پیر، 28 مارچ، 2022

نفس مال میں زکوۃ کی فرضیت کے مسائل سوال نمبر ٢٦١

 سوال

زکوۃ فرض ہونے کے لئے نفس مال میں کن شرائط کا ہونا ضروری ہے؟


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


زکوۃ فرض ہونے کے لئے نفس مال میں آنے والے شرائط کا پایا جانا ضروری ہے۔


( ۱ ) ملکیت اور قبضہ تام ہو،

جس مال کا وہ مالک نہ ہو اس مال پر زکوۃ واجب نہیں ہے، اس لئے کہ زکوٰۃ اس مالیت پر واجب ہے جس کا انسان خود مالک ہو، غیر مملوکہ مال پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی۔ جیسے لقطہ (گری پڑی چیز) کی رقم ملتقط (اٹھانے والے) کے قبضہ میں بطور امانت کے ہوتی ہے اس میں ملکیت اصل مالک کی ہی ہوتی ہے، لہٰذا لقطہ کی رقم میں اٹھانے والے پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔ اگرچہ سال بھی گزر جائے، اسی طرح ودیعت یا عاریت میں بطور استعمال لی ہوئی چیز کہ وہ اس کا مالک نہیں ہوتا اس پر بھی زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔


اور وہ مال جس کی ملکیت تو ہو لیکن اس پر قبضہ نہ ہو یعنی ابھی اس کو وہ مال نہ ملا ہو اس کی دو قسمیں ہے۔

 پہلے نمبر پر یہ ہے کہ اس کے ملنے کی امید ہو جیسے اس نے کسی کو قرضہ دیا ہے اور اس پر گواہ بھی موجود ہے یا گواہ تو نہیں ہے لیکن وہ آدمی جس نے قرضہ لیا ہے وہ اقرار کرتاہے تو اس پر زکوۃ کے وجوب کا حکم ہوگا۔

دوسرے نمبر پر یہ ہے کہ اس کے ملنے کی امید نہ ہو اور پھر بعد میں اچانک مل جائے، جسے مال ضمار کہتے ہیں، ضمار لغت میں چھپانے اور پوشیدہ رکھنے کو کہتے ہیں شریعت میں ہر اس مال کو کہتے ہیں جس پر مالک کو قبضہ حاصل نہ ہو، اور ملک ختم نہ ہوئی ہو، اور وصولیابی کی امید نہ ہو، اس کی چند قسمیں ہیں:

(۱)۔ وہ مال جو گم ہو جائے اور کئی سال گم ہوجانے کے بعد مل جائے۔

(۲)۔ سمندر یا ایسے تالاب میں میں گر چکا کہ اس کا ملنا مشکل ہو پھر کئی سال بعد حاصل ہوجائے۔

(۳)۔ وہ مال جو بادشاہ نے ظلماً قبضہ کیا ہو اور اس پر گواہ موجود نہ ہو۔

(٤)۔ وہ قرضہ جس کا مدیون نے کئی سال تک انکار کیا ہو پھر بعد میں اس کا اقرار کرے بشرطیکہ جب انکار کیا تھا تو اس کے پاس گواہ موجود نہ تھے۔

(۵)۔ اور وہ مال جو کہ جنگل یا ایسی بیابان جگہ پر دفن کیا گیا ہو کہ وہاں سے ملنا مشکل ہو اور دفن کرنے والا جگہ بھول گیا ہو پھر وہ مال مل جائے، تو ان تمام صورتوں میں اس کے مالک پر گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ واجب نہ ہوگی، جب قبضہ ہوگا تب سے سال شروع ہوگا۔

 

( ۲ ) نصاب ضرورت اصلیہ سے زائد ہو استعمالی ساز و سامان پر زکوۃ واجب نہیں ہے، زکوۃ کا وجوب ان چیزوں پر ہوتاہے جو ضروریاتِ اصلیہ اور استعمال سے زائد ہوں اور وہ نامی ہو،  ذاتی استعمال کی گاڑی  یاکوئی بھی سواری، ذاتی رہائش کا ملکیتی گھر، گھر کا فرنیچر اور دیگر سامان  ضروریاتِ اصلیہ میں داخل ہیں، لہذا ان پر زکات  واجب نہیں ہے۔


( ۳ ) نصاب قرض سے خالی ہو یعنی قرض کی رقم کو الگ کرنے کے بعد نصاب مکمل ہوگا تو ہی زکوۃ واجب ہے، اگر کسی شخص کے پاس قابل زکوۃ اموال موجود ہوں اور جتنی مالیت موجود ہے اتنی ہی مقدار میں اس شخص پر قرض بھی ہے ، یا یہ مالیت کم ہے اور قرض زیادہ ہے تو اس شخص پر زکوۃ فرض نہیں ہے، اسی طرح اگر مقروض کے پاس اتنی مالیت ہے کہ قرض اداکرنے کے بعد بقیہ مال نصاب کو نہیں پہنچتا بلکہ نصاب سے کم ہے تو اس صورت میں بھی نصاب سے کم مالیت پر زکوۃ نہیں ہے، لیکن اگر کوئی شخص مقروض ہو اور قرض کی ادائیگی کے بعد بقیہ مال نصاب کو پہنچتا ہو اور سال گزرچکا ہو اس صورت میں ایسے شخص پر قرض منہا کرنے کے بعد بقیہ مال کی زکوۃ ادا کرنا لازم ہے۔


( ٤ ) مال نامی ہو ، 

زکوٰۃ صرف اس مال پر دی جائے گی جس کی افزائش یا نشو و نما ہوتی ہو یعنی وہ ایسا مال ہو کہ جس میں بڑھنے کی صلاحیت ہو اور عادۃً بڑھتا ہوں، خواہ حقیقتاً بڑھے یا حکماً جیسے سونا، چاندی، نقدی، مال تجارت اور مویشی، چونکہ سونا، چاندی اور نقدی کو شریعت نے تجارت کا ذریعہ قرار دیا ہے، خواہ اس کو زیور کی شکل میں بنا کر رکھے یا سونے چاندی کے ٹکڑے بنا کر رکھے، ہر حال میں وہ تجارت کا مال ہے، اسی لئے سونے چاندی پر خواہ وہ کسی صورت میں بھی ہوں، زکوۃ فرض ہوتی ہے، بشرطیکہ اس کی مالیت بقدر نصاب یا اس سے زیادہ ہو۔


اور جو اموال اس کے علاوہ ہو جیسے ذاتی مکان، دکان، برتن، کپڑے، جوتے، فرنیچر اور دیگر گھریلو سامان، فیکٹری کی مشینری اور جواھرات خواہ کتنی ہی قیمت کے ہوں، اگر تجارت کے لئے نہیں ہیں، تو ان پر زکوٰۃ فرض نہیں ہوگی، لیکن اگر ان میں سے کوئی ایک چیز بھی فروخت کرنے کی نیت سے خریدی گئی ہو، اور اس کی قیمت نصاب کے برابر یا اس سے زیادہ ہے، تو اس پر زکوٰۃ فرض ہوگی۔


کذا فی البدائع الصنائع:

منھا کون المال نامیا لان معنی الزکاۃ و ھو النماء لایحصل الامن المال النامی ولسنانعنی بہ حقیقۃ النماء لان ذلک غیر معتبر وانما نعنی بہ کون المال معدا للاستنماء بالتجارۃ ۔۔۔۔۔ والتجارۃ سبب لحصول الربح فیقام مقام المسبب ۔۔۔۔۔۔۔۔ والتجارۃ فی اموال التجارۃ الا ان الإعداد للتجارۃ في الأثمان المطلقۃ من الذہب والفضۃ ثابت بأصل الخلقۃ لأنہا لا تصلح للانتفاع بأعیانہا في دفع الحوائج الأصلیۃ فلا حاجۃ إلی الإعداد من العبد للتجارۃ بالنیۃ إذا النیۃ للتعیین وہي متعینۃ للتجارۃ بأصل الخلقۃ فلا حاجۃ إلی التعیین بالنیۃ فتجب الزکاۃ فیہا نوی التجارۃ أو لم ینو أصلاً أو نوی النفقۃ الخ۔ (بدائع الصنائع، کتاب الزکاۃ، فصل وأما الشرائط التي ترجع إلی المال، ٢/١١ ط: سعید)


فتاویٰ عالمگیری میں ہے۔

واما شروط وجوبھا ۔۔۔۔۔ ومنھا کون المال نصابا فلا تجب فی اقل منہ ھکذا فی العینی شرح الکنز… ومنھا الفراغ عن الدین قال  اصحابنا رحمھم اﷲ تعالیٰ کل دین لہ مطالب من جھۃ العباد یمنع وجوب الزکوۃ سواء کان الدین للعباد کالقرض وثمن البیع … او ﷲ تعالیٰ کدین الزکوۃ ۔۔۔۔۔۔ ومنها الملك التام وهو ما اجتمع فيه الملك واليد أمااذا وجد الملك دون اليـد ۔۔۔۔ لا تـجـب فيه الزكوة ...... ومنها فراغ المال عن الحاجة الاصليه ...... ومنها فراغ عن الدين ..... ومنها كون النصاب نامياً۔


ویشترط ان یتمکن من الاستنماء بکون المال فی یدہ أو یدنائبہ فان لم یتمکن من الاستنماء فلا زکاۃ علیہ وذلک مثل مال الضمار کذا فی التبیین وھو کل ما بقی اصلہ فی ملکہ ولکن زال عن یدہ زوالا لا یرجی عودہ فی الغالب کذا فی المحیط ومن مال الضمار الدین المجحود والمغصوب اذا لم یکن علیہما بینۃ فان کانت علیہما بینۃ وجبت الزکاۃ الا فی غصب السائمۃ فانہ لیس علی صاحبھا الزکاۃ وان کان الغاصب مقرا ومنہ المفقود والآبق والماخوذ مصادرۃ والساقط فی البحر والمدفون فی الصحراء المنسی مکانہ۔ (فتاویٰ عالمگیری ١٧٤ ۔ ۱۷۱/ ١)


مراقي الفلاح علی حاشیۃ الطحطاوي میں ہے۔

وإذا قبض مال الضمار لا تجب زکاۃ السنین الماضیۃ وہو کأبق ومفقود ومغصوب لیس علیہ بینۃ۔ (مراقي الفلاح علی حاشیۃ الطحطاوي، کتاب الزکاۃ، دارالکتاب دیوبند ص:۷۱۶)


فتاوی شامی میں ہے۔

(ولا فی مال مفقود) وجدہ بعد سنین (وساقط فی بحر) استخرجہ بعدھا (ومغصوب لا بینۃ علیہ) فلولہ بینۃ تجب لما مضی الافی غصب السائمۃ فلا تجب وإن کان الغاصب مقرّا کمافی الخانیۃ (ومدفون ببریۃ نسی مکانہ) ثم تذکرہ وکذا الودیعۃ عند غیر معارفہ بخلاف المدفون فی حرز۔ (ودین) کان (جحدہ المدیون سنین)و لابینۃ لہ علیہ (ثم) صارت لہ بأن (اقر بعدھا عند قوم) وقیدہ فی مصرف الخانیۃ بما اذا حلف علیہ عند القاضی أما قبلہ فتجب لما مضی (وما أخذ مصادرۃ) ای ظلما (ثم وصل الیہ بعد سنین) لعدم النمو۔ (فتاوی شامی ٣/١٨٢)


فتاوی شامی میں ہے۔

وليس في دور السكنى وثياب البدن وأثاث المنازل ودواب الركوب وعبيد الخدمة وسلاح الاستعمال زكاة؛ لأنها مشغولة بحاجته الأصلية وليست بنامية أيضاً۔ (فتاوی شامی ٣/١٩٢ ط: زکریا)


فتح القدير لكمال بن الهمام میں ہے۔

( ومن كان عليه دين يحيط بماله فلا زكاة عليه ) وقال الشافعي تجب لتحقق السبب وهو ملك نصاب تام ۔۔۔۔۔۔ ولنا أنه مشغول بحاجته الأصلية فاعتبر معدوما كالماء المستحق بالعطش وثياب البذلة والمهنة ( وإن كان ماله أكثر من دينه زكى الفاضل إذا بلغ نصابا ) لفراغه عن الحاجة الأصلية ، والمراد به دين له مطالب من جهة العباد حتى لا يمنع دين النذر والكفارة۔ (فتح القدير لكمال بن الهمام - ٣/٤٧٥) واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: