بدھ، 2 مارچ، 2022

تقریر و خطابت پر اجرت لینا سوال نمبر ١٩٤

 سوال

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ حضرات علماء کرام ایک مسئلہ معلوم کرنا ہے کچھ مقرر حضرات جلسے میں جانے سے پہلے ہی رقم طے کرکے جاتے ہیں تو کیا ایسا کرنا شرعاً درست ہے؟

سائل: شاہباز سھارنپور


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


مقررین کے لئے وعظ و نصیحت پر اجرت لینے کو متأخرین علماء نے جائز لکھا ہے اس لیے وعظ پر متعارف اجرت لینا جائز و مباح ہے چاہے پہلے سے متعین کردیں یا آکر پھر متعین کریں مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نے ایک سوال کے جواب میں مستقل اس کی خدمت کی شرط لگائی ہے یعنی وعظ و نصیحت کی مستقلاً خدمت ہے تو اجرت جائز ہے اور اگر کبھی وعظ کردیا اور اجرت طلب کریں تو جائز نہیں ہے، دیکھئے امداد الفتاوی قدیم  ۳/ ۳۸۸۔

سوال 

 امامت اور وعظ پر اجرت لینی جائز ہے یا نہیں ؟

الجواب: استیجار علی الطاعات جو ناجائز ہے اس میں سے امامت مستثنیٰ ہے، اور وعظ کو بھی بعض نے مستثنیٰ کہا ہے، اور بعض نے عدم جواز میں داخل رکھا ہے، تطبیق یہ ہے کہ اگر وعظ کی نوکری کر لی مثل امامت کے تو اجرت لینا جائز ہے، اور اگر نوکری نہیں ہے عین وقت پر وعظ پر اجرت کی شرط کرے توجائز نہیں جیسے عین وقت پر امامت پر اجرت مانگنے لگے۔


فتاویٰ محمودیہ میں لکھا ہے کہ: ”جس طرح تعلیم وتدریس کی ملازمت درست ہے، اسی طرح تذکیر وتقریر کی ملازمت بھی درست ہے، کام متعین کرلیا جائے، مثلاً ہرروز ایک گھنٹہ یا ہرجمعہ کو دو گھنٹے تقریر لازم ہوگی اور اتنا معاوضہ دیا جائے گا، یا مقرر کو مستقل ملازم تقریر کے لیے رکھ لیا جائے کہ جلسوں میں بلانے پر یا بغیر بلائے دیگر مقامات پر جاجاکر تقریر کرے، یہ طریقہ پسندیدہ نہیں ہے کہ کسی جگہ وعظ فرمایا اور روپیہ لے لیے، پھر اگر اپنے انداز سے کچھ کم ہوجائے تو ناک بھوٴں چڑھانے لگے، اس طرح وعظ کا اثر بھی ختم ہوجاتا ہے۔


اسی طرح احسن الفتاوی ج ۷ص۳۰۰ میں ہے" وعظ وتقر یر دین کی تبلیغ ہے ،یہ بلا معاوضہ ہونی چاہئے، تاہم اگر کسی نے اپنے آپ کو اس مقصد کیلئے فارغ کیا ہو ا ہے کہ جو بھی بلا ئے اس کے ہاں جاکر وعظ کہتا ہے ،تو ایسے شخص کیلئے وعظ پر معاوضہ لینا جائز ہے"


المسائل المہمہ میں بعنوان تقریر وخطابت کے عوض اجرت لینا کے تحت اس کی تین شکلیں بیان کی ہے 

(١) مقرر؛ یعنی تقریر کرنے والا، تقریر کرنے کے بعد جو روپئے لیتا ہے، وہ اگر بطورِ ہدیہ کچھ لوگ بطیبِ خاطر دیں، تو اُن کے لینے میں کچھ مضائقہ نہیں،

(٢) اسی طرح مُلازَمت کے طور پر مقرر کو اگر کچھ دیا جائے، اور متعین کردیا جائے کہ مثلاً؛ روزانہ یا ہفتے میں ایک گھنٹہ وعظ کہنا ہوگا، اور یہ تنخواہ ہوگی، تو اس طرح کا اجارہ بھی درست ہے۔

(٣) لیکن یہ طریقہ پسندیدہ نہیں کہ بلا تعیین کے مقرر کہیں تقریر کرکے روپیہ لے، اور اپنے انداز سے کم ہونے پر ناراضگی وخفگی کا اِظہار کرے، اس سے وعظ کا اثر بھی ختم ہوجاتا ہے، اور بلانے والے بھی رسم کے طور پر بلاتے ہیں، اور اعلیٰ مقام یہ ہے کہ متعین یا غیر متعین طور پر بھی کچھ نہ لیا جائے، بلکہ حِسبۃً للہ وعظ کہا جائے، وہ اِن شاء اللہ زیادہ مؤثر ہوگا۔


مسؤلہ صورت میں مقرر کے لئے آگے سے تنخواہ طے کرکے لینا جائز ہے چونکہ خیرالقرون میں علماء قراء واعظین وغیرہ کے وظائف بیت المال سے مقرر ہوتے تھے، اس لیے خاص اس سلسلے میں خیر القرون میں کسی قسم کی تنخواہیں لینے دینے کا مسئلہ درپیش نہیں تھا بعد میں جب وہ سلسلہ باقی نہیں رہا تو حفظ دین کے خاطر فقہاء متأخرین نے دیگر طاعات امامت، اذان، اور تعلیم کی اجرت کو جائز لکھا ہے بعض نے تقریر و خطابت میں بھی اجازت دی اور بعض کی  رائے اس سلسلہ میں عدم عواز کی رہی ہے لیکن اجرت نہ لینا احوط ہے۔ واللہ اعلم بالصواب 


الدرالمختار مع الشامي میں ہے۔

ویفتی الیوم بصحتہا لتعلیم القرآن، والفقہ، والإمامۃ، والأذان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وزاد بعضہم الأذان والإقامۃ والوعظ۔ (الدرالمختار مع الشامي، الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، مکتبہ زکریا دیوبند ۹/ ٧٤)


سکب الأنہر مع مجمع الأنہر میں ہے۔

ویفتی الیوم بالجواز للإجارۃ علی ہذہ العبادات لفتور الرغبات ومنع العطیات، مثل الإمامۃ وتعلیم القرآن والفقہ تحرزا عن الإندراس، والأحکام تختلف باختلاف الزمان۔ (سکب الأنہر مع مجمع الأنہر، کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، دارالکتب العلمیۃ بیروت ۳/ ۵۳۳-۵۳۴)

تبیین الحقائق ہے۔

وقال في النہایۃ: یفتی بجواز الاستئجار علی تعلیم القرآن والفقہ أیضا في زماننا، ثم قال: وفي روضۃ الزندوسي: کان شیخنا أبو محمد عبداﷲ الخیزاخزي یقول في زماننا یجوز للإمام والمؤذن والمعلم أخذ الأجر، قال کذا في الذخیرۃ۔ (تبیین الحقائق، کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، مکتبہ زکریا دیوبند ٦/ ۱۱۷، إمدادیہ ملتان ۵/ ۱۲۵)


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: