پیر، 14 مارچ، 2022

گھروں اور مسجدوں میں سے کبوتر وغیرہ کے گھونسلوں کو ہٹانے کا شرعی حکم سوال نمبر ٢٢٧

 سوال

السلامُ علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

کسی کے کمرے میں کبوتر نے گھوسلہ رکھامکان مالک نے کبوتر کا راستہ کمرے میں آنے کا بند کردیا یہ کیسا ہے؟

اسی طرح مساجد میں گھونسلے ہوتے ہے اور بار بار گھانس وغیرہ نمازیوں پر گرتی ہے تو اس کا کیا حکم ہے؟

سائل: ابو معاذ جمالی بلیل پوری


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


شریعت اسلامیہ نے ہر قدم پر ہر جاندار کے ساتھ رحم وکرم کاحکم دیا ہے، صرف انسان ہی نہیں بلکہ جانوروں کے ساتھ بھی حسن سلوک کا حکم دیا ہے اور جانوروں میں بھی گھریلو اور پالتو جانوروں کے ساتھ ساتھ غیر پالتو جانوروں کے ساتھ بھی حسن سلوک کی تاکید ہے۔


ہر جاندار کے ساتھ حسن سلوک کے متعلق اور اسی طرح جانوروں کو بے جا تکلیف دینے کے حوالے سے بہت کثرت سے روایات وآثار وارد ہوئی ہیں ہے مطالعہ کے شوقین حضرات اس لنک کو اوپن فرمائیں۔


https://www.minhajbooks.com/urdu/book/The-Compassion-and-Clemency-of-the-Chosen-Prophet-PBUH/read/txt/btid/1646/


لہذا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث میں جانوروں کو تکالیف دینے کی صورت میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہے اس لئے بلا وجہ ان کو پریشان کرنے سے احتراز کریں، یہاں تک کہ ان کو ان کے گھونسلوں سے نکالنے کے متعلق بھی یہ حکم دیا کہ أقِرُّوا الطَّيرَ على مَكِناتِها، ان کو اس میں ثابت رکھیں، لہذا بلاوجہ پرندوں کو ان کے گھونسلوں سے دوررکھنا بھی اس حدیث کی وجہ سے درست نہیں ہے۔


البتہ اگر آلودگی کی وجہ سے پریشان ہوں اور باربار صفائی کی نوبت آتی ہو تو ان کے گھونسلوں کو جہاں تک ممکن ہو حفاظت سے دوسری جگہ منتقل کردینا چاہیے بلا وجہ اس کو ضائع نہیں کرنا چاہیے لیکن مجبوری میں ضائع کردیں تو بھی کوئی حرج نہیں ہے جب کہ اس میں اس کے بچے یا انڈے نہ ہو اور اگر بچے اور انڈے ہو تو اس کو محفوظ جگہ منتقل کریں ضائع کرنا درست نہیں ہے۔


اسی طرح مساجد میں پرندوں کے گھونسلوں سے صفائی میں خلل اور نمازیوں کے لیے پریشانی ہوتی ہے، اس لیے مساجد سے پرندوں کے گھونسلوں کو ہٹانادرست ہے، علامہ شامی مسجدوں میں موجود گھونسلوں کے متعلق  رقم طراز ہیں: ’’لا بأس برمي عُشِّ خُفَّاش وحمام لتنقيته۔‘‘ ترجمہ:مساجد کی صفائی کے خاطر اور پاکیزگی کے لیے چمگادڑوں اور کبوتروں کے گھونسلوں کو ختم کرنے اور ہٹا دینے میں کوئی حرج نہیں۔


اب اوپر جو حدیث گزری وہ اور اس مسئلہ میں مطابقت معلوم نہیں ہو رہی ہے، کیونکہ مسئلہ یہ بتایا گیا کہ اُن گھونسلوں کو ہٹا دیا جائے۔ چنانچہ اس سوال کا جواب اور حدیثِ مبارکہ کا مَحْمَل بیان کرتے ہوئے علامہ ابنِ عابدین شامی تحریر بقلم ہیں کہ۔ ’’أنه قال  صلى اللہ عليه وسلم  «أقروا الطير على مكانتها» فإزالة العش مخالفة للأمر فأجاب بأنه للتنقية وهي مطلوبة، فالحديث مخصوص بغير المساجد۔‘‘


یعنی گھونسلے یا آشیانے کو ہٹانابظاہر اس حدیث مبارکہ میں موجود حکم کی مخالفت ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مسجدوں میں موجود آشیانوں کی منتقلی دراصل مسجد کی پاکیزگی کے پیش نظر ہے اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ مسجد کی صفائی ستھرائی شریعت کو مطلوب ہے، لہذا بیان کردہ حدیث مبارک مسجدوں کے علاوہ  دیگر مقامات پر موجود آشیانوں کے ساتھ خاص  ہے۔


مسؤلہ صورت میں کبوتر وغیرہ جب کسی گھر یا دکان میں گھونسلا بنائے اور اس میں انڈے دے دے یا اس کے بچے ہوجائيں تو اس کے لئے دروازہ بند نہیں کرنا چاہیے اسی طرح صفائی کی نیت سے اسے ضائع  نہيں کرناچاہيے، بلکہ اگر اسی جگہ رکھنا ممکن ہو تو بہت بہتر ورنہ قريب ميں کسی ایسی جگہ  ميں منتقل کردیے جائیں، جہاں وہ محفوظ رہیں اور پرندوں کو  اپنے گھونسلوں اور انڈوں کے پاس آنے جانے میں پریشانی نہ ہو، اور اگر انڈے وغیرہ نہیں دئے ہیں تو ان گونسلوں کو جو گھروں میں ہے اور اس سےآلودگی ہوتی ہے تو حرج نہیں ہے البتہ مساجد میں صفائی کے خاطر گھونسلوں کو ہٹانے کی مطلق گنجائش ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔


صحيح ابن حبان میں ہے۔

عن أم كرز الخزاعية الكعبية أقِرُّوا الطَّيرَ على مَكِناتِها۔ (صحيح ابن حبان ٦١٢٦  •  أخرجه في صحيحه)


فتاوی شامی میں ہے۔

ولا بأس برمي عش خفاش وحمام لتنقيته ۔۔۔۔۔ ( قوله: لتنقيته ) جواب سؤال ؛ حاصله أنه قال صلى الله عليه وسلم " أقروا الطير على مكانتها " فإزالة العش مخالفة للأمر فأجاب بأنه للتنقية وهي مطلوبة ، فالحديث مخصوص بغير المساجد۔ (كتاب الصلاة‌‌، باب ما يفسد الصلاة وما یکرہ فیہا میں سب سے آخری مسئلہ، ٢/٤٣٧)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: