منگل، 15 مارچ، 2022

شب برات فیصلوں کی رات ہے کیا یہ صحیح ہے؟ سوال نمبر ٢٢٩

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب شب برائت کے بارے میں جو مشہور ہے کہ اس رات میں معاملات طے ہوتے ہے اور پورے سال کی تقدیر کے فیصلے ہوتے ہیں، تو اس کی کیا حقیقت ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب ارسال فرمائے؟

سائل: محمد بن مولوی سعید صاحب ہردیواسنہ (گجرات پالنپور)


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


شعبان المعظم کی پندرھویں رات بابرکت راتوں میں سے ہے احادیث مبارکہ میں اس کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات کے متعلق بیان فرمایا ہے کہ: اللہ عزوجل نصف شعبان کی رات (پندرہویں رات) کو آسمانِ دنیا پر جلوہ افروز ہوتے ہیں اور قبیلۂ کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ انسانوں کی مغفرت فرماتے ہیں۔


اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات کی فضیلت کے بارے میں فرمایا کہ اس رات میں قیام کرو اور اس کے دن میں روزہ رکھو اللہ رب العزت غروبِ شمس کے وقت آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں: ہے کوئی مغفرت طلب کرنے والا تاکہ میں اسے معاف کروں، ہے کوئی رزق کا متلاشی تاکہ میں اسے رزق عطا کروں، ہے کوئی مصیبت زدہ میں اس کی مصیبت کو دور کروں ...... چنانچہ طلوع فجر تک یہی صدا لگتی رہتی ہے۔


جہاں تک اس رات میں تقدیر کے فیصلے ہونے کا مسئلہ ہے تو نصف شعبان (شب برات ) میں بعض روایتوں کے مطابق انسانوں کے اعمال  اللہ کی بارگارہ میں اٹھائے جانے اور  ان کی زندگی، رزق اور موت سے متعلق فیصلوں کے احکامات کے صادر ہونے یا فرشتوں کے سپرد کرنے کا ذکر موجود ہے۔

ان میں سے حضرت عائشہ رضی سے مروی ایک طویل روایت کا متعلقہ حصہ درج ذیل ہے:


حدیث ملاحظہ فرمائیں۔

[عن عائشة أم المؤمنين:] لمّا كانت ليلَةُ النِّصفِ من شعبانَ انسلَّ رسولُ اللَّهِ ﷺ من مِرطي ثمَّ قالَت ۔۔۔۔۔۔ هَلْ تَدْرِينَ مَا فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ؟ قَالَتْ: مَا فِيهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ: فِيهَا أَنْ يُكْتَبَ كُلُّ مَوْلُودٍ مِنْ مولود بَنِي آدَمَ فِي هَذِهِ السَّنَةِ، وَفِيهَا أَنْ يُكْتَبَ كُلُّ هَالِكٍ مِنْ بَنِي آدَمَ فِي هَذِهِ السَّنَةِ، وَفِيهَا تُرْفَعُ أَعْمَالُهُمْ، وَفِيهَا تَنْزِلُ أَرْزَاقُهُمْ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ: مَا من أَحَدٌ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا بِرَحْمَةِ اللَّهِ؟ قَالَ: مَا مِنْ أَحَدٍ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا بِرَحْمَةِ اللَّهِ قُلْتُ: وَلَا أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى هَامَتِهِ فَقَالَ: وَلَا أَنَا إِلَّا أَنْ يَتَغَمَّدَنِيَ اللَّهُ مِنْهُ بِرَحْمَةٍ , يَقُولُهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ۔   (الدعوات الكبير في إسناده بعض من يجهل وورد ما يقويه بعض القوة  ٢/١٤٦)


 [عن عائشة أم المؤمنين:] هل تَدْرِينَ ما هذه الليلةُ – يعني: ليلةَ النِّصفِ مِن شعبانَ -؟، قالت: ما فيها يا رسولَ اللهِ؟ ! فقال: فيها أن يُكْتَبَ كلُّ مولودٍ من بني آدمَ في هذه السنةِ، وفيها أن يُكْتَبَ كلُّ هالكٍ من بني آدمَ في هذه السنةِ، وفيها تُرْفَعُ أعمالُهم، وفيها تَنزِلُ أرزاقُهم، فقالت: يا رسولَ اللهِ ! ما من أحدٍ يَدْخُلُ الجنةَ إلا برحمةِ اللهِ – تعالى -؟ ! فقال: ما من أحدٍ يَدْخُلُ الجنةَ إلا برحمةِ اللهِ –تعالى -، ثلاثًا قلتُ: ولا أنت يا رسولَ اللهِ؟ ! فوضع يدَه على هامِشِه ! فقال: ولا أنا؛ إلا أن يَتَغَمَّدَنِيَ اللهُ منه برحمتِهِ؛ يقولُها ثلاثَ مراتٍ

(تخريج مشكاة المصابيح ١٢٥٧  •  لم أقف على إسناده، وغالب الظن أنه ضعيف، اللهم إلا قوله: "ما من أحد يدخل الجنة إلا برحمة الله..." فهو ثابت في الصحيح)



ترجمہ:حضرت عائشہ ؓ روایت فرماتی ہیں کہ۔۔۔۔۔۔۔  رسول اکرمﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ: تم جانتی ہو اس رات میں یعنی ماہ شعبان کی پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے؟عرض کیا  یارسول اللہﷺ ارشاد فرمایئے، کیا ہوتا ہے؟ فرمایا:  اس رات میں ہر ایسے بچہ کا نام لکھ دیا جاتا ہے جوآنے والے سال میں پیدا ہونے والا ہے اور ہر اس شخص کا نام لکھ دیا جاتا ہے جو آنے والے سال میں مرنے والا ہے (اللہ کو تو سب پتا ہے، البتہ انتظام میں لگنے والے فرشتوں کو اس رات میں ان لوگوں کی فہرست دے دی جاتی ہے)اور اس رات میں نیک اعمال اوپر اٹھائے جاتے ہیں  اور اس رات میں لوگوں کے رزق نازل ہوتے ہیں،  حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ:   میں نے عرض کیا ؛ "یارسول اللہﷺ ! کیا جنت میں کوئی بھی داخل نہ ہوگا مگر اللہ

یارسول اللہﷺ ! کیا جنت میں کوئی بھی داخل نہ ہوگا مگر اللہ تعالیٰ کی رحمت سے؟ آپ نے  فرمایا:  ہاں کوئی ایسا نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بغیر جنت میں داخل ہوجائے، میں نے عرض کیا: یارسول اللہ اور آپ (بھی) اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں نہ جائیں گے؟ یہ سن کر آپ نے اپنے سر پر ہاتھ رکھ لیا اور فرمایا کہ میں بھی جنت میں نہ جاؤں گا مگر اس طرح سے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رحمت میں ڈھانپ لے۔ تین بار یہی فرمایا۔ 


لیکن اس رات میں تقدیر کے فیصلے ہونے کے متعلق حضرت مفتی شفیع صاحب معارف القرآن میں لَيْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ کی تفسیر کے تحت تحریر بقلم ہے، کہ بعض مفسرین عکرمہ وغیرہ سے منقول ہے کہ انہوں نے اس آیت میں لیلہ مبارکہ سے مراد شب برات یعنی نصف شعبان کی رات قرار دی ہے مگر اس رات میں نزول قرآن دوسری تمام نصوص قرآن اور روایات حدیث کے خلاف ہے (آیت) شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن اور انا انزلنا فی لیلة القدر جیسی کھلی نصوص کے ہوتے ہوئے بغیر کسی قوی دلیل کے نہیں کہا جاسکتا کہ نزول قرآن شب برات میں ہوا۔ البتہ شعبان کی پندرھویں شب کو بعض روایات حدیث میں شب برات یا لیلة الصک کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس رات کا مبارک ہونا اور اس میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نزول کا ذکر ہے۔ اس کے ساتھ بعض روایات میں یہ مضمون بھی آیا ہے جو اس جگہ لیلہ مبارکہ کی صفت میں بیان فرمایا ہے یعنی (آیت) فِيْهَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيْمٍ۔ امراً من عندنا یعنی اس رات میں ہر حکمت والے معاملہ کا فیصلہ ہماری طرف سے کیا جاتا ہے جس کے معنی حضرت ابن عباس یہ بیان فرماتے ہیں کہ یہ رات جس میں نزول قرآن ہوا، یعنی شب قدر، اسی میں مخلوقات کے متعلق تمام اہم امور جن کے فیصلے اس سال میں اگلی شب قدر تک واقع ہونے والے ہیں طے کئے جاتے ہیں کہ کون کون اس سال میں پیدا ہوں گے، کون کون آدمی اس میں مریں گے، کس کو کس قدر رزق اس سال میں دیا جائے گا۔ یہی تفسیر دوسرے ائمہ تفسیر حضرت قتادہ، مجاہد، حسن وغیرہم سے بھی منقول ہے اور مہدوی نے فرمایا کہ معنی اس کے یہ ہیں کہ یہ تمام فیصلے جو تقدیر الٰہی میں پہلے ہی سے طے شدہ تھے اس رات میں متعلقہ فرشتوں کے سپرد کردیئے جاتے ہیں، کیونکہ قرآن و سنت کی دوسری نصوص اس پر شاہد ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلے انسان کی پیدائش سے بھی پہلے ازل ہی میں لکھ دیئے تھے۔ تو اس رات میں ان کے طے کرنے کا حاصل یہی ہوسکتا ہے کہ قضا و قدر کی تنفیذ جن فرشتوں کے ذریعہ ہوتی ہے اس رات میں یہ سالانہ احکام ان کے سپرد کردیئے جاتے ہیں۔ (قرطبی)

چونکہ بعض روایات حدیث میں شب برات یعنی شعبان کی پندرہویں شب کے متعلق بھی آیا ہے کہ اس میں آجال و ارزاق کے فیصلے لکھے جاتے ہیں۔ اس لئے بعض حضرات نے آیت مذکورہ میں لیلہ مبارکہ کی تفسیر لیلة البرات سے کردی ہے مگر یہ صحیح نہیں کیونکہ یہاں اس رات میں نزول قرآن کا ذکر سب سے پہلے ہے اور اس کا رمضان میں ہونا قرآن کی نصوص سے متعین ہے۔ اور شب برات کے متعلق جو یہ مضمون بعض روایات میں آیا ہے کہ اس میں ارزاق وغیرہ کے فیصلے ہوتے ہیں اول تو ابن کثیر نے اس کے متعلق فرمایا کہ یہ روایت مرسل ہے اور ایسی روایت نصوص صریحہ کے مقابلہ میں قابل اعتماد نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح قاضی ابوبکر بن عربی نے فرمایا کہ نصف شعبان کی رات کے بارے میں کوئی قابل اعتماد روایت ایسی نہیں جس سے ثابت ہو کہ رزق اور موت وحیات کے فیصلے اس رات میں ہوتے ہیں بلکہ انہوں نے فرمایا کہ اس رات کی فضیلت میں بھی کوئی قابل اعتماد حدیث نہیں آئی لیکن روح المانی وغیرہ کے فیصلے نصف شعبان کی رات میں لکھے جاتے ہیں اور شب قدر میں فرشتوں کے حوالے کئے جاتے ہیں اگر یہ روایت ثابت ہو تو اس طرح دونوں قول میں تطبیق ہو سکتی ہے ورنہ اصل بات جو ظاہر قرآن اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے وہ یہی ہے کہ سورة دخان کی آیت میں لیلہ مبارکہ اور فیہا یفرق وغیرہ کے سب الفاظ شب قدر ہی کے متعلق ہیں۔ رہا شب برات کی فضیلت کا معاملہ، سو وہ ایک مستقل معاملہ ہے جو بعض روایات حدیث میں منقول ہے مگر وہ اکثر ضعیف ہیں اس لئے قاضی ابوبکر بن عربی نے اس رات کی کسی فضیلت سے انکار کیا ہے لیکن شب برات کی فضیلت کی روایات اگرچہ با عتبار سند کے ضعف سے کوئی خالی نہیں لیکن تعد دطرق اور تعدد روایات سے ان کو ایک طرح کی قوت حاصل ہوجاتی ہے۔ اس لئے بہت سے مشائخ نے ان کو قبول کیا ہے کیونکہ فضائل اعمال میں ضعیف روایات پر عمل کرلینے کی بھی گنجائش ہے۔ (معارف القرآن تحت آیت ’’انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکہ)


حضرت مولانا عبدالباقی اخونزادہ نے اس کی پوری بحث کے آخر میں یہ خلاصہ کلام پیش کیا ہے کہ پندرہویں شعبان کے متعلق روایات اگرچہ ضعیف ہیں لیکن مجموعی طور پر یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اس رات کی فضیلت ثابت ہے.اب  اس رات میں کیا خصوصیات ہیں اس کے بارے میں صراحتا کوئی بات صحیح ثابت نہیں لہذا اس کے متعلق علماء کی رائے ہر زمانے میں مختلف رہی ہے کچھ نے روایات کو دیکھتے ہوئے اسکو تقدیر کی تحریر  کی رات قرار دیا  جبکہ  دوسرے طبقے نے ان روایات کے ضعف کو دیکھتے ہوئے اس بات سے انکار کیا ہے کہ اس رات کی کوئی اتنی اہمیت نہیں ہے.اس میں فقط یہ رائے دی جاسکتی ہے کہ کونسا موقف زیادہ درست ہے .ہماری رائے میں شب برات کو تقدیر کی تحریر یا رزق کی تقسیم کی رات قرار دینا زیادہ درست نہیں بلکہ شب قدر کو قرار دینا زیادہ صحیح ہے.لیکن جن حضرات نے شب برات کو تقدیر کے لکھنے کی رات قرار دیا ہے چونکہ ان کے سامنے بهى روایات ہیں جو اگرچہ ضعیف ہیں لیکن اس قول کو یہ کہا جاسکتا ہے کہ قوی قول نہیں.اس رات انفرادی عبادت بغیر کسی تداعی اور اجتماع کے کی جائے ،روزے کی توفیق ہو تو نفلی روزہ سنت سمجهے بغیر رکھا جائے.


البت حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ علیہ دونوں قولوں کے درمیان تطبیق دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ اکثر مفسرین کے نزدیک لیلہ المبارکہ سے مراد شب قدر ہے شب برءات نہیں- کیونکہ دوسرے موقع پر ارشاد باری تعالٰی ہے، انا انزلناہ فی لیلہ القدر کہ ہم نے قرآن کریم لیلہ القدر میں نازل کیا ہے

لیکن ایک قول بعض مفسرین کا یہ بھی ہے کہ لیلہ المبارکہ سے مراد شب برءاتہے، ہو سکتا ہے کہ نزول دفعی دو مرتبہ ہوا ہو٫اس طرح کہ ایک رات میں حکم نازل ہوا اور دوسری رات میں اس کا وقوع ہوا ہو- یعنی شب برءات میں حکم ہوا کہ اس دفعہ رمضان المبارک میں جو لیلہ القدر آئے گی اس میں قرآن مجید نازل کیا جائے گا، اس طرح لیلہ القدر میں اس کا وقوع ہو گیا-اس طرح انا انزلناہ فی لیلہ القدر سے مراد حقیقی نزول ہو کہ لیلہ القدر میں ہوا اورانا انزلناہ فی لیلہ المبارکہ سے مراد حکمی نزول ہو کہ شب برءات میں ہوا- تو احتمال اسکا بھی ہے کہ لیلہ المبارکہ سے (شب برءات) مراد ہو-(در منشور)۔ (خطبات حکیم الامت٧/٣٧٦)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

کوئی تبصرے نہیں: