اتوار، 27 مارچ، 2022

روزوں کے نیتوں کی ترتیب اور اس کا شرعی حکم سوال نمبر ٢۵٨

 سوال

نیت کسے کہتے ہیں اور نیت کا مقصد کیا ہے؟ کیا زبان سے نیت کرنا ضروری ہیں ؟ روزوں کی نیت کب تک کرنا درست ہے؟


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


کسی بھی شئی کے قصد اور دلی ارادے کونیت کہتے ہیں ۔ ( معجم الرائد )اور شرعی اعتبار سے نیکی کے کام کو وجود میں لانے کے لیے اللہ تعالی کے تقرّب اور اطاعت کی نیت کرنا۔


شرعاً نیت کرنے سے مقصود دو چیزیں ہیں

(۱)  عبادات اور عادات کو ایک دوسرے سے الگ کرنا، (مثلاً: بھوکا رہنا کبھی محض طبعی خواہش یا کام کاج کے لئے یا علاج کے لئے ہوتا ہے اور یہی بھوکا رہنا جب روزے کی نیت سے ہو تو عبادت بن جاتا ہے


(۲)  عبادات میں فرق کرنا یعنی یہ کونسی عبادت کو ابھی سر انجام دے رہا ہے اس کا استحضار پیدا ہوجائے۔ مثلاً نماز ہے یا روزہ ہے یا کوئی اور عبادت ہے جس کو وہ انجام دے رہا ہے اور روزہ ہے تو کونسا روزہ ہے فرض ہے یا نفل اس لئے کہ روزہ فرض ہو یا نفل دونوں کی صورت تو ایک جیسی ہی ہے صبح سے غروب آفتاب تک عبادت کی نیت سے روزہ توڑنے والی چیزوں سے اپنے آپ کو دور رکھنا اب جب یہ دونوں ایک ہی جیسی عبادت ہیں تو ان دونوں کی فرض اور نفل میں تخصیص کیسے ہو تواس کے لئے نیت ہے اس لئے کہ نیت الگ الگ ہونے سے یہ الگ الگ عبادتیں قرار پاتی ہیں۔


نیت کا زبان سے تلفظ کرنا

نیت اس حد تک کافی ہے کہ اس کو اس بات کا استحضار ہو کہ یہ رمضان کا روزہ ہے یا پھر کوئی اور روزہ ہے بلکہ روزے کے ارادے سے سحری کے لئے بیدار ہونا یہی نیت کے لئے کافی ہو جاۓ گا ، زبان سے نیت کا تلفظ ضروری نہیں ہے، لیکن دل کے ساتھ زبان سے کہہ لینے میں استحضار زیادہ ہوتا ہے اس لیے مزید استحضار کے لیے زبان سے بھی نیت کرلینا بہتر ہے


کونسے روزوں کی نیت کب کریں؟

روزوں کی دو قسمیں ہیں ایک وہ روزے جس کی ایام کے اعتبار سے تعیین ہو یعنی جو ایام کے اعتبار سے خاص اور متعین ہے 

مثلاً رمضان کے ادا روزے اس کے لئے رمضان المبارک کا مہینہ خاص متعین ہے 

اور دوسرے نمبر پر نذر معین یعنی کسی دن یا تاریخ کو روزے کے لئے متعین کرکے نذر ماننا وہ دن اس کے لئے خاص ہے

اور ان دو روزوں کے علاوہ باقی سارے ایام نفلی روزوں کے لئے خاص ہے (الا یہ کہ کسی اور روزے کی نیت کی جائے تو وہ اس کے مطابق روزہ ہوگا) 

ان تینوں روزں کی نیت غروب آفتاب سے لے کر نصف النہار شرعی تک کر سکتے ہیں۔


نصف النہار شرعی

نصف النہار شرعی یہ ہے کہ صبح صادق سے غروب آفتاب تک جتنے گھنٹے اور منٹ ہوتے ہیں، انھیں دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے، اس کا پہلا حصہ نصف النہار شرعی ہوگا اور اس سے پہلے پہلے نیت کی اجازت ہوگی، مثلاً گودھرا میں آج کی تاریخ میں صبح صادق (۵ بج کر ١٧) منٹ پر ہے اور غروب آفتاب (٦ بج کر ۵٠) منٹ پر ہے، دونوں کے درمیان کل ١٢/ گھنٹے اور ٣٢/ منٹ ہوتے ہیں، اس کا آدھا ٦ گھنٹے اور ١٦ منٹ ہے تو اس اعتبار سے آج کی تاریخ میں گودھرا کے اندر نصف النہار شرعی ۳۳: ۱۱ ہے لہذا اس سے پہلے پہلے روزہ کی نیت کرلی گئی تو وہ معتبر ہوگی اور روزہ ہوجائے گا، اور گودھرا میں اس کے بعد ان تینوں قسم کے روزوں کی نیت کا اعتبار نہیں ہوگا، اس طرح سے سبھی حضرات اپنے اپنے شہروں کے نصف النہار شرعی کا حساب کرسکتے ہیں۔


اور دوسری قسم کے وہ روزے ہیں جس کی ایام و تاریخ کے اعتبار سے تعیین نہ ہو یعنی جو ایام کے اعتبار سے خاص اور متعین نہ ہو۔

مثلاً رمضان کے قضاء روزے، نظر غیر معین، اور کفاروں کے روزے چوں کہ ان کا وقت متعین نہیں ہوتا اس لئے اس کی تعیین روزہ شروع کرنے سے پہلے ضروری ہے لہذا ان کی نیت صبح صادق سے پہلے کرنا ضروری ہے، صبح صادق ہوجائے تو اب ن روزوں کی نیت درست نہیں ہوگی۔


فتاوی شامی میں ہے۔

(فيصح) أداء (صوم رمضان والنذر المعين والنفل بنية من الليل) فلا تصح قبل الغروب ولا عنده (إلى الضحوة الكبرى لا) بعدها ولا (عندها) اعتبارا لأكثر اليوم۔۔۔۔۔۔(والشرط للباقي) من الصيام قران النية للفجر ولو حكما وهو (تبييت النية) للضرورة (وتعيينها) لعدم تعين الوقت ۔۔۔۔۔۔۔۔ تحتہ فی الشامیہ قولہ ( فلا تصح قبل الغروب ) فلو نوى قبل أن تغيب الشمس أن يكون صائماً غداً ثم نام أو أغمي عليه أو غفل حتى زالت الشمس من الغد لم يجز ، وإن نوى بعد غروب الشمس جاز . خانية . وفيها : وإن نوى مع طلوع الفجر جاز ، لأن الواجب قرآن النية بالصوم لا تقدمها . قوله : ( إلى الضحوة الكبرى ) المراد بها نصف النهار الشرعي ، والنهار الشرعي من استطارة الضوء في أفق المشرق إلى غروب الشمس ، والغاية غير داخلة في المغيا كما أشار إليه المصنف بقوله  لا عندها  اهـ ح . وعدل عن تعبير القدوري والمجمع وغيرهما بالزوال لضعفه ، لأن الزوال نصف النهار من طلوع الشمس ، ووقت الصوم من طلوع الفجر كما في البحر عن المبسوط . قال في الهداية وفي الجامع الصغير : قبل نصف النهار ، وهو الأصح لأنه لا بد من وجود النية في أكثر النهار ، ونصفه من وقت طلوع الفجر إلى وقت الضحوة الكبرى لا وقت الزوال ، فتشترط النية قبلها لتتحقق في الأكثر۔۔۔۔

ایضاً

( لعدم تعين الوقت ) أي لهذه الصيامات، بخلاف أداء رمضان والنذر المعين فإن الوقت فيهما متعين، وكذا النفل لأن جميع الأيام سوى شهر رمضان وقت له . قوله۔۔۔

ایضاً

( والشـرط فيهـا أن يـعـلـم بقلبه أي صوم يصومه قال الحدادي والسنة أن يتلفظ بها ۔۔۔۔ تحتہ فی الشامیہ قولہ ( والشرط فيها إلخ ) أي في النية المعينة لا مطلقاً ، لأن ما لا يشترط له التعيين يكفيه أن يعلم بقلبه أن يصوم فلا منافاة بين ما هنا وما قدمناه عن الاختيار . وأفادح : أن العلم لازم للنية التي هي نوع من الإرادة ، إذ لا يمكن إرادة شيء إلا بعد العلم به . قوله : ( والسنة ) أي سنة المشايخ ، لا النبي ﷺ لعدم ورود النطق بها عنه ح . قوله : ( أن يتلفظ بها ) فيقول : نويت أصوم غدا أو هذا اليوم إن نوى نهاراً الله عز وجل من فرض رمضان . سراج۔ (فتاوی شامی ٣/ ۳۳۸ - ۳٤۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، ..... اسی طرح الخلاصة الفقهيه على مذهب السـادة الـحنفيـه جلد ١ اور صفحہ ٤٨٢ پر ہے۔


النھر الفائق میں ہے۔

هو ترك الأكل والشرب والجماع من الصبح إلى الغروب بنية من أهله وصح صوم رمضان، وھو فرض قطعی والنذر المعین والنفل بنية من الليل إلى ما قبل نصف النهار، وبمطلق النية ، ونية النفل وما بقي لم يجز إلا بنية معينة مبيتة۔


وهو الأصح ( وما بقي ) وهو قضاء رمضان والنذر المطلق وقضاء النذر المعين بعد إفساده والكفارات السبع وما ألحق بها من جزاء الصيد والحلق والمتعة ( لم يجز إلا بنية معينة ) لأن الشارع لم يعين له وقتاً فلزمه التعيين ( مبيتة ) فلا يجوز بنية نهارية والقياس يقتضي اشتراط مقارنتها للشروع كالصلاة إلا أنا جوزناه بنية متقدمة ضرورة كذا في « الذخيرة » وعرف أن حصر الجواز في التبييت فيه مؤاخذة ظاهرة وجعل في « البحر » القرآن في حكم التبييت وأنت خبير بأن الأنسب فيه مؤاخذة عكسه إذ القرآن هو الأصل وفي التبييت قرآن حكماً۔ (النھر الفائق ٣/ ٦سے٩ تک)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: