منگل، 1 مارچ، 2022

نواقض وضوء کتنے ہیں کون کونسے سوال نمبر ١٩٢

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

نواقض وضو کتنے ہیں اور کون کونسے ہیں اور کیا نواقض وضو کے علاوہ کسی دوسرے سبب سے بھی وضو ٹوٹ سکتا ہے؟؟؟ مثلاً نا محرم پر نذر ڈالنا وغیرہ مدلل جواب مرحمت فرماٸیں

سائل: حارث جمالی ہریدوار


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


جن چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور دوبارہ وضو کرنا ہوتا ہے، اس کو ناقض وضو کہتے ہیں۔ اس کی جمع نواقض آتی ہے۔


مجموعی اعتبار سے نواقض وضوء کا تعلق چار طرح پر ہے۔ اور وہ آٹھ ہے

{١} دو کا تعلق سر سے ہیں

 ١۔۔ بیہوشی طاری ہوجانا

٢۔۔ جنون طاری ہوجانا۔

{٢} دو کا تعلق منہ سے ہے۔

١۔۔ منھ بھر کے قے کرنا

٢۔۔ رکوع سجدہ والی نماز میں قہقہ مارکر ہنسنا۔

{٣} دو کا تعلق شرمگاہ سے ہے

١۔۔ آگے یا پیچھے کی شرمگاہ سے کسی چیز کا نکلنا مثلاً پاخانہ، پیشاب، استحاضہ کا خون، کیڑا وغیرہ۔

٢۔۔ مباشرت فاحشہ یعنی بلا کسی حائل کے شرمگاہ کا شرمگاہ سے ملانا۔

{٤} دو کا تعلق جسم سے ہیں۔

١۔۔ بدن کے کسی حصے سے نجاست کا نکلنا اور بہہ جانا۔ جیسے خون، پیپ، مواد وغیرہ۔

٢۔۔ اسی نیند جس سے اعضاء مضمحل ہوجائیں یعنی ٹیک وغیرہ لگاکر سونا۔

(ملخص از بہشتی زیور اور تعلیم الاسلام) اصولی طور پر ان چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔


وضو کو توڑنے والی چیزیں دو قسم پر ہے ایک حقیقیہ دوسری حکمیہ ان کی تفصیل اس طرح سے ہیں۔

١۔۔۔ جو چیز سبیلین سے عادت کے طور پر نکلے۔

٢۔۔۔ جو چیز سبیلین سے عادت کے خلاف نکلے۔

٣۔۔۔ سبیلین کے علاوہ کسی اور جگہ سے نجاست کا نکلنا جیسے پیپ یا کچ لہو کا نکلنازخم یا بیماری وغیرہ کی وجہ سے پانی کا نکلنا

٤۔۔۔  قے کرنا

٥۔۔۔ نیند

٦۔۔۔ بیہوشی و غشی

٧۔۔۔ جنون 

٨۔۔۔ نشہ

٩۔۔۔ قہقہہ 

١٠۔۔۔ مباشرت فاحشہ


حقیقی نواقض وضوء چار ہے۔

{١} جو چیز سبیلین سے عادت کے طور پر نکلے۔

سبیلین سے نکلنے والی چیز مطلقاً وضو کو توڑنے والی ہیں خواہ عادت کے طور پر نکلنے والی ہو،جیسے: پیشاب‘پاخانہ‘یا عادت کے طور پر نکلنے والی نہ ہو جیسے: خون اور پیپ۔ 

سبیلین سے عادت کے طورپر نکلنے والی جوچیزیں وضو کو توڑتی ہیں یہ ہیں: پاخانہ‘ پیشاب‘ریح ‘منی ‘مذی‘ ودی‘ حیض ونفاس کا خون۔ 

پاخانہ و پیشاب اور پاخانہ کے مقام سے نکلنے والی چیز خواہ تھوڑی ہو یا زیادہ اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔

جس عورت کا پیشاب و پاخانہ کے مقام کا درمیانی پردہ پھٹ کر دونوں راستے ایک ہو گئے ہوں‘ اس کی فرج سے ریح نکلنے سے بھی وضو نہیں ٹوٹتا، لیکن وضو کر لینا مستحب ہے۔ امام محمد کے نزدیک وضو کرنا واجب ہے۔ بعض نے کہا بدبو ہے تو وضو واجب ‘ورنہ نہیں۔بعض نے کہا: ریح کی آواز آئے یا بدبو ظاہر ہو تو وضوواجب ہے‘ ورنہ نہیں۔

سبیلین سے نجاست نکلنے سے مراد اس کا ظاہر ہوجانا ہے۔ (یعنی تری کا ظہور مخرج کے سرے پر ہوجائے)۔

مرد کا پیشاب عضو تناسل کی ڈنڈی میں اتر آئے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹتا‘ اور اس کھال میں آجائے جس کی ختنہ کی جاتی ہے تو وضو ٹوٹ جائے گا۔

عورت کی فرج داخل سے پیشاب نکلا اور فرج خارج سے نہیں نکلا تو وضو ٹوٹ گیا۔

جس کا عضو تناسل کٹ گیا ہو اور اس کے مقام پیشاب سے ایسی چیز نکلے جو پیشاب کے مشابہ ہو،اگر وہ اس کے روکنے پر اس طرح قادر ہو کہ وہ چاہے تو روک لے اور چاہے تو خارج کردے تو وہ پیشاب کے حکم میں ہے اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔(اگر اس طرح قادر نہ ہو تو تو جب تک وہ نہ بہے اس سے وضو نہیں ٹوٹتا)

خنثی کے دونوں سوراخوں میں سے کسی ایک سے پیشاب نکلنے پر وضو ٹوٹ جاتا ہے‘ خواہ بہے یا نہ بہے اور اس کا مرد یا عورت ہونا ظاہر ہو یا نہ ہو۔

ذکر میں دو سوراخ ہوں، اورایک میں سے چیز پیشاب کے راستے سے بہتی ہوتو جب پیشاب اس کے سرے پر ظاہر ہوگا وضوٹوٹ جائے گا۔

دوسرے سوراخ سے بہنے والی چیز پیشاب کے راستہ سے نہ بہتی ہو تو وہاں سے نکلنے والی رطوبت جب تک نہ بہے وضو نہیں ٹوٹے گا،اگر بہے تو وضو ٹوٹ جائے گا۔

پیشاب کے مقام پر روئی رکھی تو جب تک پیشاب روئی میں ظاہر نہ ہو وضو نہیں ٹوٹے گا۔ اور روئی میں پیشاب ظاہر ہوجائے تو وضو ٹوٹ جائے گا۔

عورت نے فرج خارج میں روئی رکھی اور اس کا اندورنی حصہ تر ہوگیا تو وضو ٹوٹ گیا،خواہ تری روئی کے بیرونی حصہ تک پہنچے یا نہ پہنچے۔

عورت نے فرج داخل میں روئی رکھی اور روئی کا داخلی حصہ تر ہو گیا ہو،لیکن باہر والی جانب تک سرایت نہ کیا تو وضو نہ ٹوٹے گا۔

عورت نے فرج داخل میں روئی رکھی اور تری دوسری جانب سرایت کر گئی تو اگر روئی فرج کے کنارے سے اوپر کی جانب یا کنارے کے برابر ہو تو وضو ٹوٹ جائے گا۔ اگر روئی کنارے سے نیچے (اندر) کی جانب ہو تو وضو نہیں ٹوٹے گا۔

یہ سب احکام اس وقت ہیں جب کہ روئی باہر نہ نکل گئی ہو اگرباہر نکل گئی ہو وہ حدث ہے، یعنی ہر حال میں وضو ٹوٹ جائے گا۔

اگر کسی عورت نے حیض آنے سے پہلے اپنی فرج داخل میں روئی رکھ لی تو روئی اندرونی جانب تر ہو یا باہر کی جانب‘ دونوں صورتوں میں وضو ٹوٹ جائے گا۔

اگر کسی شخص کا پاخانہ کا اندرونی حصہ باہر نکل آئے اور اس کو ہاتھ یا کپڑے سے اندر داخل کردے‘ یا خود بخود جیسے چھینک آنے سے اندرداخل ہوگئی تو اس کا وضو ٹوٹ جائے گا۔

مذی اور ودی کے نکلنے سے وضو ٹوٹ جائے گا۔

جو منی شہوت کے بغیر نکلے جیسے وزن اٹھانے یا بلندی سے گرنے کی وجہ سے‘ تو وضو ٹوٹ جائے گا۔


{٢} جو چیز سبیلین سے عادت کے خلاف نکلے

خلاف عادت نکلنے والی چیزیں یہ ہیں: استحاضہ کا خون ‘ کیڑا ‘ کنکری ‘ زخم کا گوشت اور حقنہ کی نلی جو مقعد کے اندر غائب ہوگئی ہو، ان سے وضو ٹوٹ جائے گا۔

اگر عورت نے فرج داخل میں تیل ٹپکایااور تیل باہر نکل آیا تو وضو ٹوٹ جائے گا۔

اگر مرد کے ذکر میں تیل سے حقنہ کیا ‘ پھر وہ مقعد سے باہر نکل آیا تو وضو ٹوٹ جائے گا۔

جو چیز نیچے کی طرف سے اندر تک پہنچے پھر باہر نکلے اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔

اگر کسی عورت نے فرج میں انگلی داخل کی تو اس کا وضو ٹوٹ جائے گا۔

اگر کسی نے دبر میں لکڑی مثلا: آلۂ حقنہ کا سرا داخل کیا ‘دوسرا سرا باہر رہا ‘ تو اس پر تری ہے تو وضو ٹوٹ جائے گا‘ ورنہ نہیں، لیکن احوط یہ کہ وضو کرلے۔

اس مسئلہ میں قاعدۂ کلیہ یہ ہے کہ :کوئی چیز دبر میں داخل کی ‘اور وہ غائب ہوگئی ‘ پھر اس کو نکالا یا خود بخود نکل آئی تواس کا وضو ٹوٹ جائے گا۔ اگر کسی چیز کا ایک سرا دبر میں داخل کیا اور دوسرا سیرا باہر ہے ‘ پھر اس کو نکالا تواگراس پر تری ہے تو وضو ٹوٹ جائے گا۔


{٣} پیشاب یا پاخانہ کے مقام کے علاوہ کسی اور جگہ سے نجاست کا نکلنا۔

سبیلین کے علاوہ جسم کے کسی حصہ سے نجاست نکل کر جسم کے اس حصہ تک بہے جس کو پاک کرنے کا حکم ہے‘ تو وضو ٹوٹ جائے گا۔

بہنے کی تعریف یہ ہے کہ زخم کے سرے سے اوپر کو اٹھ کر نیچے کو اترے۔

اگر خون دماغ سے اتر کر ناک کی نرم جگہ تک آجائے تو وضو ٹوٹ جائے گا۔

اگر دماغ سے خون جاری ہو کر ناک کی ہڈی تک آجائے تب بھی وضو ٹوٹ جائے گا، اگر چہ ناک کی نرم جگہ تک نہ آیا ہو۔

اگردماغ سے خون نکل کر کان کے سوراخ تک آجائے تو وضو ٹوٹ جائے گا۔

ناک میں زخم ہو اور اس زخم سے خون بہا تو وضو ٹوٹ جائے گا۔

اگر بالفعل خون کا بہنانہ پایا جائے اور بالقوۃ بہنا پایا جائے‘ مثلا خون نکلتے ہوئے صاف کرتا رہا‘ اور وہ اتنا تھا کہ اگر نہ پونچھتا تو بہہ جاتا‘ تو اس سے وضو ٹوٹ جاتاہے۔

جمع کرنے کا حکم اس وقت ہے جب کہ ایک مجلس میں خشک کیاہو۔

اگر زخم سے خون نکل کر سرے پر ظاہرہوتا رہا اور مکھی چوستی رہی ، اگر وہ اس قدر تھا کہ نہ چوستی تو بہہ جاتا ‘ تو وضو ٹوٹ جائے گا۔

زخم سے خون خود نکلا یا نکالا دونوں صورت میں اگر بہہ جائے تو وضو ٹوٹ جائے گا۔

اگر ناک سنکنے سے بہنے والے خون کا قطرہ نکلا تو وضو ٹوٹ جائے گا۔

منہ یا دانتوں سے تھوک کے ساتھ خون مل کر آئے تو ‘ اگر خون غالب ہے یا برابر ہے تو وضو ٹوٹ جائے گا۔ غالب ہونے کی علامت یہ ہے تھوک کا رنگ سرخ ہوجائے۔

کوئی چیز چبائی‘ یا مسواک کی اور اس پر خون کا اثر پایا اور بہا تو وضو ٹوٹ جائے گا۔ بہنے کی شناخت یہ ہے کہ جہاں سے خون نکلا وہاں انگلی‘ کپڑا رکھے ‘ اگر دو بارہ خون ظاہر ہو تو گمان غالب ہے کہ وہ خون بہنے والا ہے۔

پیپ بھی وضو کو توڑنے میں خون کے مانند ہے۔

بیماری سے پانی نکلنے سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے۔

زخم کا پانی ‘کسی بیماری کے باعث ناف‘ پستان ‘ آنکھ اور کان سے نکلنے سے وضو ٹوٹ جائے گا۔ آنکھ کے دکھنے سے پانی نکلنے کے بارے میں بہت لوگ غفلت میں ہے۔

کسی چیز کو ناک کے راستہ سے اوپر کھینچا اور دماغ تک پہنچ گئی پھر منہ کے راستہ سے منہ بھر نکلی‘ تو اس سے وضو ٹوٹ جائے گا۔

غسل کے وقت پانی کان میں داخل ہوگیا اور وہاں رکا رہا پھر ناک سے نکلا اورپیپ بن گیا تو وضو ٹوٹ جائے گا۔

کان میں تیل ڈالااور وہ دماغ میں رکا رہا ‘ پھروہ منہ سے نکلا توامام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک اس سے وضو ٹوٹ جائے گا۔

زخم پر پٹی باندھی اور تری پٹی کے باہر کی طرف پھوٹ آئی یا پٹی کی طرف سے تر ہوگئی  اگر چہ تری باہر نہیں پھوٹی توبھی اس کا وضو ٹوٹ جائے گا۔


{٤} قے کرنا

با وضو شخص کو منہ بھر کر قے ہوجائے تو وضو ٹوٹ جائے گا۔

منہ بھر ہونے کی حد یہ ہے کہ اس کو دقت و مشقت کے بغیر نہ روک سکے۔

قے سے وضو اس وقت ٹوٹے گا جب وہ صفرایا سودا یا خون یا کھانا یا پانی کی ہو۔

قے چند بار ہوئی اور قے کا سبب متحد ہے‘ تو امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک متفرق قے کو اندازہ سے جمع کیا جائے گا، اگر جمع کرنے سے منہ بھر جائے تو وضو ٹوٹ جائے گا۔اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک مجلس کے متحد ہونے کا اعتبار ہے کہ ایک مجلس میں جتنی قے کرے گا اس کو جمع کیا جائے گا اور منہ بھر ہوتو وضو ٹوٹ جائے گا۔ اس مسئلہ کی چار صورتیں ہیں:

اول:سبب اور مجلس دونوں کا متحد ہونا ، اس صورت میں بالاتفاق جمع کیا جائے گا اور منہ بھر ہونے پر وضو ٹوٹ جائے گا۔

دوم:سبب بھی مختلف اور مجلس بھی متعدد ہو ، اس صورت میں بالاتفاق جمع نہیں کیا جائے گا۔

سوم:سبب متحد اور مجلس متعدد ، اس صورت میں امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک جمع کیا جائے گا، امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک جمع نہیں کیا جائے گا۔

چہارم:سبب مختلف ہو اور مجلس متحد ہو ، اس صورت میں امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک جمع کیا جا ئے گا ، امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک جمع نہیں کیا جائے گا۔


نواقض حقیقیہ کا بیان ختم ہوا اب نواقض حکمیہ کا بیان شروع ہوا۔

{٥} نیند

چت یا کروٹ پرلیٹ کر یاکہنی یا تکیہ یا کسی چیز پر ٹیک لگا کر سونے سے کہ اگر اسے ہٹا دیا جائے تو گر جائے‘ وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ 

کسی دیوار یا ستون یا آدمی یا اپنے دونوں ہاتھوں پر ٹیک لگا کر اس طرح سویا کہ اس سہارے کو ہٹا دیا جائے تو اس طرح گر پڑے کہ دونوں سرین زمین سے جدا ہوجائے تو وضو ٹوٹ جائے گا۔ 

سجدہ میں سوجائے اور سجدہ ہیئت مسنونہ کے مطابق نہ کیا ہو ‘ یعنی اس طرح کہ پیٹ رانوں سے اور بازو پسلیوں سے ملے ہوں ‘تو وضو ٹوٹ جائے گا۔

عورت کے لئے سجدہ کی مسنون ہیئت یہ ہے کہ پیٹ رانوں سے اور بازو پسلیوں سے ملے رہیں اور زمین پر بچھے ہوئے ہوں ،پس اگر سجدہ اس ہیئت سے کیا ہے‘ تو عورت  و مرد دونوں کا وضو نیند سے ٹوٹ جائے گا۔

چار زانو (چوکڑی مار) کر بیٹھ کر سویا اور سر رانوں پر ہے تو وضو ٹوٹ جائے گا۔

سرین ایڑیوں پر رکھ کر بیٹھنے کی حالت میں سو گیا اور پیٹ رانوں سے جالگا اور اوندھا سونے کے مانند ہوگیا تو وضو ٹوٹ جائے گا۔  

اگر کوئی شخص ایک سرین پر بیٹھ کر سو گیا تواس کا وضو ٹوٹ جائے گا۔

بیٹھا ہوا سوگیا پھر منہ یا پہلو کے بل گر گیا اور گرنے کے ذرادیر بعد ہوشیار ہوا تو اس کا وضو ٹوٹ جائے گا۔

مریض کروٹ پر لیٹ کر نماز پڑھتا ہوا سو جائے تو اس کا وضو ٹوٹ جائے گا۔

لیٹے ہوئے آدمی کو گہری اونگھ آجائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ گہری کی علامت یہ ہے کہ قریب کی باتوں کی خبر نہ ہو۔

خلاصہ: سونے والے کی تیرہ حالتیں ہیں، ان میں تین میں وضو ٹوٹ جاتا ہے:(۱) کروٹ پر یا چت یا پٹ سونا۔ (۲) ایک سرین پر سونا ۔ (۳) دیوار یا ستون یا آدمی وغیرہ کے سہارے سے سونا کہ اگر وہ سہارا ہٹا لیا جائے تو سونے والا گر پڑے۔


{٦} بیہوشی و غشی۔

بیہوشی و غشی چاہے تھوڑی ہو‘اور قیام و قعود وسجود ہر حال میں ‘ اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔


{٧} جنون۔

جنون ‘خواہ قلیل ہو یا کثیر اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔


{٨} نشہ۔

نشہ تھوڑا ہویا زیادہ‘ وضو کو ٹوڑ دیتا ہے۔

بھنگ کے کھانے سے اگر چال میں لغزش آجائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے۔

مرگی کے دورہ کے بعد جب افاقہ ہوجائے تو اس پر وضو کرنا واجب ہے۔


{٩} قہقہہ مارنا۔

بالغ شخص بیداری میں نماز کے اندر قہقہہ کے ساتھ ہنسے تو خواہ عمدا ہو یا سہوا ‘ اس کا وضو ٹوٹ جائے گا۔

فائدہ:’’ قہقہہ ‘‘ وہ ہنسی ہے جس کو ہنسنے والا اور اس کے پاس والے لوگ سن لیں، یہ نماز اور وضو دونوں کو توڑتا ہے۔ ایسی ہنسی جس کو ہنسنے والا خود سنے اور پاس والے نہ سنیں اس کو ضحک کہتے ہیں، اس سے نماز ٹوٹ جاتی ہے لیکن وضو نہیں ٹوٹتا۔ ایسی ہنسی جسے نہ خود سنے اور نہ پاس والے سنیں بلکہ صرف دانت ظاہر ہوں ، اس کو تبسم کہتے ہیں اس سے نماز اور وضو دونوں ہی نہیں ٹوٹتے۔ 

نماز میں سوتے ہوئے قہقہہ سے بھی وضو اور نماز دونوں ٹوٹیں گے۔

نماز میں نابالغ کے قہقہہ سے وضو ٹوٹ جائے گا، لیکن اس کی نماز باطل نہیں ہوئی۔

نماز کا سلام پھیرتے وقت یعنی بقدر تشہد آخری قعدہ کرنے کے بعد سلام سے پہلے قہقہہ سے وضو ٹوٹ جائے گا اور اس کی نماز باطل نہیں ہوگی۔

امام اور مقتدیوں نے قہقہہ مارا اگر امام نے پہلے قہقہہ مارا تو امام کا وضو ٹوٹ گیا اور مقتدیوں کا وضو نہیں ٹوٹے گا۔اور پہلے مقتدیوں نے قہقہہ مارا پھر امام نے یا دونوں نے  ساتھ قہقہہ مارا تو سب کا وضو ٹوٹ جائے گا۔ 

نماز میں کسی کا وضو ٹوٹ گیا‘اور بنا کے ارادہ سے وضو کے لئے گیا اور وضو کے بعد واپس آتے ہوئے راستہ میں قہقہہ مارکر ہنسا‘ تو اس کا وضو ٹوٹ جائے گا۔

وضو اور تیمم والے کے قہقہہ مار کر ہنسنے کا حکم یکساں ہے۔ جن صورتوں میں نماز کے اندر قہقہہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے‘ ان سب صورتوں میں تیمم بھی ٹوٹ جاتا ہے۔ 

قہقہہ غسل کی طہارت کونہیں توڑتا لیکن غسل کے ضمنی وضو کو توڑدیتا ہے۔

کسی نے وضو کے بعض اعضاء کو دھویا‘ پھر پانی ختم ہوگیا تو تیمم کر لیا‘ پھر نماز میں قہقہہ لگایا تو امام ابویوسف رحمہ اللہ کے نزدیک صرف باقی اعضاء کو دھولے اور طرفین رحمہما اللہ کے نزدیک پورا وضو کرے۔

نماز مظنونہ ( یعنی وہ نماز جو اس گمان سے شروع کی کہ ابھی نہیں پڑھی ‘ پھر نماز میں یقین ہوا کہ وہ پڑھ چکا ہے )میں قہقہہ مارا تو‘اصح یہ ہے کہ وضو ٹوٹ جائے گا۔


{١٠} مباشرت فاحشہ۔

نواقض حکمیہ میں سے مباشرت فاحشہ بھی ہے۔

’’مباشرت فاحشہ‘‘ یہ ہے کہ مرد و عورت ننگے ہو کر شہوت کی حالت میں ایک دوسرے سے لپٹیں اور ان کی شرمگاہیں آپس میں مل جائیں۔

مباشرت فاحشہ سے شیخین رحمہما اللہ کے نزدیک دونوں کا وضو ٹوٹ جاتا ہے۔

ننگے مرد و عورت مل جائیں تو اور مرد کے ذکر میں انتشار نہ ہو تو مرد کا وضو نہیں ٹوٹے گا احتیاطاً وضوء کرلیں، عورت کا وضو ٹوٹ جائے گا۔ 

آپس میں دو مرد یا دو عورتیں یا مرد اور نابا لغ لڑکا‘ مباشرت فاحشہ کے مرتکب ہوں تو ‘ ان کا وضو ٹوٹ جائے گا۔ (اور یہ فعل نہایت برا اور کبیرہ گناہ ہے) ( مستفاد: مرغوب الفتاوی ٨٧ تا ٩٤/ ٢ )


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: