سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
مسئلہ یہ ہے کہ ایک ایک گاؤں میں دس بارہ مسجدیں ہیں اور تین مسجدوں میں جمعہ کی نماز ہوتی ہیں باقی مسجدوں میں جمعہ نہیں ہوتا لوگ نہیں جاتے ہیں تو ایسی صورت میں ان مسجدوں میں کیا کیا جائے گا ظہر کی نماز پڑھی جائے یا پھر جمعہ ہی میں ادا کیا جائے
چونکہ جن مساجد میں لوگ جاتے ہیں وہ بڑی مساجد ہیں تو اب کیا صورت ہوگی بقیہ مساجد کی ۔۔۔والسلام
سائل: ابو معاذ جمالی ہریدوار
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
جس قصبہ میں صحت جمعہ کی تمام شرائط پائی جاتی ہیں تو اس گاوٴں میں ایک سے زائد مسجدوں میں بھی جمعہ کی نماز جائز ہے کیوں کہ جس جگہ جمعہ جائز ہو وہاں متعدد مساجد میں جمعہ درست ہوتا ہے لیکن بلا ضرورت ایسا کرنے سے احتراز کریں کیوں کہ اقامتِ جمعہ شعائرِ دین میں سے ہے، اس کا مقصد عظیم یہ ہے کہ شعائرِ دین کا عظیم الشان مظاہرہ ہو اور یہ بات تب ہو سکتی ہے کہ جمعہ عظیم الشان جماعت کے ساتھ ادا کیا جائے،
جمعہ کے دن ظہر کی نماز باجماعت ادا کرنا درست نہیں، سخت مکروہ وناجائز ہے، بلکہ جن مساجد میں جمعہ نہیں ہوتا، جمعہ کے دن جمعہ کے وقت وہ مساجد بند کردینی چاہیے تاکہ جمعہ کے دن وہاں ظہر کی نماز باجماعت نہ ادا کی جاسکے۔
مسؤلہ صورت میں جن مساجد میں جمعہ نہیں ہوتی ان مساجد کو جمعہ کی نماز ختم ہونے تک بند کردی جائے وہاں پر ظہر کی نماز باجماعت پڑھنا درست نہیں مکروہ ہے
شامی میں ہے۔
وتوٴدی في مصر واحد بمواضع کثیرة مطلقاً علی المذھب، وعلیہ الفتوی، شرح المجمع للعیني وإمامة فتح القدیر دفعاً للحرج (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الجمعة،١٤ ١٥ /٣ ط: مکتبة زکریا دیوبند)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
و تؤدى الجمعة في مصر واحد في مواضع كثيرة و هو قول أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله تعالى وهو الأصح۔ ( کتاب الصلاۃ الباب السادس عشر فی صلاۃ الجمعۃ جلد ١/١٤٥ ط دار الفکر)
شامی میں ہے۔
وکرہ تحریما لمعذور ومسجون ومسافر أداء ظھر بجماعة في مصر قبل الجمعة وبعدھا لتقلیل الجماعةوصورة المعارضة وأفاد أن المساجد تغلق یوم الجمعة إلا الجامع، وکذا أھل مصر فاتتھم الجمعة فإنھم یصلون الظھر بغیر أذان ولا إقامة ولا جماعة۔ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الجمعة،٣٢ ٣٣ /٣ ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
البحر الرائق میں ہے۔
وأشار المصنف إلى أن المساجد تغلق يوم الجمعة إلا الجامع لئلا يجتمع فيها جماعة كذا في السراج الوهاج. (البحر الرائق: ٢/١٦٦) واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں