بدھ، 16 مارچ، 2022

شادی کے بعد بیوی اپنے میکہ جانے کی مدت کیا ہے؟ سوال نمبر ٢٣٧

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

 آپ حضرات خیر عافیت سے ہونگے  مجھے آپ سے ایک مسئلہ پوچھنا ہے کیابیوی ہر مہینے میں ہفتہ کے بعد باپ کے گھر میں جانا شریعت میں کوئی ایسی بات ہے؟ بالتفصیل بیان کیجۓ عند اللہ ماجور  ہونگے۔

سائل: احسان برماوی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


شادی کے بعد والدین سے ملنے کے لیے جانا عورت کا حق ہے،  آپسی رضامندی سے اس کے لیے کسی مدت کو متعین کرلیا جائے، جس میں گھر کے کام کاج بھی متاثر نہ ہو ں اور بیوی کی حق تلفی بھی نہ ہو۔

لہذا اگر بیوی کا خاندان قریب میں ہی ہیں تو ہفتے میں ایک دن اور دور ہے تو مہینہ میں ایک بار اور اگر زیادہ دور ہے تو سال بھر میں کبھی کبھار کسی محرم کے ساتھ جاکر اپنے والدین کی زیارت کے لئے عورت جاسکتی ہے، اور شوہرکا روکنا بھی درست نہیں ہے، بلکہ شوہر کو بھی چاہیے کہ وقتًا فوقتًا اپنے خاندان اور عرف کے مطابق اپنی بیوی کو والدین اور محارم عزیز واقارب سے ملاقات کرنے کی اجازت دے۔


لیکن اگر شوہر بیوی کو میکہ میں جانے سے روکتا ہے تو دیکھا جائے گا کہ وہ کس لئے روکتا ہے، اگر شوہر  کسی معقول وجہ سے روکے جیسے کہ والدین کے گھر جانے سے فتنے کا اندیشہ ہو یا شوہر خدمت کا محتاج ہو اور بیوی کے جانے سے اسے ضرر لاحق ہو یا سسرال والوں کا دینی ماحول درست نہ ہو جس کی وجہ سے بیوی کے دینی نقصان کے پیشِ نظر دور رکھتا ہے تو اس کا روکنا جائز ہے، اور بیوی کا اس کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلنا درست نہیں ہوگا۔


اور اگر شوہر کسی عناد یا آپسی تکرار وعداوت کی وجہ سے اجازت نہیں دیتاہے، تو پھر شریعت نے عورت کو یہ حق دیا ہے کہ  شوہر کی اجازت کے بغیر بھی والدین سے ہفتہ میں ایک دفعہ اور محرم رشتہ داروں سے سال بھر میں ایک دفعہ ملاقات کے لئے جاسکتی ہے۔


فتاوی عالمگیری میں ہے۔

كذا في فتاوى قاضي خان. وقيل: لايمنعها من الخروج إلى الْوالدين في كل جمعة مرة، وعليه الفتوى، كذا في غاية السروجي وهل يمنع غير الأبوين عن الزيارة في كل شهر، وقال مشايخ بلخ في كل سنة وعليه الفتوى، وكذا لو أرادت المرأة أن تخرج لزيارة المحارم كالخالة والعمة والأخت فهو على هذه الأقاويل، كذا في فتاوى قاضي خان. (الفتاوى الهندية  ١/۵۵٧)


البحر الرائق میں ہے:

ينبغي أن یؤذن لها في زیارتھما الحین بعد الحین علی قدر متعارف ... وفيه الصحيح المفتى به تخرج للوالدين في کل جمعة بإذنه وبغير إذنه و لزیارۃ المحارم في کلّ سنة مرة بإذنه وبغير إذنه۔ (البحر الرائق ٤/١٩۵)


فتاوی شامی میں ہے۔

فلاتخرج إلا لحق لها أو عليها  أو لزيارة أبويها كل جمعة مرة أو المحارم كل سنة۔

( فلا تخرج الخ ) جواب شرط مقدر ؛ أي فإن قبضته فلا تخرج الخ ، وأفاد به تقييد كلام المتن ، فإن مقتضاه أنها إن قبضته ليس لها الخروج للحاجة وزيارة أهلها بلا إذنه مع أن لها الخروج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( أو لزيارة أبويها ) سيأتي في باب النفقات عن الاختيار تقييده بما إذا لم يقدرا على إتيانها ، وفي الفتح أنه الحق . قال : وإن لم يكونا كذلك ينبغي أن يأذن لها في زيارتهما في الحين بعد الحين على قدر متعارف ، أما في كل جمعة فهو بعيد ، فإن في كثرة الخروج فتح باب الفتنة خصوصاً إن كانت شابة والرجل من ذوي الهيئات۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ٤/٢٩٤)

ایضاً

( على ما اختاره في الاختيار ) الذي رأيته في الاختيار شرح المختار : هكذا قيل لا يمنعها من الخروج إلى الوالدين ، وقيل يمنع ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وعن أبي يوسف في النوادر تقييد خروجها بأن لا يقدرا على إتيانها ، فإن قدراً لا تذهب وهو حسن ، وقد اختار بعض المشايخ منعها من الخروج إليهما ، وأشار إلى نقله في شرح المختار . والحق الأخذ بقول أبي يوسف إذا كان الأبوان بالصفة التي ذكرت ، وإلا ينبغي أن يأذن لها في زيارتهما في الحين بعد الحين على قدر متعارف، أما في كل جمعة فهو بعيد ، فإن في كثرة الخروج فتح باب الفتنة خصوصاً إذا كانت شابة والزوج من ذوي الهيئات ، بخلاف خروج الأبوين فإنه أيسر اهـ . وهذا ترجيح منه لخلاف ما ذكر في البحر أنه الصحيح المفتى به من أنها تخرج للوالدين في كل جمعة بإذنه وبدونه ، وللمحارم في كل سنة مرة بإذنه وبدونه۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ۵/٣٢٤)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: