پیر، 7 مارچ، 2022

فجر کے فوراً بعد سونا یہ غربت کی علامت ہے؟ سوال نمبر ٢٠٧

 سوال

 السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

 مفتی صاحب فجر کے بعد سونا کیا غربت کی علامت ہے دلیل کے ساتھ بیان کرنا نہایت شکریہ ہوگا؟

سائل: محمد نور غفر لہ


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


فجر کی نماز کے بعد  بغیر کسی ضرورت کے طلوعِ آفتاب سے پہلے سونا مکروہ ہے، اس لئے کہ فقہاء نے دن کے ابتدائی حصے میں سونے کو مکروہ لکھا ہے؛ لہذا فجر کے بعد فوراً سونے کا معمول نہ بنائیں۔


فتاوی عالمگیری میں ہے۔

ويكره النوم في أول النهار وفيما بين المغرب والعشاء.(فتاوی عالمگیری ٥/٣٧٦

أيضًا

ولا یتکلم بعد الفجر إلى الصلاة إلا بخير، وقیل: بعدها أيضًا إلى طلوع الشمس(فتاوی عالمگیری ٥/٣٨٠)


صورت مسئولہ میں نمازِ فجر کے بعد بغیر کسی ضرورت کے طلوع آفتاب(سورج نکلنے) سے پہلے سونا مکروہ ہے، شعب الایمان میں ایک حدیث وارد ہے جس میں آتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالی صبح صادق سے لے کر طلوع آفتاب تک مخلوق کے لیے رزق تقسیم کرتے ہیں، یعنی جو لوگ اس پورے وقت میں غافل رہتے ہیں، وہ رزق کی برکت سے محروم رہتے ہیں۔


شعب الایمان میں ہے۔

عن فاطمة بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم قالت: مرَّ بي رسول اللہ -صلی اللہ علیہ وسلم- وأنا مضطجعة متصبحة، فحرکني برجلہ ثم قال: یا بنیّة قومي واشہدي رزق ربّک، ولا تکوني من الغافلین؛ فإن اللہ یقسم أرزاق الناس ما بین طلوع الفجر إلی طلوع الشمس“ (فصل في ا لنوم الذي نعمة اللہ الخ، ٤٤٠٥)


فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ایک سوال کے جواب میں اس سلسلہ میں اس طرح سے وضاحت ہے۔


مسند احمد ۵۲۹۰، شعب الایمان ۴۴۰۲، شرح مشکل الآثار وغیرہ حدیث کی کتابوں میں ایک ضعیف روایت ان الفاظ کے ساتھ وارد ہوئی ہے، قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: الصبحة تمنع الرزق یعنی صبح کے قت سونا رزق میں بے برکتی کا سبب ہے، فقہائے کرام نے بھی صبح کے وقت سونے کو مکروہ قرار دیا ہے، قال في الہندیة: ویکرہ في أول النہار وفیما بین المغرب والعشاء (۵/۳۷۶، دار الکتاب دیوبند) ”صبح کے وقت“ سے کیا مراد ہے اس کی تعیین ایک دوسری روایت سے ہوتی ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ اللہ تبارک وتعالی صبح صادق سے لے کر طلوع آفتاب تک مخلوق کے لیے رزق تقسیم کرتے ہیں یعنی جو لوگ اس پورے وقت میں غافل رہتے ہیں وہ رزق کی برکت سے محروم رہتے ہیں اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ یہ ممانعت صبح صادق سے لے کر طلوع آفتاب تک پورے درمیانی وقت میں سونے میں ہے؛ لہٰذا اگر کوئی شخص نماز فجر کے بعد تھوڑی دیر تسبیحات وغیرہ میں لگا رہے اور سوج طلوع ہونے کے بعد سوئے تو اس کے حق میں کوئی قباحت وکراہت نہیں رہے گی، بعض بزرگوں کا اس طرح کا معمول رہا ہے۔ عن فاطمة بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم قالت: مرَّ بي رسول اللہ -صلی اللہ علیہ وسلم- وأنا مضطجعة متصبحة، فحرکني برجلہ ثم قال: یا بنیّة قومي واشہدي رزق ربّک، ولا تکوني من الغافلین؛ فإن اللہ یقسم أرزاق الناس ما بین طلوع الفجر إلی طلوع الشمس“ إسنادہ ضعیف (شعب الإیمان، ۴۴۰۵، فصل في ا لنوم الذي نعمة اللہ الخ) ( فتاوی دارالعلوم دیوبند جواب نمبر: ٥٩٩٨٩)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


اس سلسلہ مزید تفصیل کے لئے شیخ طلحہ منیار کی تحقیق اور مفتی عبد الباقی اخوند زادہ کی تحقیق کا مطالعہ فرمائیں، بہت مفید ہے۔


شیخ طلحہ منیار کی تحقیق

https://www.madarisweb.com/ur/articles/4764


مفتی عبد الباقی اخوند زادہ کی تحقیق

http://tambeehat.com/tmb34/


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: