سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ مفتی صاحب ایامِ بیض کی کیا فضیلت ہے برائے مہربانی دلیل و تفصیل سے بیان فرمائیں، اور کہاں سے ثابت ہے احادیث کی روشنی میں دلیل عنایت فرمائیں جزاکم اللہ خیرا کثیرا
سائل محمد عبداللہ بن رحیم بخش پاکستانی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
ایام بیض اور دوشنبہ اور پنجشنبہ کا روزہ مسنون ومستحب ہے، حسب ہمت وتوفیق اگر کوئی ان سب روزوں کا یا ان میں سے بعض کا اہتمام کرتا ہے تو فضیلت کی بات ہے۔ اور اگر کسی دو شنبہ یا پنجشنبہ کو ایام بیض کا کوئی روزہ آجاتا ہے تو دونوں کی نیت کرسکتے ہیں، اس صورت میں دونوں روزوں کا ثواب مل جائے گا۔ اور اگر کوئی شخص صحت کی کمزوری یا دینی یا دنیوی مشاغل کی کثرت کی وجہ سے اہتمام نہیں کرتا ہے تو کوئی گناہ کی بات نہیں۔
لہذا ایامِ بیض (قمری مہینے کی ١٥/١٤/١٣ تاریخ) کے روزے رکھنا مستحب ہیں، ان کا رکھنا فضیلت کا باعث ہے، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
صحیح مسلم میں ہے۔
صَوْمُ ثَلَاثَةٍ مِنْ کُلِّ شَهْرٍ، وَرَمَضَانَ إِلَی رَمَضَانَ صَوْمُ الدَّهْرِ.(صحیح مسلم، کتاب الصيام، باب استحباب صيام ثلاثة أيام من کل شهر، ٢/٨١٩ رقم : ١١٦٢)
ترجمہ: ہر ماہ تین دن کے روزے رکھنا اور ایک رمضان کے بعد دوسرے رمضان کے روزے رکھنا یہ تمام عمر کے روزوں کے مترادف ہے۔
صحیح بخاری میں ہے۔
عن أبی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال: أوصانی خلیلی صلی اللہ علیہ وسلم بثلاث: صیام ثلٰثۃ أیام من کل شہر، ورکعتی الضحیٰ، وأن أوتر قبل أن أنام۔ (بخاری شریف کتاب الصوم ، باب صیام البیض،)
ترجمہ: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں کی وصیت کی ہے، ہر مہینے تین روزے رکھنے کی، چاشت کی نماز پڑھنے کی اور سونے سے پہلے وتر پڑھنے کی۔
مشکاة المصابیح میں ہے۔
عن عائشةقالت: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصوم الاثنین والخمیس، رواہ الترمذي والنسائي، وعن أبي ھریرةقال: قال رسول اللہ علیہ وسلم: تعرض الأعمال یوم الاثنین والخمیس فأحب أن یعرض عملي وأنا صائم، رواہ الترمذي، وعن أبي ذرقال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : یا أبا ذر! إذاصمت من الشھر ثلاثة أیام فصم ثلاث عشرة وأربع عشرة وخمس عشرة، رواہ الترمذي والنسائي ( مشکاة المصابیح، کتاب الصوم، باب صیام التطوع، الفصل الثاني، ص: ۱۷۹، ۱۸۰، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)
شامی میں ہے۔
فکذا الصوم عن الیومین، وأیدہ العلامة البیري بأنہ یجزیہ الصوم فی الواجبین ففي غیرھما أولی الخ اھ لکن لیس في ھذا جمع بین نیتین؛ بل ھو نیة واحدة أجزأت عن صومین (رد المحتار، کتاب الصلاة، آخر باب شروط الصلاة، ۲/ ۱۲۵)
ایضاً والمندوب کأیام البیض من کل شھر (الدر المختار مع رد المحتار، أول کتاب الصوم، ۳/ ۳۳٤، ط: مکتبة زکریا دیوبند)
ایضاً قال فی البحر إن صومہ- صوم الجمعة- مستحب عند العامة کالاثنین والخمیس (رد المحتار، ۳/ ۳۳٤)۔ (مستفاد: فتاوی دارالعلوم دیوبند جواب نمبر: ١٦٠١٩٩)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں