بدھ، 2 مارچ، 2022

نکاح کی اجرت کی شرعی مقدار کتنی ہے سوال نمبر ١٩٥

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

مسئلہ یہ ہے کہ نکاح کے اندر نکاح پڑھانے کی اجرت امام صاحب اپنی مرضی سے طے  کریں گے 

یا جو حضرات نکاح پڑھوانے آئے ہیں وہ طے کریں گے یاشرعی مقدار کیاہے؟

جیساکہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ دینے والے کم پیسے کہتے ہیں اوراماصاحب زیادہ کہتے ہیں تو پھر جھگڑا ہوتا ہے، اور اگر امام صاحب نے خود اجرت طے کی تو کیا دینے والوں کو اتنی ہی اجرت دینی ضروری ہوگی؟

سائل: ابومعاذ جمالی ہریدوار



الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


نکاح کی اجرت کا لینا جائز ہے اور نکاح پڑھانا یہ ایک عقد اجارہ کی قبیل سے ہیں لہذا اس میں جانبین کی رضامندی ضروری ہے امام اپنی طرف سے بھی اجرت متعین کرسکتا ہے کیوں کہ نکاح پڑھانے والے کے لئے خطبہ مسنونہ کے بعد ایجاب و قبول کرانا رجسٹر پر دولہا دولہن سے دستخط کرانا ، وکیل اور گواہان سے دستخط کرانا پھر خود دستخط کرکے رجسٹر کو مکمل کرنا، ایک کاپی لڑکی والوں کو اور ایک کاپی لڑکے والوں کو دینا اور ایک کاپی اپنے پاس ریکارڈ میں رکھنا، یہ سب امور نکاح پڑھانے والے کے ذمہ ہوتے ہیں اور فقہاء متاخرین نے ان امور کی بجاآوری پر اجرت لینے کی اجازت دی ہے۔


کفایت المفتی میں (نکاح خوانی کی اجرت کی شرعی حیثیت) کے عنوان کے تحت لکھاہے۔

سوال: نکاح پڑھانے والے کو کچھ روپیہ نقد دینا سنت ہے یا مستحب؟ اور  نکاح پڑھانے والا نکاح پڑھانے سے پہلے کچھ نقد روپیہ مقرر کرے تو یہ جائز ہے یا نہیں؟ اور پھر جبراً وصول کرسکتا ہے یا نہیں؟   

جواب: نکاح پڑھانے والے کو نکاح خوانی کی اجرت دینا جائز ہے، اور نکاح خواں پہلے اجرت مقرر کرکے  نکاح پڑھائے تو یہ بھی جائز ہے، اور اس کو مقرر شدہ اجرت جبراً وصول کرنے کا حق ہے۔ (کتاب النکاح، ٥ / ١٥٠)


شرعی مقدار کے سلسلہ میں علامہ شامی نے اور دیگر کتب فتاوی میں لکھاہے کہ اگر عورت باکرہ ہے تو ایک دینار اور ثیبہ ہے تو آدھا دینار لے سکتا ہے۔

دینار کا لفظ آتا ہے، اس سے مراد عہد نبوی کا دینار ہوتا ہے، اس کی مقدار آج کے مروجہ اوزان کے حساب سے چار گرام تین سو چوہتر ملی گرام سونا ہوتی ہے (الاوزان المحمودة، ص: ٦٩)

چار گرام تین سو چوہتر ملی گرام سونے کی قیمت معلوم کرلی جائے باکرہ کے نکاح کی اجرت زیادہ سے زیادہ اتنی لے سکتا ہے اور ثیبہ ہے تو اس کا آدھا لےگا۔ واللہ اعلم بالصواب۔


فتاوی عالمگیری میں ہے 

وکل نکاح باشرہ القاضی وقد وجبت مباشرتہ علیہ، کنکاح الصغار والصغائر فلایحل لہ أخذ الأجرة علیہ ومالم تجب مباشرتہ علیہ حل لہ أخذ الآخرة علیہ، کذا فی المحیط، واختلفوا فی تقدیرہ والمختار للفتوی أنہ إذا عقد بکراً یاخذ دیناراً وفی الثیب نصف دیناراً ویحل لہ ذلک ہکذا قالوا ۔ کذا فی البرجندی (فتاوی عالمگیری ٣٤٥/۳)


البحر الرائق میں ہے۔

قال في البزازية من كتاب القضاء وإن كتب القاضي سجلا أو تولى قسمة وأخذ أجرة المثل له ذلك ...وذكر عن البقالي في القاضي يقول إذا عقدت عقد البكر فلي دينار وإن ثيبا فلي نصفه أنه لا يحل له إن لم يكن لها ولي فلو كان ولي غيره يحل بناء على ما ذكروا۔ (البحر الرائق - ٥/٢٦٣)


اسی طرح شامی میں ہے۔

والأجرة إنما تكون في مقابلة العمل. (رد المحتار  ٤/٣٠٧) 


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: