتدي أن يفتح على إمامه من ساعته وكذا يكره للإمام أن يلجئهم إليه بأن يقف ساكتا بعد الحصر أو يكرر الآية بل يركع إذا جاء أوانه أو ينتقل إلى آية أخرى لم يلزم من وصلها ما يفسد الصلاة أو ينتقل إلى سورة أخرى (البحر الرائق: ٢/٦)
إمداد المفتین میں ہے۔
قال في شرح المنیة الکبیر القاعدة عند المتقدمین أن ما غیره تغیراً یکون اعتقاده کفراً تفسد في جمیع ذلک سواء کان في القرآن أو لم یکن إلا ما کان من تبدیل الجمل مفصولاً بوقف تام، ثم قال بعد ذلک: فالأولی الأخذ بقول المتقدمین۔ (إمداد المفتین، ص ۳۰۳)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں