سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
مولانا صاحب عرض یہ ہے کہ قرآن خوانی کرنا جائز ہے جیسا کہ نے گھر میں قرآن خوانی اور ایصال ثواب کے لئے مرحوم پر بخشا نے کے لئے ایسا کرنا جائز ہے؟ جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی جزاک اللّہ خیرا
محمد حارث جمالی بلیل پوری
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
تلاوت قرآن کریم کی دو شکلیں ہوتی ہیں اوردونوں کی حیثیت اور حکم بالکل الگ الگ ہے۔
(١) شکل محض تلاوت اس سے ثواب دارین مقصود ہو تو ایسے صورت میں وہ تلاوتِ مجردہ کی قبیل سے ہوکر اس پر اجرت لینا درست نہیں ہوگا جیسے میت پر قرآن خوانی کرنا وغیرہ۔
شامی میں ہے۔
فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لايجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر! ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظيم مكسباً ووسيلةً إلى جمع الدنيا۔ إنا لله وإنا إليه راجعون۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ٩/٧٧ ط: زکریا)۔
(٢) تلاوت قرآن کریم سے مقصود تلاوت نہیں ہے بلکہ اس سے حصول برکت اور علاج تداوی ہے جیسے دوکان پر سورۂ بقرہ چالیس دن مسلسل پڑھنا وغیرہ تو اس پر اجرت لینا درست ہے وہ تلاوتِ مجردہ میں شامل نہیں ہوگا۔
شامی میں تلاوتِ مجردہ کے سلسلہ میں بیان کرتے ہوئے علامہ شامی نے یہ جزیہ نقل کرکے مدت کی تعیین میں حلت اجرت کی وضاحت کی ہے۔
واختلفوا في الاستئجار على قراءة القرآن مدة معلومة قال بعضهم: لا يجوز، وقال بعضهم: يجوز وهو المختار اه. (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ٩/٧٧ ط: زکریا)
فتاویٰ قاسمیہ میں بھی ایک ایسے سوال کے جواب میں اجرت کے حلت کو واضح کیا ہے، ملاحظہ فرمائیں۔
(١) قرآن کریم کی تلاوت نماز میں کی جائے اور اس میں اصل مقصد نماز کے ساتھ ساتھ تلاوت قرآن اور ختم قرآن بھی ہو، جیسے تراویح میں ختم قرآن ہوا کرتا ہے، اسی طرح قرآن کریم پڑھنے میں تلاوت اور اس کا ثواب مقصود ہو، جیسے کہ میت کو ثواب پہونچانے کے لئے تلاوت کی جاتی ہے، ایسی شکل میں تلاوت کی اجرت لینا، اسی طرح ختم قرآن کی اجرت لینا ناجائز اورحرام ہے اور یہ تلاوت مجردہ میں شامل ہے اور دینے والے کے لئے دینا بھی جائز نہیں جس کی ممانعت خود قرآن کریم میں آئی ہے۔
وَلَا تَشْتَرُوْا بِآَیَاتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا ۔(سورۃ البقرہ:۴۱)
ولایصح الاستئجار علی القراء ۃ وإہدائہا إلی المیت؛ لأنہ لم ینقل عن أحد الأئمۃ الإذن في ذلک، وقد قال العلماء: إن القاري إذا قرء لأجل المال، فلاثواب لہ، فأي شیئ یہدیہ إلی المیت۔ (شامي، کتاب الاجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب في الإستئجار علی الطاعات، زکریا ۹/۷۸)
(۲) خود قرآن پڑھنے میں اصل مقصد تلاوت اور ثواب نہ ہو؛ بلکہ خیر وبرکت یا شفاء مقصود ہو، تو ایسی صورت میں قرآن کریم پڑھنا جھاڑ پھونک کے قبیل سے ہے کہ قرآن پڑھ کر برکت حاصل ہوجائے یا شفاء حاصل ہوجائے تو اس کی اجرت لینا دینا جائز ہے، جیسا کہ حدیث پاک میں حضرا صحابہ کرام ؓ کا کسی دشمن کے سانپ یا بچھو کے ڈسنے پر سورۂ فاتحہ پڑھ کرکچھ لینا دینا ثابت ہے، اگرچہ اس کی ایک تاویل یہ بھی ہے کہ دشمنوں کا مال کسی بھی طریقہ سے لینا جائز ہے۔
عن أبي سعید الخدري رضی اللہ عنہ-إلی- فجعل یقرأ بأم القرآن، ویجمع بزاقہ ویتفل، فبرأ فأتوا بالشاء فقالوا: لانأ خذہ حتی نسأل النبي صلی اللہ علیہ وسلم فسألوہ فضحک وقال وماأدراک أنہا رقیۃ خذوہا واضربوا لي بسہم۔ (صحیح البخاري، باب الرقي بفاتحۃ الکتاب، النسخۃ الہندیۃ ۲/۸۵۴، رقم: ۵۵۱۲، ف: ۵۷۳۶، السنن الکبری للنسائي ۹/۲۸۸، رقم: ۱۰۸۰۰)
لأن المتقدمین المانعین الاستئجار مطلقا جوزوا الرقیۃ بالأجرۃ، ولوبالقرآن کما ذکرہ الطحاوی لأنہا لیست عبادۃ محضۃ بل من التداوی۔ (شامي، کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب في الاستئجار علی الطاعات، زکریا۹/۷۹) فتاویٰ قاسمیہ ٤/١٥٥) فقط واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں