منگل، 15 مارچ، 2022

نماز میں موبائل کی گھنٹی بجے تو اپنا موبائل بند کرسکتا ہے سوال نمبر ٢٣١

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اور مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ نماز کے اندر اگر کسی کو فون آیا تو کیا نماز میں اپنا فون بند کر سکتا ہے اس سے اس کے نماز پر اس کے نماز پر کوئی اثر ہونگا یا نہیں

سائل: محمد صادق رشیدی جالنہ میہاراشٹر


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


دوران نماز عملِ کثیر کا ارتکاب کرنے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے،

لیکن عملِ کثیر کیا ہے اس کی تعریف میں فقہاءِ کرام کے مختلف اقوال ہیں۔


(١) جس کام کو کرنے میں عام طور پر دونوں ہاتھوں کی ضرورت پڑجائے، مثلاً عمامہ باندھنا، ازار بند باندھنا وغیرہ، ایسے کام عمل کثیر شمار ہوتے ہیں،


(٢) ایک رکن کی مقدار یعنی تین بار سبحان ربی الاعلیٰ کہنے کے وقت تک تین دفعہ ہاتھ کو حرکت دیجائے تو یہ عملِ کثیر ہے ورنہ قلیل ہے۔


(٣) مبتلاء بہ کی رائے پر چھوڑ دیا جائے یعنی جو شخص نماز پڑھتا ہے وہ اس کو کثیر سمجھے تو کثیر اور قلیل سجھے تو وہ قلیل ہوگا۔


(٤) نمازی کا کوئی ایسا کام کرنا کہ دور سے دیکھنے والے کو یقین ہو جائے  کہ یہ کام کرنے والا نماز نہیں پڑھ رہا ہے۔


اکثر علما کے نزدیک مفتیٰ بہ اور راجح قول یہ ہی ہے کہ دور سے دیکھنے والا شخص نمازی کو اس عمل کی وجہ سے یقین یا غالب گمان کے درجے میں یہ سمجھے کہ یہ نماز میں نہیں ہے، نماز سے باہر ہے تو وہ عمل کثیر ہے، اور اگر اسے محض شک ہو یا شک بھی نہ ہو؛ بلکہ اس عمل کے باوجود دیکھنے والا اسے نماز ہی میں سمجھے تو وہ عمل قلیل ہے،


صورت مسئولہ میں نماز سے پہلے نمازی کو موبائل بند کرلینا چاہیے یا سائلنٹ کرلینا چاہیے، تاکہ نماز میں فون آنے سے اپنے کو یا آس پاس کے کسی نمازی کو کوئی تشویش نہ ہو، لیکن اگر سائلنٹ کرنا یا آف کرنا بھوجائے تو ایسے موقعہ پر عمل قلیل سے جیب ہی میں ہاتھ ڈال کر موبائل بند کردے یا فون کاٹ دینے سے نماز میں کوئی فرق نہیں آئے گا اور اسی طرح نماز کے دوران ایک ہاتھ سے موبائل نکال کر  مختصر وقت میں اسکرین دیکھنے اور  گھنٹی بند کردینے سے بھی نماز فاسد تو نہیں ہوتی، البتہ نماز میں کراہت آجاتی ہے، لیکن اگر دونوں ہاتھوں سے موبائل پکڑا،  یا ایک ہاتھ سے ایسے انداز میں پکڑ کر اسکرین کو دیکھا کہ دور سے  دیکھنے والا یہ سمجھے کہ یہ شخص  نماز  نہیں پڑھ رہا ہے تو نماز فاسد ہوجائے گی، لہذا عملِ قلیل کے ذریعے موبائل کو سائلنٹ پر کردیا جائے، یا سوئچ آف کرنے میں عملِ کثیر نہ ہو تو اس کی بھی اجازت ہوگی۔


الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے۔

(و) يفسدها (كل عمل كثير) ليس من أعمالها ولا لإصلاحها، وفيه أقوال خمسة أصحها (ما لايشك) بسببه (الناظر) من بعيد (في فاعله أنه ليس فيها) وإن شك أنه فيها أم لا فقليل۔


(قوله: وفيه أقوال خمسة أصحها ما لا يشك إلخ) صححه في البدائع، وتابعه الزيلعي والولوالجي. وفي المحيط أنه الأحسن. وقال الصدر الشهيد: إنه الصواب. وفي الخانية والخلاصة: إنه اختيار العامة. وقال في المحيط وغيره: رواه الثلجي عن أصحابنا حلية۔


القول الثاني أن ما يعمل عادة باليدين كثير وإن عمل بواحدة كالتعميم وشد السراويل وما عمل بواحدة قليل وإن عمل بهما كحل السراويل ولبس القلنسوة ونزعها إلا إذا تكرر ثلاثا متوالية وضعفه في البحر بأنه قاصر عن إفادة ما لا يعمل باليد كالمضغ والتقبيل. الثالث الحركات الثلاث المتوالية كثير وإلا فقليل۔


الرابع ما يكون مقصودا للفاعل بأن يفرد له مجلسا على حدة. قال في التتارخانية: وهذا القائل: يستدل بامرأة صلت فلمسها زوجها أو قبلها بشهوة أو مص صبي ثديها وخرج اللبن: تفسد صلاتها.


الخامس التفويض إلى رأي المصلي، فإن استكثره فكثير وإلا فقليل قال القهستاني: وهو شامل للكل وأقرب إلى قول أبي حنيفة، فإنه لم يقدر في مثله بل يفوض إلى رأي المبتلى. اهـ. قال في شرح المنية: ولكنه غير مضبوط، وتفويض مثله إلى رأي العوام مما لا ينبغي، وأكثر الفروع أو جميعها مفرع على الأولين. والظاهر أن ثانيهما ليس خارجا عن الأول، لأن ما يقام باليدين عادة يغلب ظن الناظر أنه ليس في الصلاة، وكذا قول من اعتبر التكرار ثلاثا متوالية فإنه يغلب الظن بذلك، فلذا اختاره جمهور المشايخ. اهـ.


(قوله: ما لا يشك إلخ) أي عمل لا يشك أي بل يظن ظنا غالبا شرح المنية وما بمعنى عمل، والضمير في بسببه عائد إليه والناظر فاعل يشك، والمراد به من ليس له علم بشروع المصلي بالصلاة كما في الحلية والبحر. وفي قول الشارح من بعيد تبعا للبدائع والنهر إشارة إليه لأن القريب لا يخفى عليه الحال عادة فافهم (قوله: وإن شك) أي اشتبه عليه وتردد۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ٢/٣٨۵)


الفتاوی الھندیة میں ہے۔

والثالث أنہ لو نظر إلیہ ناظر من بعید إن کان لایشک أنہ في غیر الصلاة فہو کثیر مفسد، وإن شک فلیس بمفسد، وہذا ہو الأصح، ھکذا فی التبیین، وھو أحسن کذا محیط السرخسي، وھو اختیار العامة کذا في فتاوی قاضي خان والخلاصة (الفتاوی الھندیة، کتاب الصلاة، الباب السابع فیما یفسد الصلاة وما یکرہ فیھا، الفصل الثاني ۱: ۱۰۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: