سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں حضرات علمائے کرام مفتیان عظام مسلہ ذیل کے بارے میں کہ مطلق قرآن خوانی چاہے وہ کسی بھی موقع پر ہو جس میں کھانا پینا سب ہو خاص طور پر- میت کے گھر قرآن خوانی کرنا یا کروانے کا حکم شرعی کیا ہے؟ مزید اب جو باتیں لکھی جارہی ہے اسکی روایت و آثار کی روشنی میں مکمل تفصیل کے ساتھ وضاحت فرمائیں گے ابھی کے مہینے میں جو قرآن خوانی ہوتی ہے اس کا کیا حکم ہے؟ بکثرت شعبان المعظم میں بہت زیادہ اہتمام ہوتا ہے اس مہینے کے سلسلے میں کیا حکم ہے؟ ایک ساتھی نے بہت افسوس کرتے ہوئے فرمایا کہ کیا ہم اپنے باپ دادا کے لئے انتقال کے بعد اتنا کام بھی نہیں کر سکتے ہیں۔ الحمد للہ
حضرت سے مکمل طور امید ہے کہ تشفی بخش جواب سے نوازیں گے انشاءاللہ عنایت در عنایت ہوگی۔
سائل: ریاض الدین رحمانی سپولی بہار
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
تلاوت سے صرف ثواب دارین مقصود ہو تو ایسے صورت میں وہ تلاوتِ مجردہ کی قبیل سے ہوکر اس پر اجرت لینا درست نہیں ہوگا جیسے میت پر قرآن خوانی کرنا وغیرہ۔
اسی طرح قرآن مجید کی تلاوت بلا شبہ ایک بڑی عبادت اور خیر وبرکت کا ذریعہ ہے، اور ایصال ثواب کے لئے اس کی تلاوت کرنا بہت اہمیت رکھتا ہے، اور یہ عبادت اجتماعی اور انفرادی دونوں صورتوں میں جائز ہے۔
البتہ شریعت مطہرہ میں ایصالِ ثواب کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں ہے، جو شخص جس وقت جس دن چاہے، تلاوت قرآن کرکے یا کوئی بھی نفلی عبادت کر کے اُس کا ثواب میت کو بخش سکتا ہے۔
لہذا مرحومین کے ایصالِ ثواب کے لیے عزیز و اقارب کا نفسِ قرآن کریم پڑھنا اور میت کے لیے دعا کرنا جائز ہے، لیکن مروجہ طریقہ پر دن یا مہینہ متعین کرکے اجتماعی طور پر قرآن خوانی کرنا، جس میں میت کے یہاں کھانے پینے کا التزام ہو اور لوگوں کو باقاعدہ دعوت دے کر جمع کرنا، اور ان سب باتوں کو باعثِ ثواب اور شریعت کا حصہ سمجھنا یہ خلاف شرع ہے اور ناجائز وممنوع ہے،
مسؤلہ صورت میں اجتماعی مروجہ قرآن خوانی خواہ شب برأ ت (ماہ شعبان) میں کی جائے یا کروائی جائے چاہے کسی اور دوسرے مہینہ اور موقعہ پر کرائی جائے درست نہیں بلکہ خلافِ سنت ہے، اور جس ساتھی نے بہت افسوس کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ کیا ہم اپنے باپ دادا کے لئے انتقال کے بعد اتنا کام بھی نہیں کر سکتے ہیں، تو اس ساتھی کو اتنا کرنے کے لئے باپ دادا سال بھر میں صرف شعبان میں ہی یاد آئے چاہیے تو یہ تھا کہ سال بھر روزانہ کم سے کم تین بار سورۂ اخلاص ہی پڑھنے کا وقت نکال لیتا صرف شعبان میں ہی یاد کرنے پر اظہار افسوس ہونا چاہیئے باقی فی نفسہ قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام جس قدر ہوسکے ہر وقت ہر مسلمان کو کرنا چاہئے، اور اپنے مرحومین کو وقتاً فوقتاً اس کا یصال ثواب کرنا چاہیئے۔
مشکاة المصابیح میں ہے۔
عن عائشة رضي اللہ عنھا قالت: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:من أحدث في أمرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد متفق علیہ، وعن جابر رضي اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: أما بعد فإن خیر الحدیث کتاب اللہ وخیر الھدي ھدي محمد صلی اللہ علیہ وسلم وشر الأمور محدثاتھا وکل بدعة ضلالة رواہ مسلم (مشکاة المصابیح ،کتاب الإیمان ، باب الاعتصام بالکتاب والسنة، الفصل الأول، ص ۲۷،ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند) ۔
مرقاة المفاتیح میں ہے:
قال الطيبي: وفيه أن من أصر على أمر مندوب، وجعله عزما، ولم يعمل بالرخصة فقد أصاب منه الشيطان من الإضلال ، فكيف من أصر على بدعة أو منكر؟ (٣/٣١ کتاب الصلاة، الفصل الأول، ط: رشیدیة)
شامی میں ہے۔
فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لايجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر! ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظيم مكسباً ووسيلةً إلى جمع الدنيا۔ إنا لله وإنا إليه راجعون۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ٩/٧٧ ط: زکریا)۔
الموافقات ہے۔
قال حذیفة رضي اللہ عنہ: کل عادة لم یتعبدھا أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلا تعبدوھا فإن الأول لم یدع للآخر مقالاً فاتقوا اللہ یا معشر القراء وخذوا بطریق من کان قبلکم ونحوہ لابن مسعود أیضا (الموافقات، ۳: ۵۳)
شامی میں ہے۔
عن العیني فی شرح الہدایة: فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا یجوز؛ لأن فیہ الأمر بالقراءة وإعطاء الثوب للآمر والقراءة لأجل المال فإذا لم یکن للقارئ ثواب لعدم النیة الصحیحة فأین یصل الثواب إلی المستأجر؟ ولو لا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في ہذا الزکان؛ بل جعلوا القرآن العظیم مکسبا ووسیلة إلی جمع الدنیا، إنا للہ وإنا إلیہ راجعون (رد المحتار، کتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، ۹:۷۷ط: مکتبہ زکریا دیوبند)
الاعتصام للشاطبی میں ہے:
ومنها: (ای من البدع) التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة، كالتزام صيام يوم النصف من شعبان وقيام ليلته".
( الاعتصام للشاطبي الباب الأول تعريف البدع وبيان معناها وما اشتق منه لفظا، ١/٥٣ ط: دار ابن عفان، السعودية)
ایضاً
إذا ثبت هذا ؛ فالدخول في عمل على نية الالتزام له ، إذا ثبت هذا ، فالدخول في عمل على نية الالتزام له إن كان في المعتاد ، بحيث إذا داوم عليه ؛ أورث مللا ، ينبغي أن يعتقد أن هذا الالتزام مكروه ابتداء ، إذ هو مؤد إلى أمور جميعها منهي عنه :
ایضاً
وإذا التزم الإنسان أمرا من الأمور المندوبة أو أمرين أو ثلاثة ؛ فقد يصده ذلك عن القيام بغيرها ، أو عن كماله على وجهه ، فيكون ملوما۔ ( الاعتصام للشاطبي الباب الخامس في أحكام البدع الحقيقية والإضافية والفرق بينهما۔ فصل الدخول في عمل على نية الالتزام له ١/٣٨٩ ط: دار ابن عفان، السعودية) واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں