جمعہ، 4 مارچ، 2022

بینک سے سود پر مبنی لون لے کر کار خریدنا سوال نمبر ١٩٧

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

مسئلہ یہ کہ ایک آدمی کار لینا چاہتاہے جسکی قیمت پندرہ بیس لاکھ ہے اس کے پیسے بھی موجود ہیں کیش اگر یہ نقد کار لیتا ہے تو انکم ٹیکس والے پوچھ تاچھ کرتے ہیں کہ پیسے  کہاں سے آئے وغیرہ تو کیا ایسی صورت میں قسطوں پر گاڑی اٹھا سکتے ہیں یا نہیں ؟

سائل محمد ارشاد بھوپال


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


سودی قرض لینا حرام ہے قرآن واحادیث میں اس پر سخت وعیدیں آئی ہیں ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے، سود دینے سود لکھنے اور اس پر گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی ہے اس لیے حتی الوسع اس سے بچنا ضروری ہے۔

لہذا بینک سے سود پر مبنی لون لینا شرعا ناجائز اور حرام ہے، کیونکہ اس کی ادائیگی کی ہرقسط پر سود دینا ہوتا ہے، جس طرح سود کا لینا حرام ہے، اسی طرح سود کا دینا بھی حرام ہے۔

بینک سے کار خرید نے کی ایک صورت فتاویٰ دارالعلوم دیوبند میں یہ لکھی ہے کہ اصل قیمت کے ساتھ آخر تک سودی رقم جتنی بھی ہو وہ ملا کر اس کی قیمت مقرر کی جائے اور پھر بلا کسی پینلٹی کے وہ رقم قسطوار ادا کریں تو جائز ہے۔


فتاوی دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں۔

سوال:کیا بنک سے کار کے لئے لوں لینا جائز ہے ؟ براہ کرم، اسلام کی روشنی میں اسکا جواب عطافرمائیں۔


جواب نمبر: 36956

بسم الله الرحمن الرحيم

بینک سے لون لینا جائز نہیں کیونکہ اس کی ادائیگی کی ہرقسط پر سود دینا ہوتا ہے، جس طرح سود کا لینا حرام ہے، اسی طرح سود کا دینا بھی حرام ہے۔ البتہ اگر کار بینک کے ذریعہ خریدتے ہیں تو جواز کی ایک صورت ہے وہ یہ کہ کار کی قیمت اور آخری قسط تک ادائیگی مع سود کے جس قدر رقم ان سب کی مجموعی کے عوض میں کار خرید لیں یعنی بینک والوں سے کہہ دیں کہ ہم اتنے میں آپ سے کار خریدتے ہیں، پھر اس مجموعی رقم کو قسط وار ادا کرتے رہیں۔ تو اس طرح آپ سود سے بچ جائیں گے اور کار کا خریدنا بھی صحیح ہوجائے گا۔ واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند


اسی طرح دوسرا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں۔

سوال نمبر: 171472

عنوان:بینک کے توسط سے گھر یا گاڑی لینا

سوال:زید نئی گاڑی لینا چاہتا ہے لیکن سوائے بینک کے توسط کے اور کوئی صورت نہیں بن رہی دو مرتبہ سیکنڈہینڈ لے کر تجربہ کیا لیکن دونوں دفعہ گاڑی میں کام نکل آیا تو اب کیا زید کے لئے نئی گاڑی بینک کے توسط سے لینا درست ہوگی؟ کیا فرماتے مفتیان کرام ذیل کے مسئلہ میں زید کے پاس اپنا ذاتی مکان نہیں ہے وہ غیر سودی قرض کے لیے لوگوں کے پاس گیا بھی لیکن امید بر نہیں آئی کسی نے انکار کیا تو کسی نے کہا بھائی آج کے دور میں کس پر بھروسہ کرے اب صرف بینک کا توسط بچتا ہے کیا زید کے لیے بینک کے توسط سے گھر خریدنا جائز ہوگا ؟


جواب نمبر: 171472

بسم الله الرحمن الرحيم

(۱)بینک کے توسط سے گاڑی خریدنے کی صورت میں خرابی یہ ہے کہ بینک ایک مشت رقم کمپنی کو ادا کرکے پھر قسطوار مع سود کے رقم وصول کرتا ہے اور اس طرح معاملہ کرنا شرعاً جائز نہیں ،یہ سودی معاملہ ہے؛البتہ اگر خود گاڑی کی کمپنی سے براہِ راست ادھار کا معاملہ ہوجائے اور کمپنی نقد کے مقابلے میں کچھ زائد رقم لے کر قسطوں میں رقم وصول کرے ،بشرطیکہ مجلسِ عقد ہی میں ثمن اور مدت کی تعیین ہو جائے تو اس طور پر خریدوفروخت کی گنجائش ہوگی۔


(۲)سودی قرض لینا حرام ہے قرآن واحادیث میں اس پر سخت وعیدیں آئی ہیں ،ایک حدیث میں آپ ﷺ نے سود لینے ،سود دینے ،سود لکھنے اور اس پر گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی ہے ؛اس لیے حتی الوسع اس سے بچنا ضروری ہے ؛البتہ صورتِ مسئولہ میں اگر زید کے پاس مکان نہیں ہے اور اس کے بغیر گذربسر مشکل ہے اور قرض بغیر سود کے کوئی دینے کے لیے تیار نہ ہو ایسی صورت میں اگر زید بقدرِضرورت سودی قرض لے کر مکان بنوالے تو ممکن ہے کہ وبال نہ ہو ۔ واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،دارالعلوم دیوبند


احادیث مبارکہ میں ہے۔

عن جابر رضي الله عنه قال: لعن رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم آکل الربا، ومؤکله، وکاتبه، وشاهدیه، وقال: هم سواء۔ (مسلم شریف،کتاب المساقاة والمزارعة، باب الربا، النسخة الهندیة، ۲/۲۷، بیت الأفکار رقم:۱۵۹۸، سنن أبي داؤد، کتاب البیوع، باب في آکل الربا ومؤکله، النسخة الهندیة ٢/٤٧٣ دارالسلام رقم: ٣٣٣٣).


عن فضالة بن عبید صاحب النبي صلی اﷲ علیه وسلم أنه قال: کل قرض جر منفعة، فهو وجه من وجوه الربا۔ (السنن الکبریٰ للبیهقي، کتاب البیوع، باب کل قرض جر منفعة فهو ربا، دارالفکر ٨/٢٧٦ رقم:۱۱۰۹۲، کنز العمال، دارالکتب العلمیة بیروت ٦/٩٩ رقم: ١٥٥١٢)


عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: أربع حق علی اللّٰہ علی أن لا یدخلہم الجنۃ ولا یُذیقہم نعیمہا: مُدمِنُ الخمر، وآکل الربا، وآکل مال الیتیم بغیر حق، والعاق لوالدیہ۔ (المستدرک للحاکم ٢/٣٧ الترغیب والترہیب مکمل ۲۱۸ رقم: ۲۸۷۱ بیت الأفکار الدولیۃ)


شامی میں ہے۔

کل قرض جر نفعًا حرام۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحة، فصل في البیع، ( زکریا ٩/٣٩٥)۔ واللہ اعلم بالصواب


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: