منگل، 22 مارچ، 2022

عورت کا پردہ کس وقت کتنا ضر ری ہے؟ سوال نمبر ٢٤٤

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

حضرت مسئلہ یہ دریافت کرنا ہے کہ عورت کا پردۂ شرعی کیا ہے؟ اور وہ اپنے ستر کو کس مجبوری میں کھول سکتی ہے؟ اور ستر کی حد کیا ہے؟ اور اس کے چہرے اور آواز کے پردے کا شرعی حکم کیا ہے؟ مدلل و مفصل جواب دیکر ممنون ومشکور ہوں۔

سائل: مفتی محمد اجمیری


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعال


شرعی پردے کا مطلب یہ ہے کہ شریعت نے عورت کو جتنے پردے کا حکم دیا ہے، اس کا اہتمام کرتے ہوئے پردہ کرے، پردہ کے تین درجات ہیں۔


١-  شرعی حجابِ اشخاص

 یعنی عورتیں اپنے گھروں میں ہی رہیں اورمکمل طور پر اپنے گھروں میں رہ کر سارے اعمال کو انجام دیں بغیر حجاب کے عورت مرد کے سامنے نہ آئے، اللہ تعالیٰ نبی کے واسطے سے پوری امت کی عورتوں کو پیغام حجاب دیتے ہوئے اپنے نبی سے خطاب فرماتے ہیں، قران کریم میں ہے۔


قرآن کریم میں ہے۔

’’وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ الاُولی‘‘ (سورۃٔ احزاب آیت۳۳)

تفسیر عثمانی میں اس آیت کی تفسیرکرتے ہوئے یہ تحریر فرمایا ہے: یعنی اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں عورتیں بے پردہ پھرتی اور بدن اور لباس کی زیبائش کا اعلانیہ مظاہرہ کرتی تھیں،اس بد اخلاقی اور بے حیائی کی روش کو مقدس اسلام کب برداشت کرسکتا ہے اس نے عورتوں کو حکم دیا کہ گھروں میں ٹھہری رہیں، اور زمانہ جاہلیت کی طرح باہر نکل کر حسن وجمال کی نمائش نہ کرتی پھریں۔  


ایک اور جگہ ارشاد فرمایا ہے

’’واذا سالتموھن متاعا فالسئلوھن من وراء حجاب (الاحزاب آیت۵۳)

مولانا عبد الماجد دریابادی نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے:یعنی اتنا پردہ تو ضرورت کے وقت رہنا ہی چاہئے اور بلا ضرورت تو اس کا اہتمام اور اشد ہے…اور یہ حکم بھی ازواج مطہرات کے ساتھ خاص نہیں ہے، حجاب ہر نامحرم پر لازم اور ضروری ہے۔ ویدخل فی ذالک جمیع النساء بالمعنیٰ (قرطبی) (مظہری)


٢- بوقت ضرورت پردہ

جب عورت کو گھر سے باہر جانا پڑے تواس وقت کسی برقع یالمبی چادر کو سر سے پیر تک اوڑھ کر نکلے جس کاحکم قرآنی آیت {یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ} (الاحزاب:۵۹)  میں دیا گیا ہے، مطلب یہ کہ سر سے پاؤں  تک عورت اس میں لپٹی ہو اور چہرہ اور ناک بھی اس میں مستور ہو، صرف ایک آنکھ راستہ دیکھنے کے لیے کھلی ہو۔


٣-ستر شرعی

ستر شرعی فرض ہے۔ عورت کا پورا بدن سوائے چہرا اور ہتھیلیاں اور پیروں کا وہ حصہ جو ٹخنوں کے نیچے کاہے ان کے علاوہ پورا بدن ستر ہے بغیر کسی اعذار کے اس کو نامحرم کے سامنے ظاہر کرنا جائز نہیں ہے، قران مجید میں ہے۔

’’لایبدین زینتھن الا ما ظھر منھا‘‘ (سورۂ نور ۳۱) 


مولانا ادریس کاندہلوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے  {وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ} کے تحت لکھا ہے :

’’عورت کو اپنی یہ زینتِ ظاہرہ (چہرہ اوردونوں ہاتھ) صرف محارم کے سامنے کھلا رکھنے کی اجازت ہے، نامحرموں کے سامنے کھولنے کی اجازت نہیں، عورتوں کو اس بات کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں کہ وہ سربازار چہرہ کھول کر اپنا حسن وجمال دکھلاتی پھریں، حسن وجمال کا تمام دارومدار چہرہ پر ہے اور اصل فریفتگی چہرے پر ہی ختم ہے، اس لیے شریعتِ مطہرہ نے زنا کا دروازہ بند کرنے کے لیے نامحرم کے سامنے چہرہ کھولنا حرام قراردیا‘‘ . (معارف القرآن، کاندھلوی رح)


أئمہ اربعہ میں سے امام شافعیؒ ،امام مالکؒ، امام احمدؒ نے تو چہرہ اور ہتھیلیاں کھولنے کی بھی مطلقاً اجازت نہیں دی، خواہ فتنہ کا خوف ہو یا نہ ہو، البتہ امام اعظمؒ  نے فرمایا کہ اگرفتنہ کاخوف ہو تو کھولنا منع ہے، لیکن اس زمانہ میں خوفِ فتنہ نہ ہونے کا احتمال شاذ و نادر ہے اور نادر معدوم کے حکم میں ہوتا ہے، اس لیے متأخرین فقہاءِ احناف نے بھی وہی فتویٰ دے دیا جو أئمہ ثلاثہ نے دیا تھا کہ جوان عورت کے چہرہ یا ہتھیلیوں کا کھولنا ناجائز اور پردہ کرنا ضروری ہے۔

قدوری میں ہے۔

’’ولا یجوز ان ینظر الرجل من الاجنبیۃ الا الی وجھھا وکفیھا فان کان لا یامن من الشھوۃ لم ینظر الی وجھھا الا لحاجۃ‘‘(قدوری )

صاحب بحر الرائق چہرے کے ستر کے سلسلہ میں رقم طراز ہے،

قال مشائخنا تمنع  المرءۃ الشابۃ من کشف وجھھا بین الرجال فی زماننا للفتنۃ (البحرالرائق جلد۱/ص۵۷۰)


تفسير الألوسي میں ہے۔

وقال ابن عباس وقتادة: تلوي الجلباب فوق الجبين وتشده ثم تعطفه على الأنف وإن ظهرت عيناها لكن تستر الصدر ومعظم الوجه، وفي رواية أخرى عن الحبر رواها ابن جرير، وابن أبي حاتم وابن مردويه تغطي وجهها من فوق رأسها بالجلباب وتبدي عيناً واحدةً۔  (روح المعاني ١١/٢٦٤)


یعنی خدائے پاک نے مسلمان عورتوں کو حکم دیا کہ اپنے سروں اور چہروں کو ڈھانک کر نکلیں اور صرف ایک آنکھ  یا دو آنکھیں کھلی رکھیں۔


ضرورت کے وقت کشف عورت

لیکن جہاں شریعت نے ستر کا حکم دیا ہے وہی پر اعذار کی صورت میں کشف عورت کی اجازت دی ہے ۔ کشف عورت کی مختلف صورتیں ہے۔

(۱)مکمل کشف بدن۔

(۲)ستر شرعی میں سے کسی عضو کو کھو لنا۔ 

(۳)ستر حکمی کو کھولنا ۔


(۱)مکمل کشف بدن 

جہاں تک پہلی صورت کی بات ہے تو وہ کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے عورت کو مکمل برہنہ ہونے کی اجازت صرف اس کے شوہر کے سامنے ہے ان کے علاوہ کے سامنے وہ نہیں کھول سکتی لیکن یہاں پر بھی اچھایہ ہے کہ اس وقت بھی بقدر ضرورت کشف عورت ہو، جیسا کہ صاحب ھدایہ نے تحریر فرمایا ہے اللہ کے رسول کی ایک حدیث کو بیان کر کے کہ جب تم اپنی بیوی سے ہم بستری کریں تو جتنا ہو سکے اتنا ستر کریں مکمل برہنہ نہ ہوجائیں

’’لقولہ علیہ السلام إذا أتی أحدکم اھلہ فلیستتر مااستطاع ولا یتجردان تجرد العیر‘‘(ھدایہ ٤/٤٦)


(۲)ستر شرعی میں سے کسی عضو کو کھو لنا۔

ستر شرعی عورت کے لیے چہرہ ہتھیلیاں اور پیر کا ٹخنوں کے نیچے کا حصہ ان تین کے علاوہ پورا بدن سترشرعی میں داخل ہے لہذا اس میں سے کسی بھی عضو کاکھولنا کسی نا محرم کے سامنے بلا کسی عذر شرعی کے جائز نہیں ہے، عذر شرعی جیسے لیڈی ڈاکٹر کی عدم موجودگی میں مریضہ کا مرد ڈاکٹر سے علاج کروانا۔ صاحب ہدایہ رقم طراز ہے۔

’’ویجوز للطبیب ان ینظر الی موضع المرض منہا للضرورۃ‘‘ (ہدایہ ٤/٤٦١ قدوری ۲٦۵)

لیکن اگر ستر غلیظ ہوتو ایسی صورت میں کسی عورت کو اس کے علاج کا طریقہ بتلادے اور دور سے اس کا جائزہ لیوے الا یہ کہ کوئی ایسی صورت نہ ملے تو گنجائش ہے کہ جتنے عضو میں علاج کی ضرورت ہواس کو کھولے اور مابقیہ کا استار ضروری ہے اور نظروں کو جھکائے رکھے جتنا ہوسکے ۔

ہدایہ میں ہے۔

ویجوز للطبیب ان ینظر الی موضع المرض منھا للضرورۃ، وینبغی ان یعلم امرئۃ  مدا واتھا لأن نظر الجنس الی الجنس اسھل فان لم یقدروا یستر کل عضو منہا سوی موضع المرض ثم ینظر ویغض بصرہ ما استطاع لان ما ثبت بالضرورۃیتقدر بقدرھا۔ (ھدایہ ٤/٤٦١)

فتاوی شامی میں ہے۔

ثم یداویھا الرجل ویغض بصرہ مااستطاع إلا عن موضع الجرح۔ (شامی ج۱۰/ص۵۳۳) 

(٣)ستر حکمی کو کھولنا

یعنی چہرے کا پردہ سترِ عارضی کے لئے  دو چیزیں ضروری ہیں

 (۱)عام حالات میں ستر وجہ

(۲) بوقتِ ضرورت بقدر ضرورت کشف وجہ

(۱)عام حالات میں ستر وجہ 

عام حالات میں عورت کے لئے سترِ وجہ وجوب کے درجہ میں ہے اکثر علماء نے فتنہ کے خوف کی وجہ سے اسکو وجوب کا درجہ دیا ہے ،قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ مسلمان عورتوں کو حکم فرمارہے ہیں،جب باہر نکلیں تو اپنی چادروں کو کچھ آگے کی طرف کھینچ لیں

’’یا ایہا النبی قل لازواجک وبناتک و نساء المومنین یدنین علیھن من جلابیبھن‘‘ (سورۂ أحزاب آیت۳۳)

تفسیرِ عثمانی میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے رقم طراز ہے:جب یہ آیت نازل ہوئی تو مسلمان عورتیں اپنے چہرے اس طرح سے چھپا کر نکلتی تھی کہ صرف ایک آنکھ کھلی رہے۔

قرآن کریم کی آیت’’لا یبدین زینتھن إلا ماظھر منھا‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے علامہ صابونی رقم طراز ہے کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو بذاتِ خود کھُل جائے پس اس کو عمداً پر محمول کرنا یہ قرآن و حدیث کی مراد کے مخالف ہے۔


روائع البیان میں ہے۔

والظاھر من الآیۃ أن القرآن ینھی عن إبداء الزینۃ ویرخص فیما إذا ظھر من غیر قصد، فالتوسع فی حد ھذہ الرخصۃ إلیٰ إظھارھا (عمداً)مخالف  للقرآن ومخالف للروایات التی یثبت بھا أن النساء فی عھد النبی ﷺ ماکن یبرزن إلی الجانب سافرت الوجوہ،وأن الأمر باالحجاب کان شاملاً للوجہ،وکان النقاب قد جعل جزء اًمن لباس النساء إلا فی الإحرام‘‘ (روائع البیان ج۲/ص۱۷۴)

علامہ شامی نے اپنی عبارت میں اسی طرف إشارہ کیا ہے کہ عام حالات میں عورت کو کشف وجہ و کشف ید سے روکا جائے گا۔


فتاوی شامی میں ہے۔

وتمنع المرأۃ الشابۃ من کشف الوجہ بین الرجال لا لأنہ عورۃ،بل لخوف الفتنۃ …والمعنیٰ یمنع من الکشف لخوف أن یریٰ الرجال وجھھا فتقع الفتنۃ‘‘(شامی ج۲/ص۷۹)

صاحب بحر نے بھی عام حالات میں عدم کشف کا فیصلہ دیاہے

’’قال مشائخنا تمنع المرء ۃ الشابۃ من کشف وجھھا بین الرجال فی زماننا للفتنۃ‘ (البحرالرائق ١/٥٧٠)


(۲)بوقت ضرورت بقدرِ ضرورت کشف وجہ

اتنی بات تو صاف ہے کہ تمام فقہاء نے بوقت ضرورت بقدرِ ضرورت کشفِ وجہ و نظر وجہ کی اجارت دی ہے،یعنی اگر کسی وجہ سے عورت کے چہرے کو دیکھنے کی ضرورت پر جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے جب کہ فتنے کا خوف نہ ہو اور اگر فتنے کا خوف ہو تو دیکھنے کی اجازت نہیں ہے

وأما النظر إلی الأجنبیات فنقول یجوز النظر إلی مواضع الزینۃ الظاھرۃ منھن وذلک الوجہ، و الکف فی الظاھرالروایۃ، کذا فی الذخیرۃ، إن غلب علیٰ ظنہ أن یشتھی فھو حرا ھکذا فی الینابع (فتاویٰ عاملگیری ۵/۳۲۹)

علامہ شامی نے ضرورت کے وقت نظرِوجہ کے جواز کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔

’’ینظرمن الأجنبیۃ إلی وجھھا و کفیھا فقط للضرورۃ، قیل والقدم‘‘ (فتاویٰ شامی۹/۵۳۱)

فتاویٰ تاتار خانیہ میں ان الفاظ میں نظر وجہ کے جواز کو نقل کیا ہے

’’وأما النظر إلی الاجنبیات فنقول:یجوز النظر إلی مواضع الزینۃ الظاھرۃ منھن،وذلک الوجہ والکف فی ظاھر الروایۃ‘‘ (فتاویٰ تارتاخانیہ، ۱۸/۹۲)

سنن أبی داؤد میں نظر وجہ کے جوازکو ان الفاظ میں بیان کیا گیاہے’’أخرج ابوداؤد عن عائشۃ أن أسماء بنت أبی بکر دخلت علیٰ رسول اللہ ﷺوعلیھا ثیاب رقاق فأعرض عنھا رسول اللہ ﷺ وقال: یا أسماء إن المرأۃ إذا بلغت المحیض لم یصح لھا إلا ھذا وھذا،وأشارألیٰ وجھہ وکفیہ(سنن أبی داؤد ج۲ص۵۶۷) (حاشیہ فتاویٰ تارتاخانیہ، ۱۸/۹۲)


عورت کی آواز کا شرعی حکم

عورت کی آواز کے بارے میں اگر چہ فقہائےکرامؒ کا اختلاف ہے، لیکن صحیح قول کے مطابق عورت کی آواز اپنی اصل کے اعتبار سے ستر میں داخل نہیں ہے، البتہ بلاضرورت اجنبیہ عورت کے کلام کو سننا اوراس سے بات کرنا ممنوع وناجائز ہے، اگر بات کرنے کی ضرورت پیش آئے تو پردے میں رہ کر، لب ولہجہ میں سختی ودرشتی کے ساتھ بات کرناچاہیے، نیز عورتوں کے لیے بھی جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی آواز بلاضرورت کسی اجنبی مرد کو سنائیں۔


فتاویٰ شامی میں ہے۔

(قوله وصوتها) معطوف على المستثنى يعني أنه ليس بعورة (قوله على الراجح) عبارة البحر عن الحلية أنه الأشبه. وفي النهر وهو الذي ينبغي اعتماده. (فتاوی شامی :٢/٢٧)


اصل مقصد فتنہ کے دروازوں کو بند کرنا ہے،جہاں غیر محرم تک آواز پہنچنے اورپہنچانے میں فتنہ کا اندیشہ ہو، وہاں اس سے احتیاط کرنا واجب ہے۔


شامی میں عورت کی آواز کے سلسلہ میں یہ عبارت نقل کی ہے۔

(ولا تلبي جهرا) بل تسمع نفسها دفعا للفتنة؛ وما قيل إن صوتها عورة ضعيف (قوله دفعا للفتنة) أي فتنة الرجال بسماع صوتها (قوله وما قيل) رد على العيني۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين-رد المحتار: ٣/٥٥١)


فتاویٰ شامی میں ہے۔

وللحرة جمیعُ بدنہا خلا الوجہ والکفین والقدمین علی المعتمد وصوتہا علی الراجح ۔۔۔۔۔۔۔ قولہ علی الراجح عبارة البحر عن الحلیة أنہ الأشبہ وفی النہر وہو الذی ینبغی علیہ اعتمادہ الی قولہ: فانا نجیز الکلامَ مع النساء للأجانب ومحاورتہن عند الحاجة الی ذٰلک، ولا نجیزلہُنَّ رفعَ أصواتہن ولا تمطیطہا ولا تلیینہا وتقطیعہا ؛ لما فی ذٰلک من استمالة الرجال الیہن وتحریک الشہوات منہم، ومن ہٰذا لم یجز أن توٴذن المرأة۔۱ھ (فتاویٰ شامی ٢/ ۷۸-۷۹ ۔ط: زکریا، دیوبند)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: