سوال
السلام عليكم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
حضرت عصر کی قضاء نماز کوادا کرنے کا بہترین طریقہ کیا ہے؟
ہمارے یہاں ایک صاحب کا کہنا ہیکہ پہلے عصر کی قضاء ادا کریں پھر اس دن کی اپنے وقت کی نماز ادا کریں اسمیں ذرا رہنمائی فرمائیں بہترین وقت کیا ہے۔
سائل: محمد مشتاق محمد یاسین جموں کشمیر
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
سوال میں ذکر کردہ صورت اس وقت ہے جب آپ صاحب ترتیب ہو۔ صاحب ترتیب وہ شخص کہلاتا ہے جس کی بالغ ہونے کے بعد سے چھ نمازیں قضاء نہ ہوئی ہوں،چاہے مسلسل یا متفرق طور پر اور اگر قضاء ہوئی ہو تو اس نے اس کو لوٹا لیا ہو اور فی الحال اس کے ذمے کسی بھی نماز کو قضاء کرنا باقی نہ رہاہو، وہ شریعت کی اصطلاح میں صاحب ترتیب کہلاتا ہے،
صاحب ترتیب کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے فوت شدہ نماز کی قضاء پڑھے گا، پھر وقتیہ نماز ادا کرے گا۔ جب بھی چھ یا چھ سے زائد نمازیں قضاء ہو جائیں پھر وہ صاحب ترتیب نہیں رہے گا۔
صاحب ترتیب کے لیے نمازوں میں ترتیب کا لحاظ رکھنا یعنی آئندہ نماز پڑھنے سے پہلے قضا نماز پڑھنا ضروری ہے اور جو شخص صاحب ترتیب نہ ہو اس کے لیے ترتیب کا لحاظ رکھنا ضروری نہیں ہے۔
لہذا اگر آپ صاحب ترتیب نہیں ہے تو یہ حکم نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ قضاء نمازوں کی ادائیگی کے لیے شرعاً کوئی خاص وقت متعین نہیں ہے۔ ممنوع اوقات (سورج طلوع ہونے کے وقت، زوال کے وقت اور غروب کے وقت) کے علاوہ کسی بھی وقت فضاء نماز ادا کی جا سکتی ہیں، جب بھی موقع ملے اور جتنی ہو سکیں ادا کرنا جائز ہے۔
صورت مسئولہ میں اگر آپ صاحب ترتیب ہے تو آپ کے لئے پہلے چھوٹی ہوئی نمازوں کو قضاء کرنا ضروری ہے اور اگر آپ صاحب ترتیب نہیں ہے تو آپ کے لئے، تو وقت ہو تو قضاء نماز پھلے اور اگر وقت نہیں ہے تو فی الحال چھوٹی ہوئی نمازوں کو قضاء کرنا آپ پر ضروری نہیں ہے پہلے ادا نماز کو پڑھ لیں بعد میں مکروہ اوقات کو چھوڑ کر کسی بھی وقت فضاء نماز ادا کریں۔
فتاویٰ ہندیۃ میں ہے۔
ویسقط الترتیب بضیق الوقت، والنسیان، وصیرورتہا ستا: أي بصیرورۃ الفوائت ستا، وبکل واحد من ہذہ الثلاثۃ یسقط الترتیب۔ (الفتاویٰ ہندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب الحادي العشر في قضاء الفوائت، ۱/۱۸۲)
البحر الرائق میں ہے۔
وصیرورتہا ستا أي ویسقط الترتیب بصیرورۃ الفوائت ست صلوات۔ (البحر الرائق، کتاب الصلاۃ، باب قضاء الفوائت، ۲/١٤٩)
فتاوی عالمگیری میں ہے۔
والقضاء فرض فی الفرض و واجب فی الواجب۔ ثم لیس للقضاء وقت متعین الخ (فتاوی عالمگیری ۱/١٣٤)
اللباب في شرح الكتاب میہ ہے۔
وإن فاتته صلوات رتبها لزوماً في القضاء كماوجبت عليه في الأصل أي قبل الفوات، وهذا حيث كانت الفوائت قليلة دون ست صلوات، وأما إذا صارت ستاً فأكثر فلا يلزمه الترتيب؛ لما فيه من الحرج؛ ولذا قال: إلا أن تزيد الفوائت على ست صلوات وكذا لو كانت ستاً، والمعتبر خروج وقت السادسة في الصحيح، إمداد فيسقط الترتيب فيها أي بينها، كما سقط فيما بينها وبين الوقتية، ولا يعود الترتيب بعودها إلى القلة على المختار كما في التصحيح ( اللباب في شرح الكتاب١/٨٧)
مراقی الفلاح شرح نور الایضاح میں ہے۔
الترتيب بين الفائتة والوقتية وبين الفوائت مستحق، ويسقط بأحد ثلاثة أشياء: ضيق الوقت المستحب في الأصح، ....................... والنسيان، وإذا صارت الفوائت ستا غير الوتر۔(١٧١ ١٧٢ /١ ط: المکتبۃ العصریۃ)۔
شامی میں ہے۔
وقید بقضاء البعض؛ لأنہ لو قضی الکل عاد الترتیب عند الکل۔ (شامي، کتاب الصلاۃ، باب قضاء الفوائت، ۲/۵۲٩)واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں