منگل، 22 مارچ، 2022

سمع اللہ لمن حمد کے بعد ربنا لك الحمد حمدا کثیرا کی زیادتی کا حکم سوال نمبر ٢٤٥

 سوال

السلام علیکم ورحمةاللہ

حضرت کیا فرماتے ہے فقہائے اکرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ مصلی امام کے ساتھ ہو یا وہ منفرد ہو اور رکوع سے اٹھنے کے بعد سمع اللہ لمن حمد کے بعد ربنا لك الحمد حمدا کثیرا طيبا مباركا فيه کہنا کیسا ہے خلاصہ میے سوال کا یہ ہے کہ ربنالك الحمد کے بعد  حمدا کثیرا طیبا کے الفاظ کا اضافہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟ دلیل مع حوالہ بیان کردینا بہت شکریہ ہوگا۔

سائل: ربیع العالم بن سید قاسم ارکانی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


احادیث میں نماز کے دوران مختلف اذکار و دعائیں وارد ہوئی ہیں اور فقہاء احناف نے ان تمام اذکار و ادعیہ کو فرائض کے علاوہ نوافل میں مسنون قرار دیا ہے۔ لہٰذا نوافل ہی میں ان کا اہتمام کرنا چاہیے۔

البتہ نماز میں اذکار و دعائیں کرنا امام اور منفرد دونوں کے لئے جائز ہے، یعنی ان دعاؤں کو پڑھنے سے نماز میں کسی طرح کی خرابی نہیں آتی اسی طرح ربنا لک الحمد کے بعد حمدا کثیر طیباً مبارکا فیہ کا اضافہ کرنا مقتدی کے لیے اچھا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس سے امام کی اتباع میں تاخیر نہ واقع ہوتی ہو۔ لیکن فقہاء احناف نے یہ صراحت فرمائی ہے کہ جماعت کی نماز میں چونکہ ہر طرح کے لوگ شریک رہتے ہیں، اس لئے امام کے لئے اولیٰ یہی ہے کہ وہ قومہ اور جلسہ میں زائد ذکر ودعا نہ کرے؛ کیوںکہ اس کی وجہ سے بعض مقتدیوں کو گرانی ہوسکتی ہے اور احادیث میں مقتدیوں کی رعایت وارد ہوئی ہے۔


فتاوی شامی میں ہے۔

قال أبو یوسف: سألت الإمام أیقول الرجل إذا رفع رأسہ من الرکوع والسجود: ’’اللّٰہم اغفرلي‘‘؟ قال: یقول: ’’ربنا لک الحمد‘‘، وسکت۔ ولقد أحسن في الجواب إذ لم ینہ عن الاستغفار، نہر وغیرہ۔ أقول: بل فیہ إشارۃ إلی أنہ غیر مکروہ، إذ لو کان مکروہًا لنہیٰ عنہ کما ینہي عن القراء ۃ في الرکوع والسجود، وعدم کونہ مسنوناً لا ینافي الجواز کالتسمیۃ بین الفاتحۃ والسورۃ؛ بل ینبغي أن یندب الدعاء بالمغفرۃ بین السجدتین خروجاً من خلاف الإمام أحمد، لإبطالہ الصلاۃ بترکہ عامدًا ولم أر من صرّح بذٰلک عندنا، لکن صرّحوا باستحباب مراعاۃ الخلاف، واللّٰہ أعلم۔ (شامي ٢ /۲۱۲-۲۱۳ زکریا، )


فتاوی شامی میں ہے۔

ویجلس بین السجدتین مطمئنا ولیس فیھا ذکر مسنون وکذا بعد رفعہ من الرکوع وسجودہ بعد التسبیح علی المذھب وما رواہ محمول علی النفل (فتاوی شامی  ٢/٢١٣)


حمدا کثیرا کے اضافہ کے سلسلہ میں مختلف  فتاوی پیش نظر ہے ملاحظہ فرمائیں۔


کتاب الفتاوی میں ایک سوال کے جواب میں تحریر ہے۔

جواب 

حضرت رفاعہ بن رافع   سے مروی ہے : ’’ ہم لوگ ایک دن رسول اللہ ا کی عید گاہ میں نماز ادا کررہے تھے ، جب حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع سے سر اٹھایا تو فرمایا : ’’سمع اللّٰہ لمن حمدہ‘‘  تو آپ کے پیچھے ایک شخص نے کہا : ’’ربنا لک الحمد حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ‘‘ جب آپ   نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا یہ کہنے والا کون ہے ؟ انہوں نے کہا : میں ہوں ،آپ نے فرمایا : میں نے تیس سے زائد فرشتوں کو دیکھا کہ اس کو لکھنے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لئے کوشاں ہیں‘‘۔ 

 اس سے معلوم ہوا کہ اگر نماز میں اس طرح تحمید کے کلمات کہے جائیں تو نماز فاسد نہیں ہوگی ، البتہ صحابہ کا جو عام معمول تھا، وہ یہی کہ جماعت کی نماز میں صرف ’’ ربنا لک الحمد‘‘کہنے پر اکتفاء کرتے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت بھی یہی منقول ہے کہ جب امام ’’سمع اللّٰہ لمن حمدہ‘‘ کہے تو تم ’’ربنا لک الحمد‘‘ کہو اس لئے احناف اور اکثر فقہاء کی رائے یہی ہے کہ فرض نمازوں میں اتنے ہی پر اکتفاء کرنا بہتر ہے ، البتہ نفل نماز میں تحمید کے وہ کلمات کہے جس کا آپ نے سوال میں ذکر کیا ہے ،کیونکہ نفل میں بمقابلہ فرض کے گنجائش زیادہ ہے۔ رہ گیا حضور کا ارشاد تو اس کا مقصد ان کلمات کی تحسین ہے ، نہ کہ عمل کی توثیق، یعنی حضورا  کا یہ مقصود نہیں کہ لوگ اس طرح کلمۂ تحمید کہا کریں ، اگر یہ مقصد ہوتا تو آپ ا نے دوسرے صحابہ کو بھی اس طرح کہنے کی ترغیب دی ہوتی ، بلکہ اس کا مقصد ان حمدیہ کلمات کی تحسین ہے ۔

(۱) صحیح البخاری : ۱/۱۱۰ حدیث نمبر : ۷۹۹ ، باب نمبر :۱۲۶ ۔ محشی ۔(۲) صحیح البخاری، حدیث نمبر : ۷۹۹ ، باب فضل اللّٰھم ربنا لک الحمد ۔ محشی۔ (کتاب الفتاوی جلد ٢/١٢٥)


کتاب النوازل میں ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے۔

الجواب وباللّٰہ التوفیق

اس بارے میں امام صاحبؒ سے مشہور روایت یہ ہے کہ امام صرف تسمیع اور مقتدی صرف تحمید کہے، اور صاحبینؒ کا مذہب یہ ہے کہ امام دونوں کو جمع کرے، امام صاحبؒ کی ایک روایت صاحبینؒ کے موافق ہے اور متأخرین احناف اور امام طحاویؒ وغیرہ نے جمع کی روایت کو ہی ترجیح دی ہے؛ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ امام ’’سمع اللہ لمن حمدہ‘‘ کے بعد ’’ربنا لک الحمد‘‘ بھی کہے۔

عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا أنہا قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا رفع رأسہ من الرکوع قال: ’’سمع اللّٰہ لمن حمدہ، ربنا لک الحمد‘‘۔ (صحیح البخاري، الأذان / باب ما یقول الإمام إذا رفع رأسہ من الرکوع رقم: ۷۹۵، صحیح مسلم رقم: ۳۹۲)

فیجمع بین التسمیع والتحمید لو کان إماماً ہٰذا قولہما وہو روایۃ عن الإمام اختارہا الحاوي القدسي وکان الفضلي والطحاوي وجماعۃ من المتأخرین یمیلون إلی الجمع۔ (المراقي مع الطحطاوي ۱۵۴)

ثم یرفع رأسہ من رکوعہ مسمعاً ویکتفی بہ الإمام، وقالا: یضم التحمید سراً۔ (درمختار) وقال الشامي: ہو روایۃ عن الإمام أیضاً؛ وإلیہ مال الفضلي والطحاوي وجماعۃ من المتأخرین۔ معراج عن الظہیریۃ۔ واختارہ في الحاوي القدسي، ومشي علیہ في نور الإیضاح، لکن المتون علی قول الإمام۔ (الدرالختار مع الشامي ۲؍۲۰۱ زکریا، بدائع الصنائع ۱؍۴۸۹ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔ (کتاب النوازل ٤/٦١)



فتاوی بنوریہ میں ایک سوال کے جواب میں تحریر فرمایا ہے۔

جواب

اگر آپ کا سوال مقتدی کے حوالے سے ہے تو اس کا حکم یہ ہے کہ فرض نماز کی جماعت میں، یا رمضان المبارک کی تراویح یا وتر کی جماعت میں اگر مقتدی کو   "ربنا لك الحمد"  کہنے کے بعد  "حمدًا کثیرًا طیبًا مباركًا فیه"کہنے کا موقع مل جائے اور امام سے پیچھے نہ رہ جاتا ہو تو پڑھ سکتا ہے ورنہ نہیں پڑھنا چاہیے۔

اور اگر سوال امام سے متعلق ہے تو بہتر یہ ہے کہ امام جماعت کی نماز میں یہ الفاظ ادا نہ کرے؛ تا کہ نماز زیادہ لمبی نہ ہو جائے، نیز امام کے لیے ’’سمع الله لمن حمده‘‘  کہہ کر قومے میں خاموش رہنا راجح ہے،  "ربنا لك الحمد" کے کلمات صرف مقتدیوں کو کہنے چاہییں.

اور انفرادی نماز ادا کرتے ہوئے ہر نماز میں قومے کے دوران مذکورہ کلمات پڑھے جاسکتے ہیں، اس میں حرج نہیں ہے۔ (فتوی نمبر : ١٤٤١٠٤٢٠١٠٢٨ دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن)

 

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ایک سوال کے جواب میں تحریر فرمایا ہے۔

جواب

نماز کی مختلف حالتوں کے بابت احادیث میں مختلف اذکار و دعائیں وارد ہوئی ہیں، مثلاً حدیث میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے اٹھ کر یہ پڑھتے تھے اللّٰہُمَّ ربنا لک الحمد ملأ السماوات والأرض وملأ ما شئت من شيء بعد اسی طرح رکوع و سجود میں یہ دعا پڑھتے تھے، سبحانک اللّھم وبحمدک اللّھم اغفر لي اوردونوں سجدوں کے درمیان اس دعا کے پڑھنے کا ذکر ملتا ہے: اللھم اغفر لي وارحمني وعافني وارزقني ان کے علاوہ مشکوٰة و دیگر کتب احادیث میں طویل دعاوٴں کا بھی ذکر ملتا ہے؛ لیکن حدیث میں چوں کہ ہلکی نماز پڑھانے کی تاکید آئی ہے، چنانچہ وارد ہے: إذا صلّی أحدکم للناس فلیخفف اس بنا پر فقہاء احناف نے ان تمام اذکار و ادعیہ کو فرائض کے علاوہ نوافل میں مسنون قرار دیا ہے۔ لہٰذا نوافل ہی میں ان کا اہتمام کرنا چاہیے۔ ربنا لک الحمد کے بعد حمدا کثیر طیباً مبارکا فیہ کا اضافہ کرنا مقتدی کے لیے اچھا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس سے امام کی اتباع میں تاخیر نہ واقع ہوتی ہو۔ البتہ امام کو یہ اضافہ نہیں کرنا چاہیے۔ ویجلس بین السجدتین مطمئنا ولیس فیھا ذکر مسنون وکذا بعد رفعہ من الرکوع وسجودہ بعد التسبیح علی المذھب وما رواہ محمول علی النفل (الدر مع الشامي: ج۲ ص۲۱۳)۔ (فتاوی دارالعلوم دیوبند جواب نمبر: ٣٤٦٠)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: