بدھ، 23 مارچ، 2022

کرسی پر نماز پڑھنے کے سلسلہ میں مفصل تحقیق سوال نمبر ٢٤٦

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ

مفتی صاحب کرسی پر نماز پڑھنے کے بارے میں وضاحت فرماٸیں اور کرسی صف کے برابر رکھنا چاہٸے یا پیچھے پورے وضاحت سے بیان فرماٸیں اور کرسی والے حضرات کسی کونے میں نماز پڑھیں یا صف کے درمیان میں بھی پڑھ سکتے ہیں؟ مکمل وضاحت سے بیان فرماٸیں  جزاكم اللهُ‎ خیرا

سائل: محمد عبداللہ بن رحیم بخش


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


کرسی پرنماز کو ادا کرنے کے حکم کے متعلق سمجھنے سے پہلے نماز پر قدرت کے ترتیب وار مراحل کو اچھی طرح سے سمجھ لیں۔


(١) جو شخص قیام، رکوع اور سجدہ پر قادر ہے اس کے لئے بیٹھ کر نماز پڑھنا کسی صورت میں جائز نہیں کیونکہ ایسے شخص کو زمین پر مع قیام کے رکوع، سجدہ کرنا فرض ہے۔


(٢) جو شخص کھڑے ہونے پر قادر ہو، اور سجدہ نہ کر سکتا ہو، تو اسے قرأت کھڑے ہوکر ہی کرنی چاہیے، اور اگر رکوع پر بھی قادر ہے، تو رکوع بھی باقاعدہ کرنا چاہیے، البتہ سجدے کے وقت بیٹھ جائے، اور اشارہ سے سجدہ کرے، اس کے بعد اگر دوسری رکعت کے لئے اٹھنے پر قادر ہو، تو دوسری رکعت کے لیے بھی اٹھ جائے، اور اگر اس میں سخت مشقت ہو، تو باقی نماز بیٹھ کر اشارے سے ادا کر لے، البتہ مسئلہ کی رو سے سجدہ پر قادر نہ ہو تو قیام کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے، اور بیٹھ کر پڑھے تو بھی نماز میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔


(٣) جو شخص فرض نماز میں مکمل قیام پر تو قادر نہیں، لیکن کچھ دیر کھڑا ہو سکتا ہے اور سجدہ بھی زمین پر کرسکتا ہے توایسے شخص کے لیے اُتنی دیر کھڑا ہونا فرض ہے، اگرچہ کسی چیز کا سہارا لے کر کھڑا ہونا پڑے، اس کے بعد بقیہ نماز زمین پر بیٹھ کر پڑھنا چاہیے۔


(٤) اگر کوئی شخص تھوڑی دیر بھی کھڑے ہوکر رکوع و سجدہ کے ساتھ نماز ادا نہ کرسکے، تو بیٹھ کر رکوع و سجدے کے ساتھ نماز ادا کرے، اور دونوں ہاتھ زانوؤں پر رکھے، 


(٦) اگر بیٹھ کر رکوع و سجدہ نہیں کرسکتا، لیکن بیٹھ کر رکوع و سجدہ اشارے سے کرسکتا ہے، تو قبلہ رخ بیٹھ کر نماز پڑھے، اور رکوع و سجدہ اشارے سے کرے، سجدے کا اشارہ رکوع کے مقابلے میں زیادہ کرے، اور اشارہ سے نماز پڑھنے والے بیٹھنے کی حالت میں معمول کے مطابق ہاتھ باندھیں، اور سجدہ میں رکوع کی بنسبت ذرا زیادہ جھکیں، تشہد بھی معمول کے مطابق کریں، اور اگر زمین پر بیٹھنے کی صورت میں تشہد میں دو زانو ہو کر بیٹھنا مشکل ہوتو جس طرح سہولت ہو  مثلاً چار زانو (آلتی پالتی مار کر)، یا پاؤں پھیلا کر جس طرح سہولت ہو بیٹھ سکتے ہیں۔


(٧) جو شخص رکوع، سجدہ پر قادر نہ ہو البتہ زمین پر بیٹھ سکتا ہو اس کی نماز کرسی پر خلافِ سنت ہونے کی وجہ سے کراہت سے خالی نہیں، اور جو شخص زمین پر بھی نہیں بیٹھ سکتا اس کی نماز کرسی پر بلا کراہت جائز ہے۔


(٨) لہذا ہر وہ شخص جو بیماری کی وجہ سے کھڑے ہونے پر قادر نہیں، یا کھڑے ہونے پر قادر ہے، لیکن زمین پر بیٹھ کر سجدہ کرنے پر قادر نہیں ہے، یا قیام و سجود کے ساتھ نماز پڑھنے کی صورت میں بیماری میں اضافہ یا شفا ہونے میں تاخیر یا ناقابل برداشت درد کا غالب گمان ہو تو ان صورتوں میں کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے، البتہ کسی قابلِ برداشت معمولی درد یا کسی موہوم تکلیف کی وجہ سے فرض نماز میں قیام کو ترک کردینا اور کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز نہیں۔


خلاصۂ کلام یہ ہے کہ کرسی پر نماز کا جواز اس وقت ہے جب کہ وہ زمین پر سجدہ کرنے پر قادر نہ ہو تو ایسی صورت میں شروع ہی سے زمین یا کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے، اور اس صورت میں اس کی نماز اشاروں والی ہوتی ہے، اور اس کے لیے بیٹھنے کی کوئی خاص ہیئت متعین نہیں ہے، وہ جس طرح سہولت ہو بیٹھ کر اشارہ سے نماز پڑھ سکتا ہے، چاہے زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھے یا کرسی پر بیٹھ کر، البتہ زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھنا زیادہ بہتر ہے، لہذا جو لوگ زمین پر بیٹھ کر نماز ادا کرسکتے ہیں تو زمین پر بیٹھ کر نماز ادا کریں، اور اگر زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھنے میں مشقت ہوتو وہ کرسی پر بیٹھ کر سب نمازیں پڑھ سکتے ہیں۔


اور جو شخص زمین پر سجدہ کرنے پر قادر نہ ہو اس کے لیے قیام پر قدرت ہونے کے باوجود قیام فرض نہیں ہے، لہٰذا ایسا شخص کرسی پر یا زمین پر نماز ادا کر رہاہو تو اس کے لیے دونوں صورتیں جائز ہیں قیام کی حالت میں قیام کرے اور بقیہ نماز بیٹھ کر ادا کرے یا مکمل نماز بیٹھ کر بغیر قیام کے ادا کرے، البتہ دوسری صورت یعنی مکمل نماز بیٹھ کر ادا کرنا ایسے شخص کے لیے زیادہ بہتر ہے۔


کتاب النوازل میں اس سلسلے کے سوال کے جواب حضرت مفتی سلمان صاحب منصورپوری تحریر بقلم ہے، جو شخص سجدہ کرنے سے معذور ہو تو ظاہر الروایہ کے مطابق اس سے قیام کی فرضیت ساقط ہے، یعنی اس کے لئے قیام ضروری نہیں، اور افضل یہ ہے کہ بیٹھ کر ہی اشارہ سے نماز پڑھے، اس لئے جو معذور لوگ کرسی پر نماز پڑھیں، ان کے لئے کھڑے ہوکر اشارہ سے نماز پڑھنا خلافِ اولیٰ ہے، نیز جماعت میں شامل ہونے کی صورت میں اس کی وجہ سے صفوں میں بے ترتیبی بھی لازم آتی ہے، اس سے احتراز ضروری ہے؛ لہٰذا ایسے معذورین کو بہرحال بیٹھ کر ہی نماز پڑھنی چاہئے۔

یہاں یہ بھی واضح رہے کہ کرسی پر نماز پڑھنا صرف اسی شخص کے لئے جائز ہے جو کسی بھی طرح بیٹھ کر نماز پڑھنے پر قادر نہ ہو، پس جو شخص بیٹھ کر اشارہ سے نماز پڑھ سکتا ہو، اسے کرسی پر نماز نہیں پڑھنی چاہئے۔

وإن تعذرا لیس تعذرہما شرطا؛ بل تعذر السجود کاف لا القیام أومأ قاعداً، وہو أفضل من الإیماء قائما لقربہ من الأرض۔ (درمختار) وفي الشامي:بل کلہم متفقون علی التعلیل بأن القیام سقط؛ لأنہ وسیلۃ إلی السجود؛ بل صرح في الحلیۃ: بأن ہذہ المسألۃ من المسائل التي سقط فیہا وجوب القیام مع انتفاء العجز الحقیقي والحکمي۔ (درمختار مع الشامي ۲؍۵۶۷ زکریا، البحر الرائق ۳؍۱۱۲ کراچی، الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۳۶، خانیۃ ۱؍۱۷۱، حاشیۃ الطحطاوي ۴۳۱، حلبي کبیر ۲۶۶، شرح وقایۃ ۱؍۱۸۹، بدائع الصنائع ۱؍۲۸۴ زکریا، الجوہرۃ النیرۃ ۱؍۱۱۴، مجمع الأنہر ۱؍۱۵۴، الدرالمنتقی ۱؍۱۵۴) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم۔ (کتاب النوازل ٤/٤٣٦)


اسی طرح ایک اور سوال کے جواب میں رقم طراز ہے، کرسی پر بیٹھ کر نمازپڑھنے والا شخص صف میں مل کر نماز پڑھ سکتا ہے، صف سے ہٹ کر کونے میں نماز پڑھنا اس کے لئے ضروری نہیں؛ البتہ اگر صف میں جگہ خالی رہنے کا خطرہ نہ ہو، تو بہتر یہی ہے کہ کرسی والا نمازی کنارے پر کھڑا ہو؛ تاکہ صفوں میں ظاہری انقطاع محسوس نہ ہو، اس معاملہ میں حنفی اور شافعی مسلک میں کوئی فرق ہمارے علم میں نہیں ہے۔

عن عبد اللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہما أن رسول اللّٰہ ا قال: من وصل صفا وصلہ اللّٰہ، ومن قطع صفا قطعہ اللّٰہ عز وجل۔ (سنن النسائي ۱؍۹۳)

والأفضل أن یقف في الصف الآخر إذا خاف إیذاء أحد۔ (شامي ۲؍۳۱۰ زکریا) فقط واﷲ تعالی اعلم۔ (کتاب النوازل ٤/٤٣٦)


جہاں تک کرسی رکھنے کا مسئلہ ہے تو کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے والا شخص صف میں مل کر بھی نماز پڑھ سکتا ہے، صف سے ہٹ کر کونےمیں نماز پڑھنا اس کے لیے ضروری نہیں، البتہ اگر صف میں جگہ خالی رہنے کا خطرہ نہ ہو تو بہتر یہی کہ کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے والا کنارے پر کھڑا ہو، تاکہ صفوں میں ظاہری انقطاع محسوس نہ ہو اور کسی کو تکلیف بھی نہ ہو۔


اس سلسلے میں ایک سوال کے جواب میں فتاویٰ دار العلوم دیوبند میں لکھاہے کہ کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے والا شخص صف کے کسی حصہ میں نماز ادا کرسکتا ہے، اگر وہ شخص باقاعدہ قیام کرتا ہے تو اس کو چاہیے کہ کرسی اس طرح رکھے کہ پچھلے پائے صف میں کھڑے مقتدیوں کے ایڑیوں کے برابر ہوں تاکہ بیٹھنے کی صورت میں اس کا کندھا دیگر مقتدیوں کی سیدھ میں ہو ،اگر کرسی کے اگلے پائے صفوں میں ہوں گے تو پچھلی صف میں کھڑے مقتدیوں کو تکلیف ہوگی یا پچھلی صف میں خلل پیدا ہوگا۔


عن أبی مسعود، قال: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یمسح مناکبنا فی الصلاة، ویقول: استووا، ولا تختلفوا، فتختلف قلوبکم، لیلنی منکم أولو الأحلام والنہی ثم الذین یلونہم، ثم الذین یلونہم(صحیح مسلم 1/ ۱۸۱،باب تسویة الصفوف، وإقامتہا...الخ)۔ (فتاوی دارالعلوم دارالعلوم دیوبند جواب نمبر: ١٧١٢٤٣)


بخاری شریف میں ہے۔

عن عمران بن حصین - رضي اللہ عنہ - قال : کانت بي بواسیرُ، فسألتُ النبي - صلی الله علیہ وسلم - عن الصلاة، فقال : ” صلّ قائمًا ، فإن لم تستطع فقاعدًا ، فإن لم تستطع فعلی جنبٍ“۔ (بخاری  ٤/٣٧٧  باب إذا لم یطق قاعدا صلی علی جنب ، عمدة القاري :١١/٢٣٠)


اعلاء السنن میں ہے۔

ان رکنیۃ القیام قد ثبت بالنص، وهو قوله تعالى "وقوموا لله قانتين" وقوله صلى الله عليه وسلم لعمران: صل قائما فان لم تستطيع فقاعدا، وبلاجماع فلا يسقط وجوبه عن القادر عليه بالقياس الذين ذكرتموہ فان القياس اضعف الدلائل لا يجوز معارضتہ القطعی لہ۔ (اعلاء السنن: ٧/٢٠١)


کبیری ھدایۃ اور بدائع الصنائع میں ہے۔

وان قدر علی القیام دون الرکوع والسجود ای کان بحیث لوقام لایقدر أن یرکع ویسجد لم یلزمہ القیام۔ (کبیری ۲٦۲ وکذافی الھدایۃ ۱٦۲ والبدائع ۱/۱۰٦)


کبیری اور میں ہے۔

قال الحلبیؒ: ولو قدر علیہ متکئا علی عصا او خادم قال الحلوانی الصحیح انہ یلزمہ القیام ولو قدر علی بعض القیام لا کلہ لزمہ ذلک القدر حتی لوکان لایقدر الا علی قدر التحریمۃ لزمہ أن یتحرم قائما ثم یقعد۔ (کبیری ۲۵۹)


فتح القدیر مع الکفایۃ میں ہے۔

هذا مبني على صحۃ المقدمۃ القائلة رکنیۃ القیام لیس الا للتوسل الی السجود وقد اثبتھا بقولہ "لما فیھا من زیادۃ التعظیم" اي السجدۃ علی وجہ الانحطاط من القیام فیھا نھایۃ التعظیم وھو المطلوب فکان طلب القیام لتحقیقہ فاذا سقط سقط ما وجب لہ وقد یمنع ان شرعیتہ لھذا علی وجہ الحصر، بل لہ ولما فیہ نفسہ من التعظیم، کما یشاھد من الشاھد من اعتبارہ کذلک حتی یحبہ اھل التحبر لذلک، فاذا فات احد التعظیمین، صار مطلوبا بما فیہ نفسہ ویدل علی نفی ھذہ الدعوی ان من قدر علی القعود والرکوع والسجود لا القیام وجب علیہ القعود، مع انہ لیس فی السجود عقبیہ تلک النھایۃ، لعدم مسبوقیتہ بالقیام۔ (فتح القدیر مع الکفایۃ ١/٤٦٠)


مجمع الانھر میں ہے۔

الإیماء برأسه أخرت الصلاة فلا سقط عنه؛ بل یقضیها إذا قدر علیها، ولوکانت أکثر من صلاة یوم ولیلة إذا کان مضیقًا وهو الصحیح، کما في الهدایة. وفي الخانیة: الأصح أنه لایقضي أکثر من یوم ولیلة کالمغمیٰ علیه، وهو ظاهر الروایة، وهذا اختیار فخر الإسلام، وشیخ الإسلام. وفي الخلاصة: وهو المختار؛ لأن مجرد العقل لایکفي لتوجه الخطاب. وفي التنویر: وعلیه الفتویٰ، ولایومئ بعینیه ولابحاجبیه ولابقلبه؛ لما روینا، وفیه خلاف زفر۔ مجمع الانھر: (باب صلاة المریض، ١/٢٢٩ دار الکتب العلمیة)


کتاب الاصل میں ہے۔

قلت:فإن صلی وکان یستطیع أن یقوم ولا یستطیع أن یسجد؟ قال: یصلي قاعداً یومي إیماء ۔ قلت: فإن صلی قائماً یؤمی إیماء؟ قال: یجزیہ (کتاب الأصل المعروف بالمبسوط للشیباني، کتاب الطھارة والصلاة، باب صلاة المریض فی الفریضة، ۱/۲۰۷، ط:عالم الکتب)۔


مبسوط سرخسي میں ہے۔

وأما إذا کان قادراً علی القیام وعاجزاً عن الرکوع والسجود فإنہ یصلی قاعداً بإیماؤسقط عنہ القیام؛ لأن ھذا القیام لیس برکن؛ لأن القیام إنما شرع لافتتاح الرکوع والسجود بہ فکل قیام لا یعقبہ سجود لا یکون رکناً، ولأن الإیماء إنما شرع للتشبہ بمن یرکع ویسجد، والتشبہ بالقعود أکثر، ولھذا قلنا بأن الموٴمیٴ یجعل السجود أخفض من رکوعہ؛ لأن ذلک أشبہ بالسجود، إلا أن بشراً یقول : إنما سقط عنہ بالمرض ما کان عاجزاً عن إتیانہ، فأما فیما ھو قادر علیہ لا یسقط عنہ ولکن الانفصال عنہ علی ما بینا (المبسوط للسرخسي، کتاب الصلاة،باب صلاة المریض، ۱/۲۱۳، ط: دار المعرفة بیروت، لبنان)۔


الاختیار لتعلیل المختار میں ہے۔

قال:( فإن عجز عن الرکوع والسجود وقدر علی القیام أومأ قاعداً ) ؛لأن فرضیة القیام لأجل الرکوع والسجود؛لأن نھایة الخشوع والخضوع فیھما، ولھذا شرع السجود بدون القیام کسجدة التلاوة والسھو، ولم یشرع القیام وحدہ، وإذا سقط ما ھو الأصل في شرعیة القیام سقط القیام، ولو صلی قائما موٴمیا جاز، والأول أفضل؛لأنہ أشبہ بالسجود (الاختیار لتعلیل المختار، کتاب الصلاة، باب صلاة المریض، ۱/۱۰۳، ط: دار الرسالة العالمیة)۔


فتاوی شامی میں ہے۔

قولہ: ( فلو قدر علیہ) أي: علی القیام وحدہ أو مع الرکوع کما فی المنیة ۔ قولہ: (ندب إیماؤہ قاعداً) أي: لقربہ من السجود ، وجاز إیماوٴہ قائماً کما فی البحر ، وأوجب الثاني زفر والأئمة الثلاثة ؛ لأن القیام رکن، فلا یترک مع القدرة علیہ۔ ولنا أن القیام وسیلة إلی السجود للخرور، والسجود أصل ؛لأنہ شرع عبادة بلا قیام کسجدة التلاوة، والقیام لم یشرع عبادة وحدہ، حتی لو سجد لغیر اللہ تعالی یکفر بہ بخلاف القیام۔ وإذا عجز عن الأصل سقطت الوسیلة کالوضوء مع الصلاة والسعي مع الجمعة۔ وما أوردہ ابن الھمام أجاب عنہ في شرح المنیة الخ (رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، مطلب بحث القیام،۲/۱۳۲، ط: ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


کرسی پر نماز کے متعلق مولانا شعیب اللہ خاں صاحب بنگلوری کا تفصیلی فتوی۔


کرسی پر نماز کی فقہی تحقیق

آج کل مساجد میں کرسیوں کا رواج عام ہورہا ہے اورلوگ عذر سے یا بلاعذر کے کرسیوں کو نماز کے لیے استعمال کررہے ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ کرسی پر نماز پڑھنے کا رواج ابھی ابھی چند سالوں سے شروع ہوا ہے، اس سے پہلے بھی لوگ بیمار ہوتے تھے اور اعذار ان کو بھی لاحق ہوتے تھے؛ مگر کبھی لوگوں کو کرسی پر نماز کی نہیں سوجھی۔


اکثر دیکھنے میں آیا ہے اور سنا بھی جاتا ہے کہ لوگ اچھے خاصے ہیں، چلنے پھرنے، اٹھنے، بیٹھنے کی قوت پوری طرح رکھتے ہیں،اور اپنے گھروں سے چل کر آتے ہیں؛ مگر نماز کے وقت خود ہی کرسی کھینچ کر اس پر نماز پڑھتے ہیں۔ یہ صورت حال اس بات کو سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ لوگوں میں تکاسل وتغافل ہے اور نماز کی اہمیت سے وہ بے خبر ہیں؛ لہٰذا ان کو توجہ دلانے کی ضرورت ہے۔


اور اس سے انکار نہیں کہ بعض اللہ کے بندے واقعی عذر اور شدید مجبوری میں کرسیوں کا استعمال کرتے ہیں اور ان کا یہ عذر شرعی ومعقول ہوتا ہے، اور آج کل قویٰ کی کمزوریوں اور نئی نئی قسم کی بیماریوں نے اصحابِ اعذار کی بھی بہتات کردی ہے۔


الغرض! ایک جانب دین سے غافل اورلاپرواہ لوگ ہیں جو بلاوجہ و بلا عذر محض تن آسانی ولاپرواہی سے اور غفلت وسستی کی بنا پر یا محض شوقیہ یا فاخرانہ طور پر نماز کے لیے کرسیوں کا استعمال کرنے لگے ہیں، تو دوسری جانب ان حضرات کی بھی ایک بڑی تعداد پائی جاتی ہے جن کے دلوں میں اللہ کا ڈر و خوف اور احکام الٰہی کی عظمت وجلالت موجود ہے اور وہ بھی کرسیوں کا استعمال کرتے ہیں؛ مگر اس وجہ سے کہ وہ واقعی معذور ومجبور ہیں۔


اس صورت حال میں علماء ومفیان کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ امت کو اس سلسلے میں صحیح وغلط اوراچھے وبرے کی تمیز بتائیں اور شریعت کی روشنی میں اس کے احکام کو واضح کریں اور شریعت کے وصف امتیازی ”اعتدال“ کو پیش نظر رکھتے ہوئے پہلی قسم کے لوگوں کی بے اعتدالیوں پر تنبیہ کے ساتھ ساتھ واقعی عذر رکھنے والوں کے لیے شریعت کی عطا کردہ سہولتوں کو پیش کریں؛ تاکہ اصحاب اعذار ان سے منتفع ہوسکیں۔


زیر نظر تحریر اسی مسئلے کی تحقیق کے لیے لکھی گئی ہے اور اس میں ہم نے اس کے دونوں پہلوؤں کو واضح کیا ہے؛ تاکہ افراط و تفریط کی راہوں سے الگ اعتدال کے راستے پر قائم رہیں۔ واللہ اعلم۔


محوراوّل: بلاعذر کرسی پر نماز ناجائز ہے

کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کے بارے میں ہماری بحث کے تین محور ہیں: ایک یہ کہ بلاعذر کرسی پر نماز کا حکم، دوسرے عذر معقول کی وجہ سے کرسی پر نماز کاجواز، اور اس کے شرائط وقیود، اور تیسرے کرسی پر عذر کی وجہ سے جواز کی دلیل۔


لہٰذا سب سے پہلی بات ”کرسی پر بلاعذر نماز کے حکم“کے بارے میں عرض ہے کہ بلاعذرِ معقول کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا ناجائز ہے، اور اس کی کئی وجوہات ہیں:


عدم جواز کی پہلی وجہ:

ایک وجہ یہ ہے کہ نماز میں قیام ورکوع وسجدہ فرائض میں داخل ہیں، اور بلا عذر ان میں سے کسی کو چھوڑ دینے سے نماز نہیں ہوتی،اور کرسی پر نماز پڑھنے والا ان تمام فرائض کو چھوڑ دیتاہے، قیام کی جگہ کرسی پر بیٹھتا ہے اور رکوع وسجدہ دونوں کو چھوڑ کر محض اشارے سے ان کو ادا کرتا ہے، تو اس کی نماز کیسے ہوسکتی ہے؟ لہٰذا جو لوگ بلاعذر معقول کرسی پر نماز پڑھتے ہیں، وہ اپنی نمازوں کو ضائع کررہے ہیں، اور یہاں یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے تو نمازیں پڑھی ہیں؛ لیکن جب اللہ کے یہاں پہنچیں گے تو ان کے نامہٴ اعمال اس سے خالی ہوں گے؛ لہٰذا ایسے لوگ ذرا ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ اگر قیامت کے دن نماز کی محنت کرنے کے باوجود ہمارا نامہٴ اعمال نماز سے خالی ہوتو کیا ہوگا؟


عدم جواز کی دوسری وجہ:

دوسرے یہ کہ نماز دراصل اللہ تعالیٰ کی عظیم ہستی کے سامنے بندے کی بندگی، عاجزی وانکساری کا نام ہے اور اللہ کی جلالت کے روبرو خدا کے غلام کی تواضع وفروتنی سے عبارت ہے، اور کرسی پر نماز پڑھنے کی صورت میں یہ مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے؛ کیوں کہ کرسی پر بیٹھنے کی حالت عموماً عاجزی وانکساری کی نہیں ہوتی؛ بلکہ ایک حد تک یہ متکبرانہ ہوتی ہے، نیز اگرمتکبرانہ نہیں ہوتی تب بھی عرف عام میں بڑوں کے سامنے کرسی پر بیٹھنا بے ادبی سمجھا جاتا ہے، یا کم از کم خلافِ ادب خیال کیا جاتاہے۔ اب غور کیجیے کہ کیا اللہ عز و جل کے دربارِ عالی شان ودرگاہ بے نیاز میں بلاوجہ کرسی پر بیٹھنا اچھا معلوم ہوتا ہے؟ لہٰذا یہ صورت نماز کی مقصدیت کے خلاف ہونے کی وجہ سے بھی ناجائز ہے۔


عدم جواز کی تیسری وجہ:

تیسرے یہ کہ کرسیوں پر بیٹھ کر عبادت کرنے میں غیروں سے مشابہت پائی جاتی ہے؛ چنانچہ عیسائیوں میں رواج ہے کہ وہ اپنے چرچوں میں کرسیوں پر عبادت کرتے ہیں، اور یہ بات اسلام کی اہم تعلیمات میں سے ہے کہ غیروں کی مشابہت اختیار نہ کی جائے۔


ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ”مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ“ (جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ ان ہی میں سے ہوگا) (ابوداود:۴۰۳۳)


ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ”لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَشَبَّہَ بِغَیْرِنَا، لاَ تَشَبَّھُوْا بِالْیَھُوْدِ وَلاَ بِالنَّصَارٰی؛ فَاِنَّ تَسْلِیْمَ الْیھُوْدِ الْاِشَارَةُ بِالأَصَابِعِ، وَتَسْلِیْمُ النَّصَارٰی الْاِشَارَةُ بِالأَکُفِّ“․


(وہ ہم میں سے نہیں جو غیروں سے مشابہت اختیار کرے، تم یہود سے مشابہت نہ کرو اور نہ نصاری سے، یہود کا سلام انگلیوں کے اشارے سے اورنصاری کا سلام ہتھیلیوں کے اشارے سے ہوتا ہے) (ترمذی: ۲۲۹۵)


حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: ”جُزُّوْا الشَوَارِبَ وَأَرْخُوا اللُّحٰی، خَالِفُوْا الْمَجُوْسَ“ (مونچھوں کو کٹاؤ اور داڑھی کو بڑھاؤ،اور مجوسیوں کی مخالفت کرو) (مسلم:۶۲۶، معرفة السنن بیہقی:۱/۴۴۰، مسند ابو عوانة:۱/۱۶۱)


ان احادیث سے معلوم ہوا کہ اسلام غیروں سے مشابہت اختیار کرنے کے سلسلے میں کس قدر حساس واقع ہوا ہے؟ جب اسلامی شریعت لباس وپوشاک، اور بال وکھال تک میں غیروں کی مشابہت کو پسند نہیں کرتا تو نماز جیسی اہم ترین عبادت اور موٴمن کی زندگی کے بنیادی مقصد کے بارے میں یہ کیسے گوارا کرسکتا ہے کہ وہ غیروں کے طور وطریقے کے مطابق انجام دیا جائے؟


لہٰذا بلا عذر کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا ناجائز ہے، اور اس طرح نماز پڑھنے والوں کی نماز بالکل بھی نہیں ہوتی، اور اس طرح پڑھی ہوئی نمازیں ان کے ذمہ علی حالہ باقی رہتی ہیں۔


محور دوم: عذرمعقول کی وجہ سے کرسی پر نماز جائز ہے۔

دوسری بحث یہ ہے کہ عذر ہونے کی صورت میں کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ کیا کسی بھی عذر وتکلیف میں کرسی کااستعمال نماز کے لیے جائز نہیں؟ یا کچھ شرائط وقیود کے ساتھ جائز بھی ہے؟


مشقت سے احکام میں تخفیف:

یہ جاننے سے پہلے ایک اصولی بات سمجھ لینی چاہیے؛ تاکہ بات واضح وصاف طریقہ پر سامنے آجائے۔ وہ یہ کہ ہماری شریعت نہایت معتدل ہے جس میں نہ افراط ہے نہ تفریط؛اس لیے یہ بات تو یقینی ہے کہ عذر وتکلیف کی صورت میں اس میں تخفیف وسہولت دی جاتی ہے۔


چناں چہ شریعت کے اصول میں سے ایک اصول یہ ہے کہ اس نے بیماری وتکلیف کو تخفیف احکام کا سبب مانا ہے۔


اسی کو فقہا یوں بیان کرتے ہیں کہ: ”الْمَشَقَّةُ تَجْلِبُ التَّیْسِیْرَ“ (مشقت آسانی کا باعث بنتی ہے) (الاشباہ والنظائر لابن نجیم: ۱/۷۵، الاشباہ والنظائر للسیوطی: ۱/۱۶۰)


اور یہ قاعدہ فقہیہ متعدد قرآنی وحدیثی نصوص سے اخذ کیاگیاہے، جیساکہ فقہاء نے ثابت کیا ہے۔ اور علماء نے لکھا ہے کہ عبادات میں تخفیف کے سات اسباب ہیں،اور ان میں سے ایک مرض کو بھی لکھا ہے۔ (الاشباہ والنظائر لابن نجیم: ۱/۷۵، الاشباہ والنظائر للسیوطی:۱/۱۶۰)


مشقت کے درجات واحکام:

لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ ہر قسم کی تکلیف مرض اس سے مراد نہیں ؛ بلکہ وہ مرض وتکلیف جس سے انسان کو شدید پریشانی لاحق ہوتی ہے، ورنہ تھوڑی بہت تکلیف تو ہر کام میں ہوتی ہے، حتیٰ کہ خود نماز پڑھنا بھی ایک مشکل کام ہے، اسی طرح بعض امراض خفیفہ میں بھی تھوڑی بہت مشقت ہوتی ہے، جیسے سردرد، یا معمولی زخم کی تکلیف وغیرہ؛ مگر ان کی وجہ سے تخفیف نہیں دی جاتی۔


اسی لیے فقہاء نے لکھا ہے کہ مشقت دو قسم پر ہے: ایک وہ مشقت جو عبادت سے اکثروبیشتر جدا نہیں ہوتی، جیسے وضو وغسل میں سردی کی مشقت، اور طویل دن اور سخت گرمی میں روزے رکھنے کی مشقت․․․․․ پس اس قسم کی مشقت کا عبادات کے ساقط ہونے میں کسی بھی وقت اعتبار نہیں، اور رہی وہ مشقت جو غالب طور پر عبادات سے جدا ہوتی ہے، اس کے کئی مراتب ہیں: پہلی بڑی اور پریشان کرنے والی مشقت ہے، جیسے جان پر یا اعضاء پر، یا اعضاء کے متعلقہ فوائد پر خوف کی مشقت، پس یہ مشقت موجبِ تخفیف ہے؛ دوسری معمولی وہلکی مشقت، جیسے انگلی میں معمولی درد ہونا، یا سر میں معمولی سا چکر ہونا، یا معمولی سی طبیعت کی خرابی، پس اس کا کوئی اثر نہیں اور نہ اس کا کوئی لحاظ ہوتا ہے؛ اور تیسری ان دو کی درمیانی مشقت، جیسے رمضان میں بیمار آدمی نے روزہ رکھنے سے مرض کے بڑھ جانے کا خوف کیا، یا بیماری سے دیر سے صحت یاب ہونے کا اندیشہ کیا،پس اس کے لیے روزہ نہ رکھنا جائز ہے) (الاشباہ والنظائر لابن نجیم: ۱/۸۲، الاشباہ والنظائر للسیوطی: ۱/۱۶۸)


الغرض مشقت وبیماری اسبابِ تخفیف میں سے ہے؛ مگر ہر تکلیف وبیماری نہیں؛ بلکہ وہ جس میں انسان کو ناقابلِ برداشت تکلیف پیش آئے اور وہ اس کو سہار نہ سکے۔


شریعت میں معذور کے لیے سہولت اور اس کی شرائط۔

جب یہ تفصیل معلوم ہوگئی تو اب قابل غوربات یہ ہے کہ کرسی پر نماز کے جواز کے لیے کیا اور کون سے اعذار معتبر ہیں اور وہ کیا اور کون سے اعذار ہیں جو معتبر نہیں؟ اس کے جواب سے پہلے اصحاب اعذار کے لیے حضرات فقہاء کرام کے لکھے ہوئے مسائل پر ایک اجمالی نظر ڈال لیں:


(۱) قیام فرض ہے، لہٰذا جو شخص قیام کرسکتا ہے اس کو کھڑے ہوکر نماز پڑھنا فرض ہے، اور جو کسی عذر کی وجہ سے کھڑا نہیں ہوسکتا، تو اس میں تفصیل یہ ہے کہ اگر وہ پورا وقت کھڑا نہیں ہوسکتا؛ لیکن کچھ دیر قیام کرسکتا ہے تو وہ کچھ دیر قیام کرے اور بعد میں بیٹھ جائے،اگر اس نے کچھ دیر قیام پر قدرت کے باوجود کچھ دیر قیام نہیں کیا، اور شروع ہی سے بیٹھ کر نماز پڑھ لی تواس کے لیے یہ جائز نہیں۔


العنایة شرح الہدایة میں ہے کہ جب بعض قیام پر قادر ہو اگرچہ کہ ایک آیت یا ایک مرتبہ اللہ اکبر کہنے کے برابر نہ کہ پورا، تو امام ابوجعفر ہندوانی نے کہا کہ اس کو حکم دیا جائے گا کہ جس قدر کھڑا ہوسکتا ہے وہ کھڑا ہو، پس جب قیام کرنے سے عاجز آجائے تو پھر بیٹھ جائے،اور اگر ایسا نہیں کیا تو مجھے خوف ہے کہ اس کی نماز فاسد ہوجائے گی، یہی مذہب ہے اور ہمارے اصحاب سے اس کے خلاف کوئی بات مروی نہیں ہے؛ کیونکہ طاعت بقدر طاقت ہوتی ہے (العنایة شرح الہدایة: ۲/۳۱۴)


دررالحکام میں ہے کہ اگر بعض قیام پر قدرت رکھتاہو تو وہ قیام کرے، پس اگر وہ قیام کے ساتھ تکبیر کہہ سکتا ہو یا تکبیر اور تھوڑی قراء ت کرسکتا ہوتو اس کو قیام کا حکم دیا جائے گا، شمس الائمہ نے کہا کہ یہی صحیح مذہب (احناف) ہے، اوراگر اس نے قیام کو ترک کردیا تو خوف ہے کہ اس کی نماز جائز نہیں ہوگی (دررالحکام:۲/۷۸)


اور در مختار میں ہے کہ اگر کوئی تھوڑی دیر بھی کھڑے ہونے پر قادر ہوتو وہ اپنی طاقت کے بقدر لازمی طور پر کھڑا ہو، اگرچہ ایک آیت یا ایک تکبیر کی مقدار ہی کیوں نہ ہو، اس لیے کہ بعض کو کل پر قیاس کیاگیا ہے) (درمختار مع ردالمحتار: ۲/۹۷)


(۲) اور جو شخص خود تو نہیں کھڑا ہوسکتا؛ لیکن کسی دوسرے آدمی یا کسی چیز کو سہارا دے کر کھڑا ہوسکتا ہے تو اس کو بھی کسی کے سہارے سے کھڑا ہونا لازم ہے، اس کو بھی بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز نہیں، اوراگر کوئی خود بھی نہیں کھڑا ہوسکتا اور نہ کسی کے سہارے سے کھڑا ہوسکتا ہے اس کے لیے جائز ہے کہ وہ بیٹھ کر نماز پڑھے۔


علامہ ابن الہمام نے فتح القدیر میں اور علامہ البابرتی نے عنایة شرح ہدایہ میں لکھا ہے کہ: اگر ٹیک لگاکر قیام کرسکتا ہوتو شمس الائمہ نے کہا کہ صحیح یہ ہے کہ وہ کھڑے ہوکر ٹیک کے ساتھ نماز پڑھے گا، اوراس کے سوا جائز نہ ہوگا، اسی طرح اس صورت میں بھی ہے کہ اگر عصا پر ٹیک لگانے یا خادم ہوتو اس پرٹیک لگانے سے قیام کی قدرت مل جائے (فتح القدیر: ۲/۳، العنایة: ۲/۳۱۴ واللفظ لہ)


فتاوی ہندیہ میں ہے کہ: اگر ٹیک لگاکر قیام کرسکتا ہوتو صحیح یہ ہے کہ وہ کھڑے ہوکر ٹیک کے ساتھ نماز پڑھے گا،اور دوسری صورت اس کے لیے جائز نہ ہوگی، اسی طرح اس صورت میں بھی ہے کہ اگر عصا پر ٹیک لگانے یا خادم ہوتو اس پر ٹیک لگانے سے قیام کی قدرت مل جائے تو وہ کھڑا ہوگا اور ٹیک لگائے گا (فتاویٰ ہندیہ: ۱/۶۳۱، رد المحتار: ۲/۹۷)


(۳) قیام کرتوسکتا ہے؛ مگر اس سے شدید تکلیف ہوتی ہے، جو ناقابل برداشت ہے یا بیماری وعذر کے بڑھ جانے کا غالب گمان ہے تو اس کے لیے بھی یہی تفصیل ہے کہ اگر کسی کے سہارے کھڑے ہونے سے تکلیف نہیں ہوتی تو وہ کسی کے سہارے قیام کرے، اور پورا وقت کھڑے ہونے سے تکلیف ہوتی ہے،مگر کسی کا سہارا لینے سے بقیہ وقت میں قیام میں تکلیف نہیں ہوتی تو وہ کچھ دیر تو خود قیام کرے اور باقی وقت کسی کے سہارے سے قیام کرے،اور اگر کسی کو ہر صورت میں شدید تکلیف ہوتی ہے تو وہ بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے۔


دررالحکام میں ہے کہ: جب قیام کرنا بیماری کی وجہ سے متعذر ومشکل ہوجائے یا کھڑے ہونے سے بیماری کے بڑھ جانے کا خوف ہو یا بیماری کے دیر سے درست ہونے کااندیشہ ہو یا سر چکرانے کا ڈر ہو یا کھڑے ہونے سے شدید تکلیف محسوس کرے تو بیٹھ جائے) (دررالحکام:۲/۷۸)


علامہ شامی لکھتے ہیں: ”أرادَ بالتعذُّرَ التعذُّر الحقیقيَّ؛ بِحَیْثُ لو قام سَقَطَ․․․ أو الحکمي؛ بِأنْ خَافَ زِیَادَتَہ أَوْ بُطْءَ بُرْئِہ بِقِیَامِہ أَوْ دَوَرَانَ رَأسِہ أو وَجَدَ لِقِیَامِہ ألماً شدیداً صلی قاعداً“․


(یعنی مصنف نے عذر سے عذرِ حقیقی مراد لیا ہے، اس طور پر کہ کھڑا ہوتو گرجائے، یا حکمی مراد لیا ہے؛ اس طورپر کہ اسے بیماری کے بڑھ جانے کا اندیشہ ہو، یا کھڑے ہونے کی وجہ سے صحت یابی میں تاخیر کا اندیشہ ہو، یا سرچکرانے کا اندیشہ ہو، یاکھڑے ہونے میں سخت تکلیف محسوس کرے، تو بیٹھ کر نماز پڑھے) (درمختار وردالمحتار: ۲/۹۶)


یہ تو شدید تکلیف کا حکم ہے،اوراگر کسی کو تکلیف تو ہوتی ہے مگر تھوڑی بہت جو قابل برداشت ہے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں اوراس کو بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز نہیں۔ فتاویٰ ہندیہ میں ہے: ”فانْ لَحِقَہ نوعُ مَشقَّةٍ لم یجُزْ ترکُ ذٰلِکَ الْقِیَامِ“․ (یعنی اگر کھڑے ہونے میں معمولی تکلیف لاحق ہوتو قیام کا چھوڑنا جائز نہیں) (فتاویٰ ہندیہ: ۱/۱۳۶)


اور علامہ ابن الہمام نے فتح القدیر میں، علامہ زیلعی تبیین الحقائق میں اور علامہ المیدانی نے اللباب فی شرح الکتاب میں لکھا ہے کہ:


”فان لَحِقَہ نَوعُ مشقّةٍ لم یَجُز ترکُ القیام بِسَبَبِھَا“ (یعنی اگر کھڑے ہونے میں معمولی تکلیف لاحق ہوتو اس کی وجہ سے قیام کا چھوڑنا جائز نہیں) (فتح القدیر:۲/۳، تبیین الحقائق: ۲/۴۵۶، اللباب:۱/۴۹)


(۴) جو شخص اوپر کی تفصیل کے مطابق کسی بھی طرح قیام نہیں کرسکتا، اور بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے تو وہ زمین پر بیٹھ کر نماز ادا کرے، اور اگر خود بیٹھ نہیں سکتا؛ لیکن کسی دوسرے شخص یا چیز جیسے دیوار، وغیرہ کے اوپر ٹیک لگاکر بیٹھ سکتا ہے تو اس کو کسی کے اوپر ٹیک لگاکر بیٹھنا ضروری ہے۔


المحیط البرہانی میں ہے کہ: امام محمد نے اپنی کتاب ”الاصل“ میں یہ صورت ذکر نہیں کی کہ اگر ایک شخص ٹھیک سے بیٹھ نہیں سکتا،اور ٹیک لگاکر یا کسی دیوار یا انسان وغیرہ پر سہارا لے کر بیٹھ سکتا ہوتو امام شمس الائمہ حلوانی نے فرمایا کہ ہمارے مشائخ نے کہا کہ اس کے لیے کسی کے سہارے سے یا ٹیک لگاکر بیٹھے ہوئے نماز پڑھے تو جائز ہے،اورلیٹ کر نماز پڑھے تو جائز نہیں) (المحیط البرہانی:۲/۲۷۲)


اور فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ: ”واذَا لَمْ یَقْدِرْ عَلَی الْقُعُوْدِ مُسْتَوِیاً وقَدَرَ مُتَّکئاً أو مُستنِداً الی حائِطٍ أو انسانٍ، یجب أن یصلي مُتّکئاً أو مُستنِدًا ولا یجوز لہ أن یصلّيَ مُضطجِعاً“․ (اور جب ٹھیک سے بیٹھنے پر قادر نہ ہو؛ بلکہ ٹیک لگاکر یا کسی دیوار یا انسان کا سہارا لے کر بیٹھنے پر قادر ہوتو ضروری ہے کہ وہ نماز پڑھے ٹیک لگاکر یا سہارا لے کر اور اس کے لیے لیٹ کر نماز پڑھنا جائز نہیں) (فتاویٰ ہندیہ: ۱/۱۳۶)


(۵) اور جو شخص بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے اور رکوع وسجدہ بھی کرسکتا ہے وہ بیٹھ کر ہی رکوع وسجدہ کرلے، لہٰذا جو شخص زمین پر بیٹھ کر رکوع وسجدے کے ساتھ نماز ادا کرسکتا ہے، اسکو رکوع وسجدہ کرنا فرض ہے، کیونکہ وہ اس پر قادر ہے اور یہ دونوں بھی نماز میں فرض ہیں۔


امام قدوری فرماتے ہیں کہ: ”اذا تعدَّرَ علی المریض القیامُ صلّی قاعداً یَرکَعُ ویَسْجُدُ“ (جب مریض پر قیام دشوار ہوجائے تو بیٹھ کر رکوع وسجدہ کرتے ہوئے نماز پڑھے) (الجوہرة:۱/۳۱۱)


الاختیار لتعلیل المختار میں ہے کہ: جب قیام سے عاجز ہوجائے یا قیام سے مرض بڑھ جانے کا خوف ہوتو بیٹھ کر رکوع وسجدہ کرتے ہوئے نماز ادا کرے (الاختیار لتعلیل المختار:۱/۸۲)


اس سے معلوم ہوا کہ بیٹھ کر نماز پڑھنے والا اگررکوع وسجدے پر یا ان میں سے ایک پر قادر ہے تو اس کو بیٹھ کر رکوع وسجدہ کرنا لازم ہے، ورنہ اس کی نماز نہیں ہوگی۔


(۶) جو شخص زمین پر بیٹھ سکتا ہے، مگر رکوع وسجدے کے لیے جھک نہیں سکتا وہ بیٹھ کر رکوع وسجدے کے لیے اشارہ کرلے، اسی طرح جو شخص رکوع وسجدے کے لیے جھکنے میں شدید تکلیف محسوس کرتا ہے جو ناقابل برداشت ہوتو وہ بھی رکوع وسجدے کا اشارہ کرسکتا ہے۔


فقہاء نے لکھا ہے کہ: ”فانْ لَمْ یَسْتَطِعِ الرُّکُوْعَ وَالسُّجُوْدَ أوْمأ ایماءً“ پس اگررکوع وسجود نہ کرسکے تو اشارے سے کرلے (الجوہرة: ۱/۳۱۱، واللفظ لہ، البحرالرائق: ۲/۱۲۲)


(۷) اوراگر کوئی شخص اس قدر بیمار ہے کہ وہ بیٹھ کر رکوع وسجدہ نہیں کرسکتا، تو اس کو چت لیٹ کر یا پہلو پر لیٹ کر اشارے سے نماز پڑھنے کی اجازت ہے اوراس کو چاہیے وہ سرسے رکوع وسجدے کا اشارہ کرے اور سجدہ کا اشارہ رکوع کے اشارے سے زیادہ کرے۔


الجوہرة میں ہے کہ: ”فانْ لَمْ یَسْتَطِعِ القُعُودَ اِسْتَلْقٰی عَلیٰ ظَھْرِہ الخ“ (پس اگر بیٹھنے کی طاقت نہ ہو تو پیٹھ کے بل لیٹ جائے الخ) (الجوہرة: ۱/۳۱۲)


اور البحرالرائق میں ہے کہ: اگر بیٹھنا دشوار ہوجائے تو چت لیٹ کر یا اپنے بازو پر لیٹ کر اشارے سے پڑھے (البحرالرائق:۲/۱۲۳)


اس تفصیل سے بیماروں ومعذوروں کو شریعت کی دی ہوئی سہولت اور اسی کے ساتھ اس کی شرائط کا بھی علم ہوگیا، جس کا حاصل یہ نکلتا ہے کہ ان فرائض کے ادا کرنے کی جس قدر طاقت وگنجائش ہے اس قدر ان کو ادا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے، جہاں ممکن نہ ہو یا ممکن تو ہو مگر زیادہ پریشانی وتکلیف ہوتی ہو، وہاں ان فرائض کو چھوڑنے کی اوپر کی تفصیل کے مطابق گنجائش ہے۔


کرسی پر نماز کا مسئلہ:

اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی وجہ سے زمین پر بیٹھ کر نماز نہ پڑھ سکتا ہو؛ لیکن کرسی پر بیٹھ سکتا ہے، اس کا کیا حکم ہے؟


(۱) مثلاً ایک شخص کا ایکسیڈنٹ ہوا اور کمر میں راڈ داخل کی گئی ہے جس کی وجہ سے وہ کرسی پر بیٹھ سکتا ہے؛ مگر جھک نہیں سکتا، بیٹھ نہیں سکتا اور رکوع یا سجدہ نہیں کرسکتا۔


(۲) ایک شخص اس قدر کمزور ہے کہ اٹھنا بیٹھنا اس کے لیے دشوار ہے، اگر اٹھتا بیٹھتا ہے تو ناقابل برداشت تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ لہٰذا وہ کرسی پر بیٹھ کر اپنے کام کاج کرتا ہے اور اسی میں نماز بھی پڑھ لیتا ہے۔


(۳) ایک شخص کو موٹاپے کی وجہ سے زمین پر بیٹھنے میں شدید تکلیف ہوتی ہے، اگرچہ وہ چل سکتا ہے اور قیام بھی کرسکتا ہے؛ مگر بیٹھ نہیں سکتا، لہٰذا کرسی پر ہی اس کو اپنے تمام دنیوی کام بھی کرنے پڑتے ہیں اور نماز بھی وہ اسی پر پڑھتا ہے۔


(۴) ایک شخص اس قدر کمزور یا بیمار ہے کہ زمین پر ازخود نہیں بیٹھ سکتا اور اگر بیٹھ گیا تو اٹھ نہیں سکتا؛ بلکہ اس کو اس صورت میں ایک دو آدمیوں سے مدد لینی پڑتی ہے۔ اور بعض دفعہ کوئی ایسا خادم یا اعانت کرنے والا میسر نہیں ہوتا؛ لہٰذا وہ اس پریشانی کی وجہ سے کرسی پر ہی نماز پڑھ لیتا ہے۔


(۵) بعض بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جن میں ڈاکٹروں کی ہدایت ہوتی ہے کہ نیچے نہ بیٹھا جائے، ورنہ بیماری کے بڑھ جانے کا اندیشہ ہے، اس وجہ سے بھی کرسی پر نماز کی ضرورت کسی کو پیش آسکتی ہے۔


ظاہر ہے ان تمام صورتوں اور اس طرح کی صورتوں میں عذر معقول موجود ہے اوراس کا اعتبار کرنا شرعاً بھی درست ہے؛ لہٰذا اس قسم کے اصحابِ اعذار کو کرسی پر نماز کی اجازت ہونی چاہیے؛ کیونکہ اوپر خود فقہاء کے کلام میں یہ ضابطہ ہم نے پڑھ لیا ہے کہ: طاعت بقدر طاقت ہوا کرتی ہے۔ جب اس قسم کے اعذار میں نیچے بیٹھ کر نماز کی طاقت نہیں یا نیچے بیٹھنا بڑا مشکل ہے تو کرسی پر پڑھنے کی اجازت ایک معقول بات بھی ہے اور اصول فقہیہ کی روشنی میں شرعی بات بھی ہے۔


لیکن اس جگہ وہی دو باتیں ذہن نشین ہونی چاہئیں: ایک تو یہ کہ عذر موجود ہو، بلاعذر کرسی پر نماز پڑھنا گناہ بھی ہے اور اس کی وجہ سے نماز ہوتی بھی نہیں،اور دوسری بات یہ کہ معمولی اور چھوٹا موٹا عذر نہیں؛ بلکہ معقول وشرعاً معتبر عذر ہو، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کی یا تو سکت و طاقت ہی نہ ہو، یا طاقت تو ہو ؛ مگر اس سے ناقابلِ برداشت تکلیف و درد ہوتا ہو، یا زمین پر بیٹھنے سے بیماری وتکلیف کے بڑھ جانے کا اندیشہ ہو۔ اس صورت میں کرسی پر نمازکی اجازت ہے۔


محور سوم: عذر سے کرسی پر نماز کے جواز کی دلیل:

اب رہا یہ سوال کہ عذر کی وجہ سے کرسی پر نماز کے جواز کی دلیل کیا ہے؟ اس مسئلے کی دلیل میں احقر کو ایک فقہی نظیر بھی الحمدللہ مل گئی جس سے اس مسئلے پر اچھی طرح روشنی پڑتی ہے۔ وہ یہ کہ حضرات فقہاء نے لکھا ہے کہ بعض صورتوں میں سواری کے جانور پر بیٹھے ہوئے بھی نماز کی گنجائش ہے۔ مثلاً:


(۱) کسی جگہ زمین میں کیچڑ ہی کیچڑ ہے اور وہاں زمین پراترکر نماز نہیں پرھی جاسکتی تو ایسی جگہ جانور ہی پر بیٹھ کر نماز پڑھی جاسکتی ہے۔


(۲) اسی طرح کسی کاجانور سرکش ہے جس کی وجہ سے اس پرسوار ہونا کارے دارد، لہٰذا اگراس سے اترگئے تو دوبارہ اس پرسوار ہونے میں مشکل پیش آئے گی تو اس جانور ہی پر نماز پڑھ لینے کی گنجائش ہے۔


(۳) اسی طرح اگر جانور سے اترنے کی صورت میں کسی چور وڈاکو یا درندے کی جانب سے جان کا خطرہ ہوتو جانور پر بیٹھے ہوئے نماز جائز ہے۔


(۴) بوڑھا آدمی جانور پر سوار ہے اگر اترے گا تو دوبارہ بیٹھنا مشکل ہے، تو اس کو سواری ہی پر نماز کی اجازت ہے۔


(۵) کوئی بیمارہے اوراس کی وجہ سے سواری سے اتر نہیں سکتاتو اس کو بھی جانور ہی پر سوار ہوتے ہوئے نماز جائز ہے۔


کرسی پر نماز کی فقہی نظیر:

درج ذیل عبارات میں ان مسائل کا ذکر موجود ہے:

الجوہرة النیرة میں جانورپر نفل نماز جائز ہونے کے مسئلے کے ضمن میں ”نفل نماز“ کی قید کیوں لگائی ہے، اس کا فائدہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:


”لأن المکتوبةَ لا تجوزُ علی الدَّابَّةِ الاَّ من عُذر، وھو أن یَخَافَ مِنَ النُّزُولِ علی نفسِہ أو دابَّتِہ من سَبُعِ أو لِصٍّ، أو کَانَ فِيْ طِیْنٍ أو رَدغَةٍ لا یجدُ علی الأرض مکانا جَافّاً، أو کانت الدابةُ جَمُوحاً لو نَزَلَ لا یمکنہ الرُّکُوب الاّ بمُعِین، أو کان شَیخاً کبیراً لا یُمکِنُہ ولا یَجِدُ مَن یُعِیْنُہ فتجوزُ صلاةُ الفَرض في ھذہ الأحوال کُلِّھا علی الدَّابَّة․


(کیونکہ بلاعذر جانور پر بیٹھ کر فرض نماز جائز نہیں ہوتی، اور عذر یہ ہے کہ جانور سے اترنے سے کسی درندے یا چور کا اپنے اوپر یا جانور پر خوف ہو، یا گارا وکیچڑ ہو جس سے زمین پر کوئی سوکھی جگہ نہ پائے، یا جانور سرکش ہوکہ اگر سواری سے اترے تو دوبارہ سوار ہونا بغیر کسی کی مدد کے ممکن نہ ہو، یا بوڑھا آدمی ہو جس کو سوار ہونا ممکن نہ ہو اور کوئی سوار کرانے والا نہ ملے، تو ان تمام احوال میں جانور پر بیٹھے ہوئے فرض نماز جائز ہے) (الجوہرة النیرة:۱/۲۹۶)


اور یہی بات تبیین الحقائق میں ہے کہ: ”وَھِيَ أنْ یَخَافَ مِنَ النُّزُولِ علی نَفْسِہ أو دَابَّتِہ من سبعٍ أو لِصٍ، أو کَانَ فِيْ طِیْنٍ أو رَدَغَةٍ، قال في المحیط: یغیبُ وجھہ فیھا، لا یَجِدُ مکاناً جَافّاً، أو کانت الدابةُ جَمُوحاً لو نزل لا یمکنہ رکوبُھا الا بعَنَاءٍ، أو کان شیخاً کبیراً لا یمکنہ أن یرکبَ فلا یجدُ مَنْ یُعِیْنُہ علی الرُّکُوبِ، فتجوزُ صَلاةُ الفرض فی ھذہ الأحوال کُلِّھا علی الدَّابَّة“․ (اور عذر یہ ہے کہ جانور سے اترنے سے کسی درندے یا چور کا اپنے اوپر یاجانور پر خوف ہو، یا گارا وکیچڑ ہو، جس میں چہرہ رکھنے سے اندر دھس جائے، اور زمین پر کوئی سوکھی جگہ نہ پائے، یا جانور سرکش ہو کہ اگر سواری سے اترے تو دوبارہ سوار ہونا بغیر مشقت کے ممکن نہ ہو، یا کوئی بوڑھا آدمی ہو جس کو سوار ہونا ممکن نہ ہو اور کوئی سوار کرانے والا نہ ملے، تو ان تمام احوال میں جانور پر بیٹھے ہوئے فرض نماز جائز ہے) (تبیین الحقائق:۲/۳۴۵)


البحرالرائق اور ردالمحتار میں ہے: وَکذا المَرِیْضُ الرَّاکِبُ اذَا لَمْ یَقْدِرْ عَلی النُّزُولِ، وَلَا عَلیٰ مَنْ یَنْزِلُہ الخ (اسی طرح جو مریض سوار ہو جب سواری سے اترنے پر اور اتارنے والے پر قدرت نہ ہو) (البحرالرائق، شامی:۲/۹۶)


الاختیار لتعلیل المختار میں ہے کہ: ”مریضٌ راکبٌ لا یَقْدِرُ علی مَنْ یُنزِلُہ یُصَلِّی المکتوبةَ راکباً بایماءٍ، وکذلک اذا لم یَقْدِرْ علی النُّزُول لمَرَضٍ أو مَطَرٍ أو طینٍ، أو عَدُوٍّ“․ (مریض شخص جو سواری پر سوار ہوا اگر اتارنے والے پر قدرت نہ ہوتو وہ فرض نماز سواری ہی پر اشارے سے پڑھ لے، اسی طرح اس وقت بھی جب سواری سے اترنے پرمرض کی وجہ سے یا بارش یا گارے یا دشمن کی وجہ سے قدرت نہ ہو) (الاختیار:۱/۸۳)


اور تحفة الفقہاء میں ہے کہ: ”أَمَّا الْفَرْضُ فَیَجُوْزُ عَلی الرَّاحِلَةِ بِشَرْطَیْنِ: أحَدُھُما أنْ یَکُوْنَ خَارِجَ الْمِصْرِ سَوَاءٌ کَانَ مُسَافِراً أو خَرَجَ الی الضیعة․ والثانی أنْ یَکُوْنَ بہ عُذرٌ مانعٌ من النُّزُول عن الراحلة، الخ“ (رہی فرض نماز تو وہ سواری پر دو شرطوں سے جائز ہے: ایک یہ کہ شہر سے باہر ہو خواہ سفر کی وجہ سے یا اپنی زمین کی جانب جانے کے واسطے، دوسری شرط یہ کہ اس کے ساتھ عذر ہو جو سواری سے اترنے سے مانع بنے) (تحفة الفقہاء:۱/۱۵۳)


ان تمام عبارات میں دابہ یعنی سواری کے جانور پر نمازِ فرض کی اجازت دی گئی ہے، اور ان سب کو قیام ورکوع وسجود کے ساقط ہونے کے لیے عذر مانا گیا ہے۔ اور ہر کوئی جانتا ہے کہ جانور پر بیٹھنے کی ہیئت تقریباً وہی ہوتی ہے جو کرسی پربیٹھنے کی ہوتی ہے، اور اس پر نماز کی صورت بھی تقریباً وہی ہوتی ہے جو کرسی پر نماز کی ہوتی ہے، لہٰذا ان اعذار میں جانور پرنماز کا جواز دراصل کرسی پر نماز کے جواز کی واضح نظیر ہے۔


حدیث وآثار سے استدلال:

اور فقہاء نے یہ مسئلہ ایک حدیث سے مستنبط کیاہے، جسے ترمذی، احمد، بیہقی اور دارقطنی وغیرہ محدثین نے حضرت یعلی بن مرہ سے روایت کیا ہے، چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ:


أنّ رَسُوْلَ اللہِ صلى الله عليه وسلم انْتَھٰی الٰی مَضِیْقٍ ھُوَ وَ أَصْحَابُہ، وَھُوَ عَلَی رَاحِلَتِہ، وَالسَّمَاءُ مِنْ فَوْقِھِمْ، وَالْبَلَّةُ مِنْ أسْفَلِھِمْ، فَحَضَرَتِ الصّلاَةُ، فَأَمَرَ الْمُوٴَذِّنَ، فَأَذَّنَ وَأَقَامَ، ثُمَّ تَقَدَّمَ رَسُوْلُ اللہِ صلى الله عليه وسلم عَلَی رَاحِلَتِہ، فَصَلّٰی بِھِمْ یُوٴْمِيْ ایْمَاءً، یَجْعَلُ السُّجُوْدَ أَخْفَضَ مِنَ الرُّکُوْعِ“ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ ایک تنگ جگہ پہنچے جبکہ آپ سواری پر سوار تھے،اور اوپر سے آسمان برس رہا تھا اورنیچے تری وکیچڑ تھا، پس نماز کا وقت آگیا تو آپ نے موٴذن کو حکم دیا تواس نے اذان دی اور اقامت کہی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر آگے بڑھے، اور لوگوں کو اشارے سے نماز پڑھائی، سجدے کا اشارہ رکوع کے شارے سے زیادہ پست کیا) (ترمذی:۴۱۱، مسند احمد: ۱۷۶۰۹، سنن بیہقی: ۲/۷، دارقطنی: ۱۴۲۹)


اس حدیث کے بارے میں علماء محدثین کا اختلاف ہے کہ یہ کس درجے کی ہے؟ امام ترمذی نے کہا:


”ھذا حدیثٌ غریبٌ تَفَرَّدَ بِہ عمر بن الرماح البلخي، لا یُعْرَفُ الاّ مِنْ حدیثِہ، وقد رَویٰ عنہ غیرُ واحدٍ مِنْ أھلِ الْعِلْم“


اور ابن حجر نے ”التلخیص الحبیر“ میں لکھا کہ: ”قال عبدُ الحق: اسنادُہ صحیحٌ، والنووی: اسنادُہ حَسَنٌ، وضعَّفَہُ البیھقي وابنُ العربي وابنُ القطان لحال عمرو بن عثمان“ (التلخیص الحبیر: ۱/۵۲۲)


اور ابن عبدالبر نے ”التمہید“ میں کہا کہ: لیس اسْنادُہ بِشَیءٍ․ (التمہید:۲۳/۶۱)


معلوم ہوا کہ اس کی صحت کے بارے میں اختلاف ہے، تاہم اس کی صحت حضرت انس بن مالک کے ایک اثر سے ہوتی ہے؛ کیونکہ محدثین کے نزدیک حدیث کی تقویت کا ایک ذریعہ آثار صحابہ کا اس کے موافق ہونا بھی ہے۔


چنانچہ امام طبرانی نے حضرت ابن سیرین سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ: ”أَقْبَلَنَا مَعَ أَنَسٍ مِنَ الْکُوْفَةِ حَتّٰی اِذَا کُنَّا بِأَطَّطٍ أَصْبَحْنَا وَالأَرْضُ طِینٌ وَماءٌ، فَصَلّٰی المَکتُوبَةَ عَلَی دَابَّتِہ “ (ہم حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے ساتھ کوفے سے آئے یہاں تک کہ جب ہم اطیط مقام پر تھے تو ہم نے اس حال میں صبح کی کہ زمین میں کیچڑوپانی تھا، پس حضرت انس نے فرض نماز جانور پرپڑھی) (معجم طبرانی کبیر:۱/۲۹۲)


اور علامہ ہیثمی نے مجمع الزوائد میں اس حدیث کے بارے میں فرمایا کہ: ”رواہ الطبرانی فی الکبیر ورجالہ ثقات“ (مجمع الزوائد:۲/۱۹۲)


اور یہ حدیث دوسرے الفاظ سے امام ابن ابی شیبہ اور امام عبدالرزاق نے بھی روایت کی ہے۔ امام عبدرالزاق کے الفاظ یہ ہیں کہ ابن سیرین نے فرمایا کہ: ”کُنْتُ مَعَ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ فِیْ یَوْمٍ مَطِیْرٍ حَتّٰی اِذَا کُنَّا بِأَطِیْطٍ وَالأرْضُ فَضْفَاضٌ، صَلّٰی بِنَا عَلٰی حِمَارِہ صَلاَةَ الْعَصْرِ یُوٴْمِيْ بِرَأسِہ اِیْمَاءً وَجَعَلَ السُّجُوْدَ أَخْفَضَ مِنَ الرُّکُوْعِ“ (مصنف عبدالرزاق:۲/۵۷۳)


اور ابن ابی شیبہ کے الفاظ اس طرح ہیں کہ ابن سیرین نے کہا کہ: ”أَقْبَلْتُ مَعَ أَنَسٍ مِنَ الْکُوْفَةِ حَتّٰی اِذَا کُنَّا بِأَطَّطٍ، وَقَدْ أخَذَنَا السَّمَاءُ قَبْلَ ذٰلِکَ، وَالأرْضُ ضَحْضَاحٌ، فَصَلّٰی أَنَسٍ وَھُوَ عَلٰی حِمَارٍ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ، وَأَوْمَأَ اِیْمَاءً، وَجَعَلَ السُّجُوْدَ أَخْفَضَ مِنَ الرُّکُوْعِ“ (مصنف ابن ابی شیبہ:۲/۹۰)


جب حضرت انس کے عمل کا صحیح طور پر ثبوت ہوگیا کہ انھوں نے بھی کیچڑکی وجہ سے جانور پر بیٹھے بیٹھے نماز پڑھی تو اس سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ اوپر کی حدیث بھی صحیح ہے؛ کیونکہ یہ حدیث اس کی تائید کررہی ہے؛ لہٰذا اس حدیث اور حضرت انس بن مالک کے اثر سے معلوم ہوا کہ ضرورت پرجانور پر بیٹھے بیٹھے رکوع وسجدے کا اشارہ کرتے ہوئے نماز ہوسکتی ہے اوراس کی گنجائش ہے، اور جیسا کہ عرض کیاگیا یہ نظیر ہے کرسی پر نمازکی؛ لہٰذا معلوم ہوا کہ ضرورت وعذر کی بنا پر کرسی پر نماز جائز ہے۔

(ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ ١٠-١١ ‏، جلد: ٩٦ ‏، ذی الحجہ ١٤٣٣ ہجری‏، محرم ١٤٣٤ ہجری مطابق اکتوبر - نومبر ء٢٠١٢)

--------------------------------------------------------

--------------------------------------------------------


کرسی پر نماز پڑھنے کے سلسلہ میں دار العلوم دیوبند کا تفصیلی فتاوی۔


(کرسی پر نماز  (ایک مفصل فتویٰ)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: کیا فرماتے ہیں علماء کرام، مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ہمارے شہر کی مساجد میں معذور افراد کے لیے {جیسے پیر میں تکلیف، گھٹنوں میں درد، کمردرد یا کھڑے نہ ہوپانا، یا سجدہ زمین پر نہ کرپانا یا کوئی اور عذر ہو جس سے نماز کھڑے ہوکر ادا نہیں کرسکتے} مسجد کی صف میں دونوں کنارے پر کرسیاں رکھی جاتی ہیں؛ تاکہ معذور افراد اس پر نماز ادا کرسکیں، ایسے ہی ہماری بھی مسجد میں معذور افراد کے لیے کرسی کا انتظام ہے؛ مگر وہ کرسیاں ایک خاص ڈیزائن کی  بنی ہوئی ہیں، بعض افراد نے اعتراض کیا ہے کہ ایسی کرسی پر نماز کا پڑھنا درست نہیں ہے۔


جواب طلب امر یہ ہے کہ اس خاص ڈیزائن والی کرسی پر مذکورہ معذور افراد کی نماز درست ہوسکتی ہے یا نہیں؟ یا پلاسٹک والی کرسی پر نماز ادا کی جائے، یا د رہے کہ خاص ڈیزائن والی کرسی اِسٹیل کی بنی ہوئی ہے، مزید معلومات کے لیے کرسی کی تصویر نماز ادا کرنے کی حالت  کی بھیجی جارہی ہے؛ تاکہ نماز کی ہیئت سمجھنے میں دشواری نہ ہو، جس میں تصویر نمبر ایک کی حالت سجدہ کی ہے جس میں مکمل سجدہ کرسی پر ہے اور تصویر نمبر دو کی حالت بھی سجدہ کی ہے جس میں اشارتاً سجدہ کیا جارہا ہے اور تصویر نمبر تین کی حالت رکوع کی ہے جس میں رکوع کو ادا کرتے ہوئے دکھایا ہے ایک رکوع کی شکل گھٹنے پر کرتے ہوئے دکھایاگیا ہے اور ایک رکوع کی لکڑی پر ہے دونوں میں سے کونسی شکل درست ہے، آپ حضرات سے درخواست ہے کہ تصویر میں خاص شکل والی کرسی پر نماز کا ادا کرنا درست ہے یا نہیں جو کہ اسٹیل کی ہے اور پلاسٹک والی کرسی پر نماز ادا کرنے کا کیا حکم ہے، نماز ادا ہوجائے گی یا نہیں؟ یعنی رکوع، سجدہ وغیرہ کا کیا طریقہ ہے؟ اور تصویر میں جو سجدہ اور رکوع کی حالت دکھائی گئی ہے اس حالت میں نماز ادا ہوجائے گی یا نہیں؟ قرآن واحادیث کی روشنی میں اور فقہاء کرام کے ارشادات کے مطابق جواب عنایت فرماکر عند اللہ ماجور ومشکور ہوں۔

فقط: بندہ آفاق احمد خاں  کوپر کھیرنہ نوی ممبئی


الجواب وباللّٰہ التوفیق

قیام اور سجدہ پر قادر شخص کے لیے نماز میں قیام فرض اور نماز کارکن ہے۔ اگر قیام اور سجدہ پر قدرت ہوتے ہوئے فرض نماز بیٹھ کر ادا کی جائے تو رکن کے فوت ہونے کی وجہ سے نماز نہیں ہوگی، نماز کا اعادہ ضروری ہوگا،  مِنْ فرائضِھا القیامُ في فرضٍ لِقادرٍ علیہ علی السجود (درمختار مع الشامی زکریا: ۲/۱۳۲) یہاں تک کہ اگر نماز میں قیام کے کچھ حصے پر قدرت ہے مکمل طور پر قیام پر قادر نہیں تو جتنی دیر قیام کرسکتا ہے خواہ کسی عصا یا دیوار پر ٹیک لگاکر ہی کیوں نہ ہو، اتنی دیر قیام کرنا فرض ہوگا، اگر اتنی دیر قیام نہ کیا یا ٹیک لگاکر کھڑا نہ ہوا اور بیٹھ کر نماز مکمل کی تو نماز نہیں ہوگی۔  وإن قدر علی بعض القیام ولو متکئاً علی عصاً أو حائط قام لزوماً بقدر ما یقدر ولو قدر آیۃ أو تکبیرۃ علی المذھب؛ لأن البعض معتبر بالکل (درمختار مع الشامی زکریا: ۲/۵۶۷) اگر کوئی شخص قیام پر قادر ہے؛ مگر کھڑے ہوکر نماز پڑھنے میں رکوع سجدہ یا صرف سجدہ پر قادر نہیں تو اس کے لیے بیٹھ کر نماز ادا کرنا جائز ہے وہ اشارہ سے رکوع وسجدہ  ادا کرے، اس صورت میں کھڑے ہوکر نماز ادا کرنے کے مقابلے میں بیٹھ کر اشارہ سے نماز ادا کرنا افضل اور بہتر ہے  و ان تعذرا، لیس تعذُّرَھما شرطاً بل تعذر السجود کافٍ، لا القیام أومأ قاعدًا؛ لأن رکنیۃ القیام للتوصل إلی السجود فلا یجب دونہ (درمختار مع الشامی زکریا: ۲/۵۶۷) فتاویٰ عالمگیری: ۱/۱۳۶ میں بھی اسی کے مثل ہے۔


جو اعذار قیام کو ساقط کرنے والے ہیں وہ دو قسم کے ہیں: (۱) حقیقی: یعنی اس طرح معذور ہو کہ قیام اس کے لیے ممکن نہ ہو۔ (۲) حکمی: یعنی اس درجہ معذور نہ ہو کہ قیام پر قدرت ہی نہ ہو؛ بلکہ قدرت تو ہو مگر گرجانے کا اندیشہ ہو یا ایسی کمزور حالت ہو جو عند الشرع عذر میں شامل ہے، مثلاً : بیمار ہے اور ماہر مسلم تجربہ کار ڈاکٹر نے کہا ہو کہ کھڑے ہونے میں بیماری میں اضافہ ہوگا یا بیماری دیر سے صحیح ہوگی؛ یا کھڑے ہونے میں ناقابلِ برداشت درد ہوتا ہو، ان صورتوں میں بیٹھ کر نماز ادا کرنا جائز ہے۔  مَنْ تعذر علیہ القیامُ لمرضٍ حقیقي، وحدَہ أن یلحَقَہ بالقیامِ ضررٌ، وفي البحر: أراد بالتعذر، التعذر الحقیقی بحیث لو قام سقط، أو حکمي بأن خاف أي غلب علی ظنہ بتجربۃ سابقۃ أو إخبار طبیب مسلم حاذق زیادتہ أو بُطأِ برئہ بقیامہ أو دوران رأسہ أو وجد لقیامہ ألماً شدیدًا صلی قاعدًا (در مع الرد زکریا: ۲/۵۶۵) اگر غیرمعمولی درد نہ ہو؛ بلکہ ہلکی اور قابل برداشت تکلیف کا سامنا ہوتو یہ عند الشرع عذر نہیں اس صورت میں بیٹھ کر نماز اداکرنا جائز نہیں،  وإن لم یکن کذلک (أي بما ذُکر) ولکن یلحقہ نوعُ مشقۃٍ لا یجوز ترکُ القیام (تاتارخانیہ زکریا: ۲/۶۶۷)، جو شخص قیام پر قادر نہیں، لیکن زمین پر بیٹھ کر سجدہ کے ساتھ نماز ادا کرسکتا ہے تو اس کو زمین پر بیٹھ کر سجدہ کے ساتھ نماز ادا کرنا ضروری ہے، زمین پر سجدہ نہ کرتے ہوئے کرسی پر یا زمین پر اشارہ سے سجدہ کرنا جائز نہیں۔  وإن عجز عن القیام وقَدَرَ علی القعود؛ فإنہ یصلي المکتوبۃَ قاعدًا برکوعٍ وسجود ولا یجزیہ غیر ذلک (تاتارخانیہ زکریا: ۲/۶۶۶۷)، اگر رکوع سجدہ پر قدرت نہیں اور زمین پر بیٹھ کر اشارہ سے نماز ادا کرسکتا ہے تو تشہد کی حالت پر بیٹھنا ضروری نہیں؛ بلکہ جس ہیئت پر بھی خواہ تورک (عورت کا تشہد میں بیٹھنے کا طریقہ) کی حالت پر یا آَتی پالتی مارکر بیٹھنا سہل وممکن ہو اس ہیئت کو اختیار کرکے زمین ہی پر بیٹھ کر اشارہ سے نماز ادا کی جائے، کرسیوں کو اختیار نہ کیا جائے؛ کیونکہ شریعت نے ایسے معذورین کو زمین پر بیٹھنے کے سلسلے میں مکمل رعایت دی ہے کہ جس ہیئت میں ممکن ہو بیٹھ کر نماز ادا کرے  من تَعَذَّرَ علیہ القیامُ لمرضٍ۔۔۔ أو خَافَ زیادتَہٗ۔۔۔ أو وَجَدَ لقیامہ ألماً شدیداً صلی قاعداً کیف شاء (درمختار مع الشامی زکریا: ۲/۵۶۶) اس صورت میں بلا ضرورت کرسیوں پر بیٹھ کر نماز اداکرنا بہ چند وجوہ کراہت سے خالی نہیں۔


(۱) زمین پر بیٹھ کر ادا کرنا مسنون طریقہ ہے اسی پر صحابہ کرامؓ اور بعد کے لوگوں کا عمل رہا ہے، نوے کی دہائی سے قبل تک کرسیوں پر بیٹھ کر نماز ادا کرنے کا رواج نہیں تھا، نہ ہی خیرالقرون سے اس طرح کی نظیر ملتی ہے۔


(۲) کرسیوں کے بلا ضرورت استعمال سے صفوں میں بہت خلل ہوتا ہے؛ حالاںکہ اتصال صفوف کی حدیث میں بہت تاکید آئی ہے:  قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: راصّوا صفوفَکُمْ وقارِبوا بینھا وحَاذَوا بالأعناق فوالذي نفسُ محمدٍ بیدہٖ إني لَأری الشیاطین تدخل من خلل الصف کأنھا الخذف (نسائی:۱/۱۳۱)


(۳) بلاضرورت کرسیوں کو مساجد میں لانے سے اغیار کی عبادت گاہوں سے مشابہت ہوتی ہے اور دینی امور میں ہم کو غیروں کی مشابہت سے منع کیاگیا ہے۔


(۴) نماز، تواضع وانکساری سے عبارت ہے اور بلا ضرورت کرسی پر بیٹھ کر ادا کرنے کے مقابلے میں زمین پر ادا کرنے میں یہ انکساری بدرجۂ اتم پائی جاتی ہے۔


(۵) نماز میں زمین سے قرب ایک مطلوب شے ہے جو کرسیوں پر ادا کرنے میں مفقود ہے۔ البتہ اگر زمین پر کسی بھی ہیئت میں بیٹھ کر نماز ادا کرنا دشوار ہوجائے تو پھر کرسیوں پر ضرورت کی وجہ سے نماز ادا کی جاسکتی ہے؛ لیکن اگر زمین پر بیٹھ کر رکوع وسجدہ کی قدرت ہوگی تو پھر کرسی پر نماز ادا کرنا جائز نہیں ہوگا۔


بہرحال جس صورت میں ضرورۃً کرسی پر بیٹھ کر نمازادا کرنے کی اجازت دی گئی ہے، اس میں بھی مصلی کو چاہیے کہ سجدے کے وقت اشارہ پر اکتفا کرے؛ جہاں تک کرسی کے کسی حصے (مثلاً: اس پر لگی لکڑی) پر سجدہ کرنے کی بات ہے تو اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ بحالت معذوری کسی اونچی چیز پر سجدہ کرنے کے سلسلے میں روایات مختلف آئی ہیں: چناںچہ ایک مرتبہ نبی کریمﷺ ایک صحابی کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے وہ صحابی معذوری کی وجہ سے نماز میں ایک تکیہ پر سجدہ کرتے تھے، آپﷺ نے ان کو اس سے منع کرتے ہوئے فرمایا: اگر زمین پرسجدہ کرنا تمہارے بس میں نہ ہوتو اشارے سے نماز ادا کرو اور سجدہ میں رکوع کے مقابلے میں زیادہ جھکو،  رواہ البزار، ورجالہ رجال الصحیح (اعلاء السنن: ۷/۱۷۸)


دوسری روایت ہے کہ ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا جب بیمار ہوئیں تو ان کے سامنے تکیہ رکھ دیاگیا تھا اس پر وہ سجدہ کرتی تھیں، آپﷺ نے دیکھا تو اس پر کوئی نکیر نہیں فرمائی، اور آں حضورﷺ کا کسی عمل کو دیکھ کر سکوت اختیار کرنا اس کے اذن کی دلیل ہے۔


علامہ شامیؒ نے دونوں روایتوں میں یہ تطبیق دی ہے کہ کراہت اس صورت میں ہے جب آدمی دوران نماز کوئی چیز اٹھاکر اس پر سجدہ کرے اگر زمین میں پہلے سے کوئی چیز نصب کردی گئی ہو جس پر مصلی سجدہ کرے تو یہ بلا کراہت جائز ہے۔


اقول: ھذا محمول علی ما إذا کان یحمل إلی وجھہ شیئاً یسجد علیہ، بخلاف ما إذا کان موضوعاً علی الأرض۔ (وقال بعد أسطر:) بأن مفاد ھذہ المقابلۃ والاستدلال عدم الکراھۃ في الموضوع المرتفع (شامی: ۲/۵۶۸) علامہ چلپیؒ نے بھی کراہت کو شکل اوّل پرمحمول کیا ہے (حاشیہ الشلبی علی التبیین: ۱/۲۰۰، ط: پاکستان) فتاویٰ عالمگیری میں بھی یہی تطبیق منقول ہے۔ (ہندیہ: ۱/۱۳۶، ط: زکریا)


مذکورہ بالا عبارات کاحاصل یہی ہے کہ کسی نصب شدہ اونچی چیز پر سجدہ کرنا، یا بغیر کچھ رکھے ہوئے سجدہ کے لیے صرف اشارہ کرنا دونوں جائز ہے، مگر مذکورہ ٹیبل والی کرسی پر سجدہ، حقیقی سجدہ نہیں ہوگا؛ بلکہ وہ بھی اشارہ ہی ہوگا، مذکورہ کرسی پر بیٹھ کر اگر کوئی شخص نماز پڑھائے گا تو اس کے پیچھے رکوع وسجدہ کرنے والوں کی نماز نہیں ہوگی، علامہ شامی لکھتے ہیں: إن کان الموضوع مما یصح السجود علیہ کحجر مثلاً ولم یزد ارتفاعہ علی قدر لبنۃ أو لبنتین فھو سجود حقیقي فیکون راکعاً وساجدًا، وإن لم یکن الموضوع کذلک یکون مومئاً فلا یصح اقتداء القائم بہ (شامی زکریا: ۲/۵۶۹) لیکن نبی کریم علیہ السلام اور دیگر صحابۂ کرامؓ کے منع کرنے کی وجہ سے اس کا غیر اولیٰ ہونا معلوم ہوتا ہے، نیز ایک خرابی یہ بھی ہے کہ ان لوگوں کو جو عام کرسی پر نماز ادا کررہے ہوں، اپنی نماز میں کمی کا شبہ ہوگا کہ ہم نے کسی میز پر سجدہ نہیں کیا، حکیم الامت حضرت تھانوی قدس سرہ نے بھی اس کو غیر اولیٰ کہا ہے: ’’سجدہ کرنے کے لیے تکیہ وغیرہ کوئی اونچی چیز رکھ لینا اور اس پر سجدہ کرنا بہتر نہیں، جب سجدہ کی قدرت نہ ہو تو بس اشارہ کرلیا جائے، تکیہ کے اوپر سجدہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ (بہشتی زیور: ۲/۴۵ بیمار کی نماز کا بیان)


اب اختصار کے ساتھ جواب کا ماحصل ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:

(۱) جو شخص قیام پر قادر نہ ہو، لیکن کسی بھی ہیئت پر زمین پر بیٹھ کر رکوع وسجدہ کے ساتھ نماز ادا کرسکتا ہے ، تو اس کو زمین ہی پر بیٹھ کر رکوع وسجدہ کے ساتھ نماز اداکرنا ضروری ہے، کرسی پر بیٹھ کر رکوع وسجدہ کے اشارے سے نماز ادا کرنا جائز نہیں، نماز نہیں ہوگی۔


(۲) اگر قیام پر قدرت ہے، لیکن گھٹنے کمر میں شدید تکلیف کی وجہ سے سجدہ کرنا طاقت سے باہر ہو، یا وہ شخص جو زمین پر بیٹھنے میں قادر ہے، مگر رکوع وسجدہ پر قدرت نہیں رکھتا تو یہ حضرات زمین پر بیٹھ کر نماز ادا کریں کرسیوں کو استعمال کرنا کراہت سے خالی نہیں؛ البتہ اگر زمین پر کسی بھی ہیئت میں بیٹھنا دشوار ہو تب کرسی پر نماز ادا کی جاسکتی ہے، کرسی استعمال کرنے کی صورت میں بھی عام سادہ کرسی پر نماز ادا کی جائے، ٹیبل والی کرسی پر نماز ادا کرنے سے احتراز کیا جائے، رکوع کے لیے تین نمبر کی شکل صحیح ہے۔ (اس جملے کا تعلق مستفتی کی بھیجی ہوئی تصویر سے ہے۔ (زین)


زمین یا کرسی پر نماز اداکرنے سے متعلق دو امر قابل لحاظ ہیں:

(۱) کرسی پر اشارہ کرنے کی صورت میں بعض لوگ رکوع میں ہاتھ کو ران پر رکھتے ہیں اور سجدہ کی حالت میں فضا میں معلق رکھ کر اشارہ سے سجدہ کرتے ہیں ایسا کرنا ثابت نہیں، رکوع وسجدہ دونوں میں ہاتھ کو ران پر رکھنا چاہیے۔


(۲) معذوری کی حالت میں زمین پر بیٹھ کر رکوع وسجدہ کے ساتھ نماز ادا کرنے کی صورت میں رکوع میں سرین کا زمین سے اٹھنا ضروری نہیں؛ بل کہ پیشانی کا گھٹنے کے مقابل ہونا ضروری ہے، جیساکہ امداد الاحکام میں ہے: بحالت جلوس رکوع کرتے ہوئے صرف اتنا ضروری ہے کہ پیشانی کو گھٹنے کے مقابل کردیا جائے، اس سے زیادہ جھکنے کی ضرورت نہیں، نہ سرین اٹھانے کی ضرورت ہے۔ (امداد الاحکام، ۱/۶۰۹)


اب کرسیوں پر نماز ادا کرنے والے حضرات اپنے احوال پر غور فرمائیں کہ کیا واقعتا وہ اس درجہ معذور ہیں کہ شرعاً ان کے لیے کرسی پر نماز اداکرنا جائز ہو، اگر وہ اُس درجہ معذور نہیں تو پھر کرسیوں پر نماز پڑھنے سے احتراز کریں؛ تاکہ مساجد میں بے ضرورت کرسیوں کی کثرت نہ ہو۔ بوقت ضرورت کرسی اختیار کرنے کی صورت میں ٹیبل والی کرسی اختیار نہ کی جائے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم


کتبہ الاحقر: زین الاسلام قاسمی الہ آبادی: نائب مفتی دارالعلوم دیوبند               

الجواب صحیح: حبیب الرحمن  عفا اللہ عنہ

الجواب صحیح: محمود حسن غفرلہ بلندشہری

الجواب صحیح:   فخر الاسلام     

(دارالعلوم شماره ٦ جلد: ٩٥ رجب ١٤٣٢ ہجری مطابق جون ٢٠١١ ء)


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: