سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
امید ہے کہ آپ خیریت سے ہونگے حضرت مجھے آپ سے ایک مسلہ معلوم کرنا ہے مسئلہ یہ ہے کھانے پر یا کھانے کی کسی چیز پر فاتحہ خوانی کرنا کیسا ہے کرسکتے ہیں یا نہیں اور اور جس کھانے پر فاتحہ دی گئی ہو اس کھانے کو کھانا کیسا ہے حضرت اس کی وضاحت فرمائیں عین نوازش ہوگی۔
سائل: محمد فیضان کمال پور
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
کسی بھی مسلمان میت کو ثواب پہنچانا اہل سنت والجماعت کے نزدیک درست ہے، خواہ نماز پڑھ کر ہو یا صدقہ وخیرات کے ذریعہ ہو یا قرآن کریم کی تلاوت کے ذریعہ ہو بنا کسی خاص طریقہ کے میت کو اس کا ثواب پہنچاسکتے ہیں، لہذا فاتحہ خوانی کا شریعت میں کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں ہے، اور ایک خاص طبقے کے یہاں فاتحہ کا جو طریقہ مروج ہے یہ نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھا نہ خلفائے راشدین کے زمانے میں، بلکہ اس کا وجود تینوں قرون میں جن کی بھلائی کے بارے میں شہادت دی گئی ہے، منقول نہیں، جو شخص جس وقت جس دن چاہے، کوئی بھی نفلی عبادت کرکے اُس کا ثواب میت کو بخش سکتا ہے۔
لہذا مروجہ طریقہ پر باقاعدہ دن متعین کرکے اجتماعی طور پر تعزیت کے لیے جمع ہونا اور اجتماعی فاتحہ خوانی کرنا، جس میں میت کے یہاں کھانے پینے کا التزام ہو اور لوگوں کو باقاعدہ دعوت دے کر جمع کرنا، نہ آنے والوں سے ناراضی کا اظہار کرنا اور ان سب باتوں کو باعثِ ثواب اور شریعت کا حصہ سمجھنا بدعت ہے اور ناجائز وممنوع ہے، اگر کسی میت کےلیے ایصال ثواب کرنا ہے تو کھانا پکا کر کسی کو صدقہ کر دیا جائے، اور یہ دعا کر لی جائے کہ اللہ تعالی اس صدقے کا ثواب فلاں کو پہنچا دے، یہ جائز ہے اور اس کی نیت کرنے کے لئے نیاز فاتحہ کی ضرورت نہیں ہے۔
فتاویٰ رشیدیہ فتاویٰ محمودیہ میں بھی اس طرح وضاحت ہے کہ فاتحہ کا مروجہ طریقہ جو اہل بدعت میں رائج ہے، قطعاً بدعت اور بے اصل ہے، اکابر اور سلف صالحین سے اس کا ثبوت نہیں اور برکت کی دعا پر اسے قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ (مستفاد: فتاویٰ رشیدیہ ۱۵۷، فتاویٰ محمودیہ ١/۲۲٩)
امداد المفتیین میں ہے کھانے پر ختم پڑھنے کی جو مروجہ رسم ہے وہ بالکل بے اصل ہے (لیکن اگر ایسا کیا جائے تو یہ کھانا حرام نہیں ہوتا اس کا کھانا جائز ہے) نہ آنحضرت سے کہیں ثابت ہے نہ صحابہ وتابعین سے نہ ائمہ مجتہدین سے محض بدعت محدثہ ہے سمجھنے کے لئے اتنی بات کافی ہے کہ اگر یہ کوئی ثواب کا کام ہوتا تو صحابہ کرامؓ جوایسے کاموں کے عاشق تھے کبھی نہ چھوڑتے اور ہزاروں واقعات ان کے اس بارے میں منقول ہوتے حالانکہ تمام کتب تاریخ و سیر میں اس کا ایک واقعہ بھی پیش نہیں کیا جا سکتا کہ بطرز مروج کھانے پر فاتحہ کسی نے پڑھی ہو اس لئے بدعت وضلالت ہے۔ کما فی الحدیث الصحیح کل بدعۃ ضلالۃ وکل ضلالۃ فی النارمشکوٰۃ۔ ٢٦/ صفر ۱۳۵۰ھ (امداد المفتین۔ ٢/١٥٠ )
امداد الفتاوی میں ہے:
تیجہ، دسواں، چالیسواں وغیرہ سب بدعت کے قبیل سے ہیں اور ہندوستانی کافروں کے رسوم و رواج سے دَر آئی ہیں، اور کھانا سامنے رکھ کر جو کچھ پڑھتے ہیں یہ بھی ہندؤں کا طریقہ ہے، اس قسم کی رسومات کو ترک کرنا لازم ہے؛ کیوں کہ ’’من تشبه بقوم الخ‘‘ جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہیں میں سے شمار ہوگا، اور جب کھانے کے ساتھ اس قسم کی بدعتیں بھی ہونے لگیں تو بہتر یہ ہے کہ ایسا کھانا نہ کھایا جائے؛ کیوں کہ حدیث میں ہے ’’دع ما یریبك إلى مالا یریبك‘‘ مشکوک و مشتبہ چیزوں کو چھوڑ کر غیر مشتبہ چیزوں کو اختیار کرو، اور جو کھانا اور شیرینی بزرگوں کے نام نیاز کی جاتی ہے اس کی دو جہتیں ہیں: بعض جہلاء ان کو تقرب حاصل کرنے اور ان بزرگوں سے اپنی مرادیں مانگنے کی نیت سے کھلاتے ہیں اور شیرینی تقسیم کرتے ہیں، یہ تو شرک ہے، اور اس قسم کا کھانا اور شیرینی کھانا حرام ہے ’’وما اهل لغیر اللّٰه‘‘ میں داخل ہونے کی وجہ سے، اور بعض حضرات اللہ ہی کے لیے کھلاتے ہیں اور ان کی نیت یہ ہوتی ہے کہ اے اللہ اس کا ثواب فلاں بزرگ کی روح کو پہنچادے تو یہ جائز ہے، اور اس طرح کا کھانا اور شیرینی وغیرہ سب حلال ہیں۔ واللہ اعلم۔(امداد الفتاوی ٥/٢٦٩) واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں