پیر، 28 مارچ، 2022

میت کے نام پر مسجد میں پیسے دینا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٢٦٠

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام ذیل کے مسٔلے میں ہمارے یہاں جنازے کے دفن کرنے کے فوراً بعد کچھ پیسے مسجدوں کے لئے تقسیم کیے جاتے ہیں کیا یہ پیسے مسجدوں میں لگ سکتے ہیں یا نہیں؟

سائل: عبد الحفیظ چوہان جموں وکشمیر انڈیا


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


اہلِ سنت والجماعۃ کا موقف یہ ہے کہ جو لوگ اس دنیا سے رخصت ہو جاتے  ہیں  ان کے لیے آدمی اپنی نفلی عبادتوں خواہ وہ مالی ہوں یا بدنی، یا دونوں سے مرکب، ان کا ثواب دوسرے زندہ یا مردہ لوگوں کو بخش سکتا ہے، دعا بھی کی جا سکتی ہے  اور ان کو اعمال ہدیہ بھی کیے جا سکتے ہیں،خواہ پڑھ کربخشا جائے یا خیرات اور حسنات بخشے جائیں،  کوئی بھی نیک عمل کسی مسلمان (زندہ، مردہ) کو ایصالِ ثواب پہنچانے کی نیت سے کرنا جائز ہے اور اس کا ثواب اس مسلمان کو پہنچتا ہے، اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، بس شرط یہ ہے کہ یہ اعمال نفلی ہوں اور ان پر دنیا میں کوئی اجرت نہ لی گئی ہو۔


البتہ ایصالِ ثواب اسی طرح کریں جس طرح سلفِ صالحین کرتے تھے اپنی ہمت کے موافق حلال مال سے مساکین کی خفیہ مدد کریں اور جو کچھ اعمال میں سے توفیق ہو اس کو پہنچا دیں، زیادہ نہ ہو سکے تو تین مرتبہ قل ہو اللّٰہ ہی پڑھ کر بخش دیں، جس سے پورے قرآن مجید کا ثواب مل جائے گا۔


مسؤلہ صورت میں جنازے کی تدفین کے فوراً بعد کچھ پیسے مسجدوں کے لئے ضروری سمجھ کر یا رواج کے طور پر تقسیم کئے جاتے ہو تو یہ درست نہیں ہے، البتہ ثواب کی نیت سے ویسے ہی تقسیم کئے جائے اور وہ للہ رقم ہو اور میت کے مال میں سے نہ ہو تو تقسیم کرنا بھی درست ہے اور اس کا مسجد میں استعمال کرنا بھی درست ہے۔


مشكاة المصابيح میں ہے۔

وعن سعد بن عبادة قال: يا رسول الله إن أم سعد ماتت، فأي الصدقة أفضل؟ قال: «الماء» . فحفر بئراً وقال: هذه لأم سعد. رواه أبو داود والنسائي۔ (مشكاة المصابيح ١/٥٩٧)


سنن أبي داود میں ہے۔

عن أسيد بن علي بن عبيد، مولى بني ساعدة عن أبيه، عن أبي أسيد مالك بن ربيعة الساعدي، قال: بينا نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذ جاء ه رجل من بني سلمة، فقال: يا رسول الله، هل بقي من بر أبوي شيء أبرهما به بعد موتهما؟ قال: «نعم الصلاة عليهما، والاستغفار لهما، وإنفاذ عهدهما من بعدهما، وصلة الرحم التي لا توصل إلا بهما، وإكرام صديقهما۔ (سنن أبي داود ٤/٣٣٦)


إعلاء السنن میں ہے۔

عن علي رضي اللّٰه عنه مرفوعاً: من مر علی مقابر، وقرأ: {قل هو اللّٰه أحد} إحدی عشرة مرة، ثم وهب أجره للأموات، أعطی من الأجر بعدد الأموات۔

وفیه أیضاً

عن أبي هریرة رضي اللّٰه عنه قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: من دخل المقابر، ثم قرأ فاتحة الکتاب، و قل هواللّٰه أحد، وألهکم التکاثر، ثم قال: اللّٰهم إني قد جعلت ثواب ما قرأت من کلامک لأهل المقابر من المؤمنین والمؤمنات کانوا شفعاء له إلی اللّٰه تعالی‘‘. (إعلاء السنن ٣٣١ ٣٣٠ /٨  رقم ۲۳۲٠ ۔۔ ۲۳۲۱)


فتاوی شامی میں ہے۔

صرح علماؤنا في باب الحج عن الغیر بأنّ للإنسان أن یجعل ثواب عمله لغیره صلاةً أو صومًا أو صدقةً أو غیرها، كذا في الهدایة. بل في زكاة التتارخانیة عن المحیط: الأفضل لمن یتصدّق نفلًا أن ینوي لجمیع المؤمنین و المؤمنات؛ لأنّها تصل إلیهم، ولاینقص من أجره شيءٍ اه هو مذهب أهل السنة والجماعة۔ (حاشية رد المحتار على الدر المختار مطلب في القراءة للمیت واھداء ثوابھا لہ ٣/١٥٠)


فتاوی شامی میں ہے۔

(قوله: بعبادة ما ) أي سواء كانت صلاةً أو صوماً أو صدقةً أو قراءةً أو ذكراً أو طوافاً أو حجاً أو عمرةً أو غير ذلك من زيارة قبور الأنبياء عليهم الصلاة والسلام والشهداء والأولياء والصالحين وتكفين الموتى وجميع أنواع البر، كما في الهندية ط. وقدمنا في الزكاة عن التاترخانية عن المحيط: الأفضل لمن يتصدق نفلاً أن ينوي لجميع المؤمنين والمؤمنات؛ لأنها تصل إليهم ولاينقص من أجره شيء۔ (حاشية رد المحتار على الدر المختار مطلب في إهداء ثواب الأعمال للغير  ٤/١٠)


فتاوی عالمگیری میں ہے۔

الأصل فی ہذا الباب أن الإنسان لہ أن یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلاۃ، أو صوما، أو صدقۃ، أو غیرہا عند أہل السنۃ والجماعۃ۔ (فتاوی عالمگیری کتاب المناسک، الباب الرابع عشر فی الحج عن الغیر، ١/٢۵٧ رشیدیہ)


فتح الباری میں ہے۔

وقال ابن حجر: والمراد بہا ما أحدث ولیس لہ أصل فی الشرع ، ویسمی فی عرف الشرع “ بدعة ” وما کان لہ أصل یدل علیہ الشرع فلیس ببدعة فالبدعة فی عرف الشرع مذمومة بخلاف اللغة فإن کل شيء أحدث علی غیر مثالٍ یسمی بدعة سواء کان محموداً أو مذموماً۔ (فتح الباری ۳۱۵/۱۳، باب الاقتداء بسنن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اشرفیہ دیوبند) واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: