پیر، 21 مارچ، 2022

تجدیدِ نکاح کی نوعیت اور اس کا شرعی حکم سوال نمبر ٢٤٠

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

تجدید نکاح کا کیا طریقہ ہے؟ تجدید نکاح کب ضروری ہے؟ احتیاطا تجدید نکاح کا کیا حکم ہے؟ اور اس طرح سے نکاح کرنے کی وجہ سے پہلے نکاح پر کوئی نقص لازم ہوگا؟ تجدید نکاح کے لیے میاں بیوی آمنے سامنے ایجاب وقبول کرلے تو نکاح ہو جائے گا؟

یا

گواہوں کا ہونا ضروری ہے؟ خطبہ نکاح ضروری ہے؟ وکیل کا ہونا ضروری ہے؟ مہر کا ہونا ضروری ہے؟


سائل: محبوب خان الحسنی مانگرول گجرات الہند


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


نکاح منعقد ہونے کے لئے مجلس نکاح میں دو عاقل بالغ گواہوں کا موجود ہونا اور گواہوں کا دونوں کے ایجاب اور قبول کے الفاظ کو سننا ضروری ہے اسی طرح تجدید نکاح کا وہی طریقہ ہے، جو نکاح منعقد ہونے کے لئے ہے، یعنی ایجاب و قبول کا ہونا کم ازکم دوشرعی گواہوں کا ہونا، اور گواہوں کا دونوں کے ایجاب اور قبول کے الفاظ کو سننا، بعینہ یہی صورت تجدید نکاح کی ہوتی ہے، اور اس میں مہر شرعی بھی لازم ہے۔


آنے والے امور سے تجدید نکاح ضروری ہوجاتا ہے۔

(١) ایک یا دو رجعی طلاقیں دیوے اور عدت ختم ہوجائے یا ایک یا دو بائن طلاقیں دیوے اور پھر اسی کو دوبارہ لانا چاہے۔

(٢) خلع کرنے کے بعد دوبارہ لانا چاہے۔

(٣) شرعی قاضی کسی شرعی بنیاد پر میاں بیوی کا نکاح فسخ کردے، اور بعد میں وہ وجہ ختم ہوگئی اور اب دوبارہ نکاح کی گنجائش ہو۔

(٤) شوہر یا بیوی (معاذ اللہ) دونوں میں سے ایک مرتد ہوجائے اور پھر دوبارہ اسلام قبول کرلے۔ 

ان صورتوں میں اگر میاں بیوی دوبارہ باہمی رضامندی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں، تو دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ عقد کرنا ضروری ہے۔


احتیاطاً تجدید نکاح

فقہاء نے ایک صورت احتیاطاً  تجدید نکاح کی لکھی ہے کہ  ناواقف لوگوں کو چاہئے کہ وہ مہینہ میں ایک یا دو مرتبہ نکاح کی تجدید کرلیا کریں، اس لیے کہ غلطی میں ان سے کہیں کوئی کفریہ کلمہ سرزد نہ ہوگیا ہو اور اگر مردوں سے نہیں تو عورتیں اس طرح غلطیاں بہت کرتی ہیں، تاہم  تجدید نکاح کا یہ حکم احتیاطاً ہے، لازمی نہیں، اور تجدید نکاح سے نکاح میں کوئی نقص بھی نہیں آتا، نیز اس کی کوئی خاص فضیلت نہیں، یہ حکم احتیاط پر مبنی ہے۔


اور صرف احتیاط کی بنا پر  نکاح کی تجدید کی گئی ہو تو نیا مہر متعین کرنا ضروری نہیں ہے، اور  اس نفسِ نکاح سے مہر بھی لازم نہیں  ہوگا۔


خطبہ نکاح

نکاح کی مجلس میں خطبہ پڑھنا مستحب ہے، خواہ نکاح ابتداءً کیا جارہا ہو یا تجدیداً، اور چوں کہ خطبہ باری تعالیٰ کی حمد و ثناء کے ساتھ ساتھ آیاتِ قرآنی اور احادیثِ نبویہ پر مشتمل ہوتا ہے؛ اس لیے اس کا پڑھنا خیر و برکت ہی کا باعث ہے، لیکن نکاح کے موقع پر خطبہ نہیں پڑھتا تو بھی  نکاح درست ہو جائے گا، ہاں خطبۂ مسنونہ رہ جائے گا۔


رد المحتار میں ہے۔

و شرط حضور شاهدين حرين أو حر وحرتين مكلفين سامعين قولهما معا على الأصح فاهمين أنه نكاح على المذهب بحر (رد المحتار- ٤/٨٦)


کتاب الاصل میں ہے۔

قال امام محمد في الأصل: بلغنا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: لا نكاح إلا بشهود. وإذا تزوج الرجل بشهادة شاهدين فهو جائز ولو كانا أعميين أو محدودين في قذف بعد أن لا تجحد المرأة والزوج فهو جائز۔ (کتاب الاصل ١٠/٢٠٩ طبعة قطر)


 فتاوی شامی میں ہے۔

وعلم الألفاظ المحرمة أو المكفرة، ولعمري هذا من أهم المهمات في هذا الزمان، لأنك تسمع كثيرا من العوام يتكلمون بما يكفر وهو عنها غافلون، والاحتياط أن يجدد الجاهل إيمانه كل يوم ويجدد نكاح امرأته عند شاهدين في كل شهر مرةً أو مرتين؛ إذ الخطأ وإن لم يصدر من الرجل فهو من النساء كثير۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ١/١٢٦)


فتاوی شامی میں ہے۔

وفي الكافي الخ) حاصل عبارة الكافي: تزوجها في السر بألف ثم في العلانية بألفين ظاهر المنصوص في الأصل أنه يلزم عنده الألفان ويكون زيادة في المهر، وعنه أبي يوسف المهر هو الأول، لأن العقد الثاني لغو، فيلغو ما فيه. وعند الامام أن الثاني وإن لغا لا يلغو ما فيه من الزيادة ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ثم ذكر أن قاضيخان أفتى بأنه لا يجب بالعقد الثاني شئ ما لم يقصد به الزيادة في المهر، ثم وفق بينه وبين إطلاق الجمهور اللزوم بحمل كلامه على أنه لا يلزم عند الله تعالى في نفس الامر إلابقصد الزيادة وإن لزم في حكم الحاكم لأنه يؤاخذه بظاهر لفظه إلا أن يشهد على الهزل، وأطال الكلام فراجعه.

أقول: بقي ما إذا جدد بمثل المهر الأول، ومقتضى ما مر من القول باعتبار تغيير الأول إلى الثاني أنه لا يجب بالثاني شئ هنا، إذ لا زيادة فيه، وعلى القول الثاني يجب المهران.

تنبيه: في القنية: جدد للحلال نكاحا بمهر يلزم إن جدده لأجل الزيادة لا احتياطا ا ه‍: أي لو جدده لأجل الاحتياط لا تلزمه الزيادة بلا نزاع كما في البزازية۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين  ٤/٢٤٨)


فتاوی شامی میں ہے۔

قوله: وتقديم خطبة) بضم الخاء ما يذكر قبل إجراء العقد من الحمد والتشهد، وأما بكسرها فهي طلب التزوج وأطلق الخطبة فأفاد أنها لا تتعين بألفاظ مخصوصة، وإن خطب بما ورد فهو أحسن۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ٤/٦٦)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: