منگل، 15 مارچ، 2022

ٹیٹو بنوانے کی صورت میں وضوء اور نماز کا حکم سوال نمبر ٢٢٨

 سوال

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

السلام علیکم ورحمۃاللہ و برکاتہ 

اگر ہاتھ میں ٹیٹوں لگایا ہو تو اس کی نماز کا کیا حکم ہے؟

سائل: معاذ بن احمد وانکانیری


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی

 

جسم کے کسی حصہ پر ٹیٹو بنانا شرعاً ناجائز اور حرام ہے، اور گناہِ کبیرہ ہے، ٹیٹو بنوانے والوں پر اللہ رب العزت کی جانب سے لعنت کی گئی ہے، اگر کسی نے جسم پر ٹیٹو بنوا رکھے ہوں تو اسے چاہیے کہ وہ اللہ کے حضور سچے دل سے توبہ کرے، اور اگر اسے زائل کرنا ممکن ہو تو بذریعہ علاج جسم سے ختم کروائے، موجودہ دور میں اسے جدید طریقہ علاج سے مشقت کے بغیر زائل کرنا بھی ممکن ہوگیا ہے۔


البتہ ٹیٹو بنوالیا تو اب اس کے ہوتے ہوئے وضوء اور واجب غسل کا کیا حکم ہے، تو چونکہ ٹیٹو کی مختلف صورتیں ہیں اس حساب سے حکم بھی مختلف ہوگا، ٹیٹو اگر ایسے رنگ سے بنوایا ہے جس کی تہہ اور پرت بن گئی ہو تو وضو اور واجب غسل کے وقت اس کا چھڑانا ضروری ہے، اس کے ہوتے ہوئے وضو اورغسل صحیح نہ ہوگا، ویسے آج کل بازاروں میں ایسے کیمیکل دستیاب ہیں جن سے یہ ٹیٹو صاف ہوجاتے ہیں۔


اور اگر ایسا کیمیکل دستیاب نہ ہو کہ جس سے ٹیٹو کی پرت صاف ہوسکتی ہو اور کوشش کے باوجود وہ رنگ نہ اتر رہا ہو اور دوسری طرف نماز کے فوت ہوجانے کا خطرہ ہو یا ایسا پرت دار ٹیٹو جو دائمی ہو کسی صورت نکل نہ سکتا ہوتو ان صورتوں میں مجبوری کی وجہ سے وضو اور غسلِ واجب درست ہوجائے گا۔


اور اگر وہ جلد کو گندھوا کر بنایا گیا ہے جیسے عام طور پر گندھواتے ہیں تو وہ جلد ہی کے حکم میں ہوگا، لہٰذا اس کے ہوتے ہوئے وضو اور غسلِ واجب درست ہوجائے گا۔


اور اگر ٹیٹو ایسا رنگ لگاکر بنوایا ہے جو مہندی کی طرح بدن کا حصہ بن جاتا ہے اور رنگ کی تہہ یا پرت نہیں بنتی تو اس کے ہوتے ہوئے بھی وضو اور غسل درست ہوگا۔


 صحیح البخاری میں ہے۔

عن ابن عمر رضي الله عنه عن النبي صلّى الله عليه وسلّم، حيث قال لعَنَ اللَّهُ الواصلةَ و المُستوصِلةَ، والواشمةَ و المُستوشِمة۔ (رواه البخاري، عن عبد الله بن عمر، باب الوصل في الشعر، ٧/١٦۵ رقم الحدیث: ۵٩٣٧، ط: دار طوق النجاة (مصورة عن السلطانية بإضافة ترقيم ترقيم محمد فؤاد عبد الباقي)


فتح الباری شرح صحیح البخاری میں ہے۔

إلا بالجرح فإن خاف منه التلف، أو فوات عضو، أو منفعة عضو، أو حدوث شين فاحش في عضو ظاهر، لم تجب إزالته وتكفي التوبة في هذه الحالة، وإن لم يخف شيئاً من ذلك ونحوه لزمه إزالته ويعصي بتأخيره، وسواء في ذلك كله الرجل والمرأة۔  (فتح الباری شرح صحیح البخاری ١٠/ ٣٧٢)


المنهاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج میں ہے۔

الوشم وهي أن تغرز إبرة أو مسلة أو نحوهما في ظهر الکف أو المعصم أو الشفة أو غیر ذلک من بدن المرأة حتی یسیل الدم، ثم تحشو ذلک الموضع بالکحل أو النورة فیخضر … فإن طلبت فعل ذلک بها فهي مستوشمة، وهو حرام علی الفاعلة والمفعول بها باختیارها والطالبة له ... وسواء في هذا کله الرجل والمرأة . والله أعلم". (المنهاج شرح صحیح مسلم ۷/۲۳۱ ، کتاب اللباس والزینة ، باب تحریم فعل الواصلة والمستوصلة والواشمة والمستوشمة، تحت الرقم ۲۱۲۵)


فتاوی شامی میں ہے۔

يستفاد مما مرّ حكم الوشم في نحو اليد، وهو أنه كالاختضاب أو الصبغ المتنجس؛ لأنه إذا غرزت اليد أو الشفة مثلاً بإبرة، ثمّ حشي محلها بكحل أو نيلة ليخضر، تنجس الكحل بالدم، فإذا جمد الدم، والتأم الجرح بقي محله أخضر، فإذا غسل طهر؛ لأنه أثر يشق زواله؛ لأنه لايزول إلا بسلخ الجلد أو جرحه، فإذا كان لايكلف بإزالة الأثر الذي يزول بماء حار أو صابون فعدم التكليف هنا أولى. وقد صرح به في القنية فقال: ولو اتخذ في يده وشماً لايلزمه السلخ ... الخ (ردالمحتار على الدر المختار، كتاب الطهارة، باب الأنجاس، مطلب في حكم الوشم، ١/٥٣٨)


بدائع الصنائع میں ہے۔

الغسل إسالۃ الماء علی جمیع ما یمکن غسلہ من بدنہ مرۃ واحدۃ حتی لو ترک شیئا یسیرا لم یصبہ الماء لم یخرج من الجنابۃ وکذا في الوضوء ۔(بدائع الصنائع: ۱/ ۱۱۱)


فتاویٰ ہندیۃ میں ہے۔

وإن کان علی ظاھر البدن جلد سمک أو خبز ممضوغ قد جف فاغتسل ولم یصل الماء إلی ما تحتہ لایجوز۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱/ ۱۳)


مجمع الأنہر میں ہے۔

أثر شق زوالہ بأن یحتاج في إخراجہ إلی نحو الصابون۔ (مجمع الأنہر  ١/٩٠)


البحر الرائق میں ہے۔

والمراد بالأثر اللون والریح، فإن شق إزالتہما سقطت۔ (البحر الرائق ١/٢٣٧)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: