منگل، 15 مارچ، 2022

مساجد کے لئے سرکاری ٹینڈر لینے کا شرعی حکم سوال نمبر٢٣٣

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

مسئلہ یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ گورمنٹ کی طرف سے ایک مسجد کے لئے ٹینڈر آیا ہے کیا کسی مسلم شخص کے لیے وہ ٹینڈر لینا جائز ہے یا نہیں؟

سائل: محمد شمیم  فیض آباد


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


مساجد اور مدارس کے نظام میں اگر سرکاری امداد کی وجہ سے کوئی خلل اندازی نہیں ہوتی ہے اور آئندہ سرکار کی طرف سے کسی قسم کی دخل اندازی کا اندیشہ نہیں ہے، توایسی صورت میں سرکاری امداد لینے کی گنجائش ہے، ورنہ سرکاری امداد لینے سے احتیاط ضروری ہے۔


البحرالرائق میں ہے۔

فصح وقف الذمي بشرط کونہ قربۃ عندنا وعندہم، وقولہ: بخلاف ما لو وقف علی مسجد بیت المقدس، فإنہ صحیح؛ لأنہ قربۃ عندنا وعندہم۔ (البحرالرائق، کتاب الوقف، زکریا دیوبند ۵/ ۳۱۶، کوئٹہ ۵/ ۱۸۹-۱۹۰)


فتاوی ہندیہ میں ہے۔

ولو أوصی بثلث مالہ بأن یحج عنہ قوم من المسلمین أو یبنی بہ مسجدا للمسلمین إن کان ذلک لقوم بأعیانہم صحت الوصیۃ، وتعتبر تملیکا لہم۔ (ہندیۃ، کتاب الوصایا، الباب الثامن: في وصیۃ الذمي والحربي، زکریا قدیم ۶/ ۱۳۲، جدید ۶/ ۱۵۲)۔ (فتاویٰ قاسمیہ ٢١/٧٠٨)


البتہ فتاوی دارالعلوم دیوبند میں حکومتی امداد کے سلسلے میں لکھا ہے کہ مساجد کے لیے حکومت سے امداد لینا فی نفسہ ناجائز نہیں ہے؛ لیکن ہمارے اکابر رحمہم اللہ نے مساجد وغیرہ کے لیے حکومت کی امداد قبول کرنے کو بعض مصالح کے پیش نظر اور مفاسد کے اندیشہ سے کبھی پسند نہیں فرمایا ہے اور اب حالات کے تجربہ سے اکابر کی رائے کا راجح اور بہتر ہونا ثابت ہوچکا ہے؛ اس لیے احتیاط اسی میں ہے۔   (فتاوی دارالعلوم دیوبند جواب نمبر ١٤٨٧٧٧)


صورت مسئولہ میں گورمنٹ کی طرف سے جس مسجد کی تعمیر ومرمت کے لئے ٹینڈر آیا ہے یہ سرکاری تعاون ہے جو لینا فی نفسہ مباح ہے ؛ لیکن بہتر یہ ہے کہ سرکار سے تعاون لئے بغیر، مسلمان اپنے سرمایہ سے مساجد کی ہر ضرورت میں حصہ دار بنیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: